Translate

جمعرات، 26 فروری، 2015

مستنصر حسین تارڑ ریڈرز ورلڈ اور تکیہ تارڑ

آج کے افراتفری کے دور میں عام خیال یہ کیا جاتا ہے کہ لوگوں کو کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں رہا اور اگر جنہیں ہے بھی تو وہ کتابیں خرید کر نہیں پڑھتے۔ کتابیں خرید کر پڑھنے کا رواج بے شک اب بھی کچھ کم ہے کیونکہ آج ہمارے ہاتھ میں  موجود ڈیوائس میں ہی ہم تمام کتابیں ڈاؤنلوڈ کر کے پڑھ سکتے ہیں  لیکن پڑھنے کا رجھان بڑھتا جا رہا ہے پھر بے شک وہ کوئی نئی کتاب خرید کر پڑھنا ہو یا پھر پُرانی کتابوں میں سے اپنی پسند کی کتابیں خریدنا ہو یا پھر لائبریری اور دوستوں سے لے کر پڑھنا اور اس کا ثبوت لٹریچر فیسٹیولز اور بُک فئیرز میں لوگوں کا بے تحاشہ ہجوم فراہم کرتا ہے۔

کتابوں سے محبت کرنے والے لوگ صرف اُس میں موجود لفظوں سے ہی نہیں بلکہ اُس کی خوشبو اور لمس سے بھی عشق رکھتے ہیں اور اُن کی تسکین کتاب کو ہاتھ میں لےکرپڑھنے سے ہی ہوتی ہے۔ایسے افرادزیادہ تر اپنے پسندیدہ اور  مخصوص مصنفین کو ہی پڑھتے ہیں اور نہ صرف اُنہیں پڑھتے ہیں بلکہ اُن سے عشق رکھتے ہیں اور اُنھیں اپنا مرشد سمجھتے ہیں۔ایسے ہی  کتابوں کے کچھ عشاق نے فیس بک پر'مستنصر حسین تارڑ ریڈرز ورلڈ  'کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا  جو کہ ہمارے ملک کے مایہ ناز مصنف مستنصر حسین تارڑ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے وجود میں آیا تھا۔ اس کے  بانی کینیڈا میں مقیم محمد عاطف فرید ہیں اور ایڈمینز میں تہمینہ صابر ، سمیرا انجم ،جمیل عباسی ، نسرین غوری شامل ہیں ۔ یہی نہیں اس  گروپ کی خاص بات یہ ہےکہ اس میں تارڑ صاحب کی بیگم محترمہ میمونہ تارڑ صاحبہ ،بھائی مبشر حسین تارڑ صاحب  اور صاحبزادے سلجوق تارڑ بھی شامل ہیں ۔  یہ ایک ایسی دنیا ہے جس  نے تارڑ صاحب سے عشق رکھنے والوں کا آپس میں ملاپ کروایا اور نہ صرف یہ بلکہ تارڑ صاحب سے ملاقات کے سلسلہ کی بھی ابتداء کی۔
ریڈرز ورلڈ میں شامل ہونے والے لوگ ایک فیملی کی صورت اختیار کرتےجا رہے ہیں جو ساتھ مل کر بہت سی سرگرمیوں اور  تقاریب  کا انعقاد کرتے ہیں۔جن میں تارڑ صاحب سے ملاقات ایک اہم تقریب ہوتی ہیں۔ تارڑ صاحب پاکستان کےجس شہر میں بھی کسی کانفرنس یا فیسٹیول میں شرکت کے لئے جاتے ہیں ریڈرز ورلڈ کے ایڈمن اور ممبران مل کر اُن سے ملاقات کا کوئی نہ کوئی ذریعہ دریافت کر لیتے ہیں اور تارڑ صاحب اتنے مہربان اور مشفق ہیں کہ ہو ان کو کبھی نہیں ٹالتے اور سب سے مل کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ایسی ملاقاتوں میں ممبران تارڑ صاحب کی کتابوں میں سے اقتباسات پڑھتے ہیں اور اُن سے سوالات پوچھتے ہیں جن کے جوابات وہ خندہ پیشانی سے دیتے ہیں اور بلکل ایک دوستانہ اور گھریلو ماحول ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک تقریب کا ذکر  میں اپنے بلاگ  طویل سفر کے بعد ایک خوشبو بھری ملاقات، مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ساتھمیں کر چکی ہوں۔ تارڑ صاحب نے چونکہ زیادہ ترسفرنامے لکھے ہیں تو ان کے سفرناموں کو پڑھ کر بے شمار لوگ  سفر کرکے اُن کے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے اُن مقامات تک پہنچتے ہیں اور اب ریڈرز ورلڈ کے بہت سے ممبران مل کر ایسے سفر پر نکلتے ہیں ۔اس موضوع پر ایک نظم       تمھارے کہے لفظبھی لکھ چکی ہوں۔

یکم مارچ ۲۰۱۳ کو یومِ مستنصر قرار دیا گیا اوراب ہر سال یکم مارچ کو یومِ مستنصر منایا جاتا ہے۔  یکم مارچ ۲۰۱۴کو  تارڑ صاحب کی ۷۵ ویں سالگرہ منائی گئی اور ۲۰۱۴ کے سال کو' تارڑ صاحب کا سال 'قرار دیا گیا اور اس سلسلے میں ریڈرز ورلڈ نے بہت سی تقریبات  کا انعقاد کیا۔جس میں کریٹیو رائٹنگ ورکشاپ،  لاہور کے اولڈ سٹی کی سیر اور تارڑ صاحب سے ملاقات وغیرہ۔ لیکن ریڈرز ورلڈ کی ایک  نہایت عمدہ کاوش ' تکیہ تارڑ' ہے جو کہ ریڈرز ورلڈ کے تمام ممبران کے لئے تسکین اور تشفی کا کام کرتی ہے۔

'تکیہ' بنیادی طور پر بیٹھنے کی جگہ کو کہا جاتا ہے اور پنجاب میں خصوصاً اس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں بیٹھ کر قصّے کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ اس محفل کے انعقاد کے لئے صرف پُر سکون ماحول میں بیٹھنے کی جگہ ، چند کتابیں اور ایسے دوستوں کی ضرورت ہوتی ہیں جو کتابوں سے شغف رکھتے ہو۔  'تکیہ تارڑ' سے مراد ایسی محفل ہیں جس میں تارڑ صاحب کو پڑھنے والے اور ان سے چاہت رکھنے والے جو اپنے آپ کو متاثرِ تارڑ کہلانا پسند  کرتے ہیں، اکٹھے ہو کر تارڑ صاحب کی کتابوں میں سے  اپنی پسند اور ذوق کے مطابق اقتباسات پڑھتے ہیں اور ان پر تبادلہ خیال بھی کیا جاتا ہے۔

تارڑ صاحب اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں:
 "پچھلے بیس برس سے ہر سویر ماڈل ٹاؤن پارک میرے لیے ان زمانوں کی کرپشن، بے ایمانی اور دہشت گردی سے وقتی فرار کی ایک پناہ گاہ رہا ہے۔ وہاں نہ صرف بھانت بھانت کے پرندے چہکتے ہیں بلک عجیب و غریب خصلتوں اور عادتوں کے انسان بھی سیر کرتے پائے جاتے ہیں۔ مثلاً وہاں سیر کے بعد جو اجتماع ہوتا ہے اور جسے ایک زمانے میں ’’تکیہ تارڑ‘‘ کا نام دیا گیا تھا اگرچہ ان دنوں وہی تکیہ تارڑ کو ہوا دینے لگا ہے وہاں نہ صرف نہایت متمول صنعتکار، ریٹائرڈ بینکر، انجینئر، مذہب سے شغف رکھنے والے اور مذہب سے باغی براجمان ہوتے ہیں بلکہ ادب اور شاعری سے والہانہ محبت کرنے والے اور ٹاٹ کے سوداگر بھی رونق افروز ہوتے ہیں۔۔۔ یہ سب لوگ بنیادی طور پر پر خلوص اور محبت کرنے والے ہیں"

ریڈرز ورلڈ کے بہت سے ممبران تارڑ صاحب سے ملاقات کی غرض سے مادل ٹاؤن کے اس پارک میں صبح سویرے پہنچ جاتے ہیں اور وہاں اس تکیہ تارڑ میں بھی شریک ہوتے ہیں ۔ یہی دیکھ کر ایڈمینز نے ریڈرز ورلڈ کے ممبران کو ایک ایسا پلیٹ فورم فراہم کرنا چاہا جس میں  ممبران کم از کم مہینے میں ایک بار مل بیٹھ کر اپنے پسندیدہ مصنف ، ڈرامہ نگار، میزبان،کالم نگار، کوہ نوردسفرنامہ نگار،۔آوارہ گرد( جیسا تارڑ صاحب خود کو کہلوانا پسند کرتے ہیں ) جناب مستنصر حسین تارڑ کی کتب پڑھے اور اس پر نہ صرف تبادلہ خیال کرے بلکہ اس تقریب کی رپورٹ بھی تحریری صورت میں ایونٹ پیج پر پوسٹ کرے جو کہ 'تکیہ تارڑ' کے نام سے تشکیل دیا گیا ہے۔

'تکیہ تارڑ 'کو منعقد کرنے کے لئے کسی خاص مقام تجویز نہیں کیا گیا ہے  اور نہ ہی کوئی خاص شہریا ملک۔ متاثرینِ تارڑ میں سے جب جو چاہے اور جہاں چاہے اور جس طرح چاہے اس کا انعقاد کر سکتا ہیں۔  اب تک جتنے بھی تکیہ تارڑ منعقد ہوئے وہ مختلف مقامات اور مختلف طریقوں سے منعقد کئے گئے۔ کچھ ممبران نے ایک پارک کو منتخب کیا اور اُس میں بیٹھ کر کتابوں سے لطف اندوز ہوئے تو کچھ نے اپنے گھر میں دوستوں اور ممبران کو بلا کر اس محفل کو سجایا۔ کچھ نے  سکائپ پراپنے دوستوں کے ساتھ آن لائن اس محفل کا انعقاد کیا تو کچھ نے متاثرین تارڑ جو تارڑ صاحب کے سفر ناموں کو پڑھکر خود بھی سفر پر نکل کھڑے ہوتے ہیں ، سفر کے دوران بس کی چھت پر ہی اس محفل کو منعقد کیا اور کچھ نے ان جگہوں پر پہنچ کر تارڑ صاحب کی کتابوں میں سے اُن جگہوں کے متعلق اقتباسات پڑھ کر اپنے سفر کو یادگار بنایا تو کچھ نے نائٹ کیمپنگ کر کے لالٹین کی روشنی میں بھی ان کتابوں کو اپنا ہمسفر کیا ۔اساتزہ کے ایک گروپ نے اپنے اسکول میں فارغ وقت میں 'تکیہ تارڑ' منعقد کیا جو بہت شاندار طریقے سے انجام پایا۔متاثرینِ تارڑ نہ صرف تکیہ تارڑ منعقد کرتے ہیں اور اس پر تبادلہ خیال سے لطف اندوز ہوتےہیں بلکہ اپنی ان تقریبات یعنی تکیہ تارڑ کا پورا احوال بھی بمع تصویروں کے تحریر کرتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ تصویروں کا ایک کولاج میں یہاں پوسٹ کر رہی ہوں جس سے آپ کو ان کی دیوانگی اور کتابوں سے محبت کا اندازہ ہو جائے گا۔


یکم مارچ۲۰۱۵ کو تارڑ صاحب کی ۷۶ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے اور اس کی تقریب میں بھی ریڈرز ورلڈ کے ممبران پاکستان کے تمام شہروں سے شرکت کریں گے۔ اس سلسلے میں ریڈرز ورلڈ کی ایک ممبر نورین تبسم نے تجویز پیش کی کہ تارڑ صاحب کوفروری کا پورا مہینہ ان کے لفظوں کا نزرانہ پیش کیا جائے نورین لکھتی ہیں " یوم مستنصر حسین تارڑ تک روزانہ اس دوست کے لئے ،اس کے اپنے الفاظ سے بہتر کوئ تحفہ نہیں جو تنقید و توصیف سے بےنیاز ہمیشہ دل کی باتیں کہتا ہے ۔ ہم نے یکم مارچ سے سال ۲۰۱۴ اُس کے نام کیا۔ یہ ہماری طرف سے ایک ادنٰی کاوش تھی۔ اب یکم مارچ۲۰۱۵ تک صرف فروری کے ۲۸ روز درمیان میں ہیں۔ ان اٹھائیس (۲۸)روز میں ہم نے ہر روز اس کو اس کے لفظ کا تحفہ دینا ہے"
 ریڈرز ورلد کی دیوار (wall) پر ممبران تارڑ صاحب کی کتب میں سے اقتباسات لکھ کر پوسٹ کرتے ہیں تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ ان سب کے اپنے دلوں کا حال بھی لوگوں تک پہنچایا جائے اُن کے اپنے لفظوں کی صورت تو ایسے ہی کچھ متاثرینِ تارڑ کے تاثرات میں  جو انہوں نے 'تکیہ تارڑ' کی وال پر لکھیں ذیل میں  درج کر رہی ہوں۔

شاہ جی لکھتے ہیں:
"قائد کا ایک اشارہ ،حاضر حاضر لہو ہمارا''،اور یوں ہاکس بے کے ساحل کے نظاروں کے قریب ہم نے سر تارڑ کی ''سنو لیک''اور ''کالاش'' کے نظاروں کےساتھ ''دیس ہوئے پردیس میں ''سے پرانی کراچی کے ٹراموں والی بندر روڈ کے نظارے کئے اور خوب کئے ،ہفتہ کی شام پانچ بجے سے شروع ہونی والی ''تکیہ تارڑ ''کی یہ محفل اس لحاظ سے باقی تکیہ محفلوں سے ممتاز کہلانے کا استحقاق رکھتی ہے کہ یہ محفل رات ساڑھے تین بجے تک چلتی رہی ۔"

فریال عثمان خان جو کہ تارڑ صاحب کے لفظوں کو پڑھتے ہوئے خود بھی ٹریکر بن چکی ہیں لکھتی ہیں:
"سبھی نے اپنے اقتباس پڑھ ڈالے۔کچھ مزے کے قصے سناتے رہے، کچھ حسب حال جو گزری سر کی کتابیں پڑھ کر وہ سناتے رہے۔ان میں کسی کی قلبی واردات کا حال پوشیدہ تھا کسی کی زندگی کا رخ کیسے بدل گیا اور کوئی کیسے برف سفید جنگل کی تنہائی کا اسیر ہو گیا سر کے ساتھ ساتھ ۔"

فرح وقاص خان لکھتی ہیں:
"پاکستان کے شمالی علاقے قدرتی حسن سے مالا لال تو ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کس کافر کو انکار ہے، لیکن جس ہستی نے ان نظاروں کی زبان ایک عام قاری کے لیئے قابل فہم بنائی وہ بلا شبہ تارڑ صاحب ہیں۔ سو یہ نشست تارڑ صاحب کی ادبی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیئے رکھی گئی ہے۔"

سید عرفان احمد لکھتے ہیں:
"مستنصر صاحب کی شخصیت، اُن سے پہلی ملاقاتیں، اُن کے ساتھ کے واقعات اور باتیں، اُن کے سنائے ہوئے واقعات، اور اُن کی کتابیں ۔۔۔ جس کے پاس جو کچھ تھا، اُس نے درختوں کے اس جُھنڈ کی ٹھنڈی چھاؤں کی طرح پھیلا دیا۔"

رانا عثمان نے تارڑ صاحب سے ماڈل ٹاؤن کے پارک میں ملاقات کا حال لکھتے ہوئے لکھا:
دُھند نے ماڈل ٹاؤن پارک کو ایسے ُچھپا رکھا تھا کہ جیسے وہ کوئی گوہر نایاب ہو لاہور شہر میں ....گوہر نایاب تو ہونا تھا کہ جس پارک کو تارڑ جیسا لکھاری رونق بخشتا ہو اسے گوہر نایاب ہونا ہی تھا سارے شہر کی دھند تارڑ صاحب کے لئےاس روز ماڈل ٹاؤن میں اتر آئی تھی کہ بلاشبہ جانتی تھی کہ دھندآلود منظر اس لکھاری کو کتنا بھاتا ہے۔


علی کامی تکیہ تارڑ کے احوال کا اختتام کرتے ہوئے لکھتے ہیں

"مجموعی طور پر ایک شاندار شام اپنے اختتام کو پہنچی بے شک تارڑ سر تکئیہ تارڑ میں خُود موجود نہیں ہوتے لیکن لوگ اس محفل میں شریک ہوتے ہیں وہ بذاتِ خُود تارڑ ہوتے ہیں کہ اس نفسا نفسی کے دور میں جہاں اپنے لیے وقت نہ ہو وہاں کسی کے نام پر ایک خاندان کی طرح مختلف لوگوں کا اکٹھے ہونا بلاشُبہ بہت بڑی بات ہے۔"-

محمّد عمیر ساقی لکھتے ہیں:
" نومبر کو پنڈی میں ہونے والے تکیہ تارڑ کی اچانک منسوخی کے باعث میں نے اور فرخ شہزاد نے طے کیا کہ ہم اپنے جنگل نائٹ کیمپ میں ایک مختصر سا تکیہ تارڑ بھی کر لیں۔ یہ طے پانا تھا کہ باقی سامان کے ساتھ ساتھ تارڑ سب کی کچھ کتابیں بھی بیگ میں رکھیں۔ فرخ بھائی نے مختلف کتابوں سے اقتباس پڑھے لالٹین کی روشنی میں۔"

زاہد عامر لکھتے ہیں:
"یوں تو تکیہ تارڑ کا انعقاد مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پہ جاری ہے مگر کراچی کے کنٹری سائیڈ chalet 
میں اچانک تکیہ تارڑ کا سمیرا انجم کی طرف سے بطرز منادی کچھ نرالہ ہی تھا.. فون کی گھنٹیاں بجنے لگیں.. ایس ایم ایس کے بنڈل بکھرنے لگے اور ان میں بس ایک ہی اعلان تھا کہ 'سجا ہے تکیہ اور سب کو ہے جانا' "

"میں اور فیضان نے نے کتاب منتخب کی 'منہ ول کعبے شریف ' صفحات تھے احرام باندھنے کے عمل اور اس کے تقاضوں کے بارے. پڑھتے پڑھتے مجھ پر واقعی ایک مختلف کیفیت طاری تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ موسیقی کا بے ہنگم شور کہیں دب گیا ہے۔ مجہھے لگا کہ اس کلب کے تمام درخت ، پتے ، ہمیں سن رہے ہوں۔ پانی میں اک سکوت ہو۔ اسکی گہرائی میں بھی یہ آواز پہنچ رہی ہو۔ میں نے فیضان قادری کو کہا کہ بخدا دو مرتبہ یہ احرام بآندھ کر بھی میں اس کے باندھنے کا صیح طریقہ اور مقصد نہ سمجھ سکا جو مجہھے ایک غیر مولوی نے سمجھا دیا اور پھر ہم اپنے حصے کا اقتباس پڑھ کر کشتی سے اتر آئے. یقین مانیے کولمبس بھی اپنی کشتی سے اترتے ایسی خوشی نہیں ہوئی ہو گی جو ہم دونوں کو میسر آئی تھی. "

سمیرا انجم جنہوں نے ہاجرہ ریحان کے ساتھ مل کر آن لائن تکیہ تارڑ کیا وہ کچھ یوں لکھتی ہیں:
آن لائن تکیہ تارڑ ساہیوال سے کراچی:  
"تکیہ تارڑ" کا یہ بھی ایک انداز ہے۔ آج ساہوال اور کراچی میں بیک وقت اس کا انعقاد ہوا۔۔ جس میں ساہوال سے آنسہ سمیرا انجم اور کراچی سے محترمہ حاجرہ ریحان نے شرکت کی۔سمیرا "بہاؤ" میں بہتی آئی اور حاجرہ نے " خس و خاشاک زمانے" کو ساتھ لے کر چلنے کی سعی کی۔۔۔ یہ تکیہ دو گھنٹے اور بیس منٹ تک جاری رہا جس میں ایک کے بعد ایک "بہاؤ" کی لہروں پر سمیرا نے بہنے کی کوشش کی اور حاجرہ نے بہت اچھے انداز سے کچھ "خس و خاشاک زمانے" چھیڑے اور ان پہ دونوں نے مل کے ایک طویل سفر کی۔ مختصر یہ کہ آواز پہ توجہ ہونے سے ہم دونوں ہی ناولوں کے پس منظر میں کھو گئے اور یہ بہت اچھا تجربہ رہا آپ بھی کیجئے گا۔

علی عمر جنہوں نے ساہیوال میں 'تکیہ تارڑ' کا انعقاد کیا وہ لکھتے ہیں:
"اور یہ تکیہ تارڑ اِس لئے ہے کہ تارڑ صاحب کو پڑھنے والے اور اُن سے چاہت رکھنے والے جن کو متاثریِن تارڑ کا نام دیا جاتا ہے.. اکٹھے ہوتے ہیں اور اُن کے قصے کہانیاں ایک دوسرے کو سنائی اور اُن پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے.. اِس کےعلاوہ تارڑ صاحب سے متعلقہ معلومات بھی ایک دوسرے سے شئیر کی جاتی ہیں.."
"اور یہ تکیہ تارڑ ساھیوال اِس لئیے ہے کہ یہ ساھیوال کے ممبران کی نشست ہے. ہر شہر میں اپنا اپنا تکیہ تارڑ ہوتا ہے.
.اِس ایونٹ کی سب سے خاص بات.. سب ممبران کو تارڑ صاحب کے تہنیتی پیغام کی ایک ایک کاپی, ریڈر ورلڈ انتظامیہ کی طرف سے ریڈر ورلڈ کا مونو گرام اور کیلنڈر دیا گیا"..

نسرین غوری لکھتی ہیں:

"پچھلے تکیہ تارڑ کے اختتام پر ثوبیہ اور عثمان نے اگلا تکیہ تارڑ اپنے گھر رکھنے کی دعوت دی جو ہم نے قبول کرلی۔ 
سو آج ہم اپنے وعدے کی تکمیل کے لئے ثوبیہ اورعثمان کے گھر موجود تھے ۔پہلے تکیہ تارڑ کے موقعے پر فرحت بخاری نے یہ تجویز دی تھی کہ کیوں نہ ہم تارڑ صاحب کی ایک کتاب منتخب کرکے اس سے اقتباسات پڑھیں اور اس پر ڈسکشن کریں۔ لہذہ اس تجویز کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ثوبیہ اور عثمان کے ارادہ حج کے حوالے سے چاچا جی کے سفرنامہ حج "منہ ول کعبے شریف" کا انتخاب کیا گیا تھا۔ "

کتاب سے محبت رکھنے والے اس کا حق ضرور ادا کرتے ہیں اور لفظوں کی کہکشاں میں اس لکھاری کے دل تک پہنچنےکی کوشش ضرور کرتے ہیں جس نے انہیں ان لفظوں کا تحفہ بخشا ہو اور پھر لکھاری اگر 'مستنصر حسین تارڑ 'جیسا ہو جو نہایت مشفق، مہربان اور محبت کرنے والا ہو تو پھر اُس سے عشق ہونا لازم ہے۔ تکیہ تارڑ نے کتاب پڑھنے کے رُجھان میں اضافہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کے لئے ریڈرز ورلڈ کے ایڈمن مبارک باد کے مستحق ہے جنہوں نے لوگوں  میں کتاب کا شعور پیدا کیا۔ ریڈرز ورلڈ کے ممبران نہ صرف تارڑ صاحب کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں بلکہ فیس بُک پر بزمِ ادب کے نام سے ایک اور گروپ بھی بنایا گیا ہے جس میں مختلف کتابوں سے اقتباسات، شاعری ، طنزومزح اور تبصرے بھی شئیر کئے جاتے ہیں اور اُن پر تبادلہ خیال بھی کیا جاتا ہے۔ساتھ ممبران کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لئے بھی مواقع فراہم کئے جاتے ہیں اور اُن کی تحریروں کو بھی بزم میں شامل کیا جاتا ہے۔

کیا آپ کتاب  پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں؟ کیا آپ کے اِرد گرد کے لوگ کتاب پڑھنے کے شوقین ہیں؟ اگر ہے تو پھر ایسے 'تکیہ ' کو منعقد کیجئے اور اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کوئی بھی کتاب پڑھئے اور ایک دوسرے کو سنائے اور اگر آپ کے حلقہء احباب میں ایسے لوگ شامل نہیں تو اپنے دوستوں کو اپنے گھر بلائے اور اُنہیں 'تکیہ' سے متعارف کروائے اور کتاب کے ذوق کواپنے اطراف کے لوگوں میں پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیجئے۔
فیس بُک پر تارڑ صاحب کے آفیشیل پیج اور گروپ  موجود ہیں اور اُن کے نام کی گوگل کمیونٹی بھی موجود ہیں جن میں آپ شامل ہو سکتے ہیں ۔ ان کے لنک نیچے دئے گئے ہیں۔

اس بلاگ کے لئے میں ریڈرزورلڈ کے ایڈمن سمیرا انجم  کی ممنون ہوں جنہوں نے مجھے ریڈرز ورلڈ سے مواد اور تصوریں لینے کی اجازت دی اور ریڈرز ورلڈ کی ایک ممبر ہونے پر بے حد مطمئن اور خوش ہوں۔

ثمینہ طارق

جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

پیر، 16 فروری، 2015

بچّوں کا کینسر (عالمی دن)



عالمی دن کیا ہے اور کیوں منائے جاتے ہیں۔ یہ کسی بھی خاص بات کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لئے اور آگاہی کے لئے منائے جاتے ہیں ۔  ہمارے ملک میں مدرز ڈے، فادرز ڈے ، فرینڈشپ ڈے، روز ڈے اور خاص کر کے ویلنٹائن ڈے پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور  ہمارا سوشیل میڈیا اُس کی اتنی کوریج کرتا ہے کہ کوئی بھی شخص اس کو منانے سے نہ رہ جائے۔ فیس بُک ہو یا ٹویٹر یا پھر گوگل پلس ہر جگہ ہمیں اس مناسبت سے پوسٹ نظر آئے گی اور  اس کے علاوہ کوئی کھیل کے مقابلے ہو خا ص کرکے کرکٹ کا تو پھر ہر دیوار پر آپ کو ایک جیسے ہی اسٹیٹس نظر آئے گے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں بیماریوں کے عالمی دنوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کام حکومت کا ہے یا صحت کے اداروں کا کہ بیماریوں سے متعلق اگاہی دے۔ اس دن کی مناسبت سے مختلف اداروں کی جانب سے بہت سے پروگرام ترتیب دئے جاتے ہیں مثلاً سیمنار کرائے جاتے ہیں ، پمفلٹ بانٹے جاتے ہیں ، کسی اکا دوکا ٹی وی چینل پر  کچھ ٹالک شوز ہو جاتے ہیں یا پھر کسی ریڈیو اسٹیشن پر آگاہی کے لئے کچھ مواد پیش کیا جاتا ہے لیکن ہم بزاتِ خود اس مہم میں حصّہ لینے کو اپنا فرض نہیں سمجھتے ہیں اور سوشیل میڈیا پر اپنے روز کے معمولات میں مصروف رہتے ہیں۔
۴فروری کو 'کینسر' کا عالمی دن منایا گیا ۔ دنیا بھر کے لوگوں نے اس دن کو اس موذی مرض سے آگاہی کے دن کے طور پر منایا ۔اس سال اس دن کا موضوع اقوام متحدہ کے عالمی کینسر اعلامیہ پر مبنی  تھا۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ اس مرض کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور غلط روایات کا ازالہ کیا جاسکے۔کینسر کوئی آج کی دریافت نہیں ہے بلکہ یہ مرض صدیوں سے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو مشکل میں ڈالے ہوئے ہیں اور نہ صرف بڑوں میں بلکہ بچّوں میں بھی پایا جاتا ہے۔یہ مرض نہ صرف مریض کی جان لیتا ہے بلکہ اُس کے تمام گھر والوں پر اپنے منفی نفسیاتی اثرات بھی چھوڑ جاتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں کہ یہ بلکل لاعلاج مرض ہے اگر تو اس کی آگاہی ہو اور اسے پہلے اسٹیج پر ہی پکڑ لیا جائے تو اس کا علاج ممکن ہے۔
کل یعنی ۱۵ فروری کو  بچّوں کےکینسر کا عالمی دن منایا گیا ۔ بچّوں میں کینسر کی بیماری تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور اس کے لئے اس کے ہونے کے اسباب سے آگاہی کےساتھ ساتھ اس کی علامات سے آگاہ ہونا نہایت ہی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اکژ ہم اپنے بچّوں کی تکالیف کومعمولی جان کر نظر انداز کرتے ہیں جیسے کہ سر کا درد، پیٹ کا درد، وزن کم ہونا، بھوک نہ لگنا وغیرہ ۔ آج کے ا س بلاگ میں کوشش کر رہی ہوں کہ کچھ لنکس شامل کروں جس کو پڑھنے سے ہمیں بچّوں کے کینسر سے متعلق معلومات فراہم ہو سکے۔ یہ تمام صفحات انگریزی میں ہے اور اس کو ترجمہ کرنا اس وقت میرے لئے ممکن نہیں لیکن آنے والے دنوں میں انشاء اللہ کوشش کروں گی کہ کچھ باتیں اردو میں پوسٹ کر سکوں۔ اگر آپ کو اس سے متعلق کسی ویب سائٹ کا علم ہو یا پھر پاکستان میں موجود ایسے اداروں کا جہاں کینسر کا علاج مفت یا کم قیمت پر کیا جاتا ہو تو برائے مہربانی بلاگ پر کمینٹ کرکے پوسٹ کیجئے میں اُسے بلاگ میں شامل کر لوں گی۔
 ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔


http://www.cancer.org/cancer/cancerinchildren/detailedguide/cancer-in-children-finding-childhood-cancers-early


http://kidshealth.org/parent/medical/cancer/cancer.html
http://www.cancer.gov/cancertopics/pdq/treatment/childhodgkins/Patient/page1




ہفتہ، 14 فروری، 2015

ریڈیو کا عالمی دن کچھ یادیں

۱۳ فروری ریڈیو کےعالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ ۱۴اگست ۱۹۴۷جب پاکستان ایک نئے ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آیا  پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کے طور پرریڈیو پاکستان کارپوریشن وجود میں آئی ۔ پاکستان کی آزادی کا اعلان ریڈیو پاکستان کے ذریعے ۱۳اگست ۱۹۴۷کو شب کے ۱۱:۵۹پر اردو اور انگریزی میں مصطفی علی ہمدانی مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا:
السلام علیکم!

"پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس۔ ہم لاہور سے بول رہے ہیں۔ تیرہ اور چودہ اگست، سنہ سینتالیس عیسوی کی درمیانی رات۔ بارہ بجے ہیں۔ طلوع صبح آزادی۔" (Source: Wikipedia)


ریڈیو سے میری بہت سی یادیں وابستہ ہے۔  ریڈیو سننے کی عادت  بچپن سے ہی رہی کیونکہ اُس دور میں ریڈیو صرف تفریح کا ذریعہ یا گانے سننے کے لئے ہی نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ تربیت کا بھی ایک اہم ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ بچپن سے اتوار کو ہونے والے بچوں کے پروگرام سنا کرتے تھے ۔ اُس دور میں ٹی وی گھر میں ہوتے ہوئے بھی ریڈیو کی اپنی ایک الگ اہمیت ہوتی تھی۔ ہر پروگرام کا اپنا ایک الگ مزہ ہوتا تھا۔ ڈرامے بہت پسند تھے خاص کر اطہر شاہ خان (جیدی) صاحب کا  ڈرامہ 'حامد میاں کے ہاں' کے بہت سے ڈائلاگ اب بھی ذہن نشین ہے۔ ایک آواز جو کبھی نہ بھولی  اور آج بھی میری سماعت میں گونجتی ہے وہ حسن شہید مرزا کی ہے۔ ۲۰۱۳ میں وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے ۔ اللہ اُنہیں اپنے جواہرِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔

ریڈیو سے وابستگی شائد اس لئے بھی زیادہ رہی کہ میرے ابّو کو بھی ریڈیو کا جنون تھا۔ صبح سویرے  ریڈیو پر خبروں کے ساتھ ہی ہماری اسکول کی تیاری ہوتی تھی۔ خبریں ہو یا تفریحی پروگرام تمام ہی بڑے شوق سے سُنے جاتے تھے۔ چاہے وہ ریڈیو پاکستان ہو یا ریڈیو سیلون ہو  یا پھر رات کو چترہال پر پُرانے گانے ہو ۱۱ سے ۱۲ تک۔ بہت عرصہ ریڈیو کا ساتھ رہا پھر وہ چاہے چھوٹا سا  ٹرانزسٹر ہو یا  بڑا سا ریڈیو گرام ۔

ریڈیو مواصلات  کے ذرائعے میں ایک قدیم ذریعہ ہونےکے باوجود آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں اب بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔آج کے دور میں جہاں تفریح کے بہت سے ذرائعے  موجود ہے وہاں ریڈیو نے بھی خوب ترقی کی ہے۔ FMکے شروع ہونے کے بعد ریڈیو کے پروگراموں میں بہت تبدیلی ضرور آئی ہے لیکن اب بھی بہت معیاری کام ہو رہا ہے۔ بہت سے چینلز پر معلوماتی ، تعلیمی اور تفریحی پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔ ریڈیو مستقبل کا ایک اہم  مواصلاتی ذریعہ ہے کیونکہ  یہ  نوجوانوں کے لئے نہ صرف سامع کے طور پر ایک اہم ذریعہ تفریح ہے بلکہ اُن کے لئے  اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لانے میں بھی ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ تمام چیزوں کے دو پہلو ہوتے ہیں اچھے اور بُرے اور اسی طرح ریڈیو بھی ہے۔اب کون اس کا استعمال کس طرح کرتا ہے یہ اُس پر منحصر ہے۔

میری زندگی میں ریڈیو کا ایک اہم کردار رہا ہے اور اس سے بہت سی یادیں وابستہ رہی  ہیں ۔کتابیں پڑھنے کا شوق بھی ریڈیو پر کہانیاں سن کر ہی شروع ہوا تھا اور اب تک ساتھ ہے۔ کیا آپ ریڈیو سننے کے شوقین ہیں؟
 ثمینہ طارق
 جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

جمعرات، 12 فروری، 2015

سنّاٹے

کبھی یوں بھی ہوتا ہے
سمندر پر سفر کرنے والے 
کچھ لوگ!
کسی بے نام جزیرے پر
اترتے ہیں
اور
ساحلوں کے ساتھ چلتے ہوئے
 ریت پر
اپنے قدموں کے گہرے نشان
چھوڑ جاتے ہیں
کبھی یوں بھی ہوتا ہے
ساحلوں پر چلنے والے یہ لوگ
ریت پر
کچھ کچے گھروندے بناتے ہیں
اور ان میں
 محبتوں کے کچھ
خوا ب پروتے ہیں
اور کبھی کبھی
ریت کے ماتھے پر
 اپنا  نام لکھ جاتے ہیں
کبھی یوں بھی ہوتا ہے
ساحلوں پر نشان چھوڑتے
گھروندوں میں خواب پروتے
ریت پر اپنا نام لکھتے
 یہ لوگ!
تھک کر اپنی کشتیوں میں سوار
سمندر کو لوٹ جاتے ہیں
اور پھر کئی دنوں تک
کوئی بھی  سمندر کے رُخ
اس جزیرے پر نہیں اُترتا
کبھی یوں بھی ہوتا ہے
سمندر کی تندو تیز لہریں
قدموں کے ان
گہرے نشانوں کو
بہا لے جاتی ہے
اور تیز ہوائیں
ان کچے گھروندوں کو
 بکھیڑ دیتی ہے
ریت پر لکھے یہ نام
بے نام ہو جاتے ہیں
کبھی یوں بھی ہوتا ہے
اس بے نام ساحل پر
ریت کے ذرّے
 اُرتے پھرتے ہیں
گہرے نشان چھوڑتے
ان قدموں کو ڈھونڈتے ہیں
ٹوٹے گھروندوں  کی بکھری  ریت میں
ان خوابوں کو تلاشتے ہیں
ریت پر لکھے ان ناموں کو
صدائیں دیتے ہیں
کبھی یوں بھی ہوتا ہے
کہ ان کی یہ صدائیں
سمندر کی لہروں کے شور میں
دب جاتی ہیں
اور کبھی ویران ساحلوں سے ٹکرا کر
واپس لوٹ آتی ہیں
اس بے نام جزیرے پر
بے نام صداؤں کے
سنّاٹے گونجتے ہیں
اور کبھی کبھی یہ سنّاٹے
جزیرے کے سینے میں ہی دب جاتے ہیں!!
 
ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

پیر، 2 فروری، 2015

کیا کھویا؟ کیا پایا؟

 ۲۰۱۴ گزرا اور ۲۰۱۵ کا بھی ایک ماہ تمام ہوا۔ میری پچھلی پوسٹ نئے سال کی پہلی تاریخ کی تھی جس کے بعد کوشش کے باوجود کچھ بھی پوسٹ کرنے سے قاصر رہی۔ پچھلے سال کے اواخر میں، دسمبر کے مہینے میں فیس بُک پر ایک منٹ کی ایک ویڈیو تیار کی جا رہی تھی ہر شخص کے فیس بُک کے سال بھر کی روداد پر مبنی۔ اپنی ویڈیو بھی دیکھ لیکن اُسے پوسٹ نہ کیا کیونکہ ہماری زندگی فیس بُک پر گزرے لمحات پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ حقیقت میں گزرے روز و شب، ماہ و سال پر مبنی ہوتی ہے پھر فیس بُک کی ویڈیو ہمارے گزرے سال کا احاطہ کرپائے یہ کیسے ممکن ہے۔

ہر سال کے آخر میں نئے سال کی ابتداء سے پہلے ہم سب عموماً نئے سال میں کئے جانے والے کاموں کی لسٹ تیّار کرتے ہیں۔ اپنی آنے والی زندگی کے لئے مقاصد کا تعیّن کرتے ہیں۔ اکثر لوگ اپنے بیتے کل کو بھی یاد کرتے ہیں اور اُس میں گزرے تمام لمحوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے آنے والے کل میں غلطیوں کو نہ دہرانے کا عہد کرنے کے ساتھ مکمل نہ کئے جانے والے کاموں میں رکاوٹ کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اگلے سال ان کاموں کو پایہء تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ اسی طرح میں نے بھی اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعداپنی حیات کو ورق در ورق پلٹنا شروع کیا اور کئی راز منکشف ہوتے چلے گئے۔میں نے محسوس کیا کہ بہت کچھ ہے جو مجھے بن مانگے ملا تو بہت کچھ ایسا بھی ہے جس کی شدید خواہش ہونے کے باوجود بھی حاصل نہ ہوسکا۔


یہ حقیقت ہے کہ انسان کو کبھی بھی اُس کی برداشت سے بڑھ کر دُکھ نہیں ملتا ہے اور ہر درد کے بعد خوشی بھی میسر آتی ہے۔ اپنی زندگی کا احاطہ کیا تو جانا کہ جہاں اتنے برسوں میں اپنی عزیز ترین ہستیوں کو کھویا  جن میں والدین سے دوری کا در د ناقابلِ فراموش ہے وہیں اولاد کی صورت میں بہت سی خوشیاں بھی نصیب ہوئی۔ والدین کا نعم البدل تو کوئی نہیں ہو سکتا لیکن اپنی اولاد کی خوشیوں میں محو ہو کر ہی انسان اُس درد سے عارضی طور ہی سہی نجات پا سکتا ہے۔ بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتیں والدین کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہوتی ہیں۔ اُن کی پہلی مسکراہٹ، پہلا لفظ، پہلا قدم، اسکول کا پہلا دن، پڑھائی کا مکمل ہونا، پروفیشنل لائف میں کامیابی اور پھر شادی ۔ یہ سب والدین کے لئے ایسی خوشیاں ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔

جب اپنی والدہ کو بیماری میں دیکھتی اور روتی تھی کہ جانتی تھی کہ وہ کینسر کی مریضہ ہے اور زیادہ وقت ساتھ نہ رہ سکے گی اور جب برداشت سے باہر ہوا تو ایک دن روتے ہوئے کہہ بیٹھی کہ میں کیسے رہوں گی تمھارے بغیر تو انہوں نے مسکراتے ہوئے میری بیٹیوں کی جانب اشارہ کرکے کہا تھا کہ" یہ دونوں ہے نہ ، ان  کی خوشیوں میں درد بھول جائے گا میں بھی تجھے گود  میں لے کر اپنی ماں سے جُدائی کا درد بھول گئی تھی۔" اُس وقت پہاڑ سے دن رات لگتے تھے جب ماں کو کھویا مگر اُن کے لفظوں کی حقیقت بھی جان لی ۔ یاد تو اُن کو اب بھی کرتے ہیں مگر بچوں کی خوشیوں میں درد سارے کھوگئے ہیں۔ الحمداللہ  میرے رب کا بہت کرم ہے۔

زندگی کے ورق پلٹنے بیٹھے تو بہت کچھ سامنے آتا ہے۔ زندگی میں والدین کے علاوہ اپنی خالاؤں کو کھونے کا غم بھی ساتھ رہا جن کا ساتھ ماں جیسا ہی تھا۔ وہیں اللہ نے بہت سی خوشیاں بھی نصیب کی ۔ بچّوں کی کامیاب زندگیاں اللہ کا ہی کرم ہے۔ زندگی کی سب سے بڑی خوشی بیٹی کی شادی کی صورت میں میسر آئی اور اللہ نے داماد کی صورت میں میری زندگی میں بیٹے کی کمی کو بھی پورا کیا ۔

سال ۲۰۱۴ میری زندگی میں بہت سی خوشیاں اور تبدیلیا ں لے کر آیا۔ چھوٹی بیٹی کا گریجوئشن مکمل کرکے پروفیشنل لائف میں پُر اعتماد قدم رکھنا بھی اللہ کا کرم ہے۔ الحمدللہ! اس سال میں نے اپنی زندگی کا پہلا ہوائی سفر کیا  اور دُبئی جا کر زندگی کا ایک مختلف رنگ بھی دیکھا۔ اسی سال میں نے اپنے بہت سے بلاگز لکھے ، اسی سال میں نے اپنا کتابیں پڑھنے کا شوق بھی بہت سی کتابیں خرید کر پڑھ کر پورا کیا اور اب اگلے سال کے لئے بھی بہت سی کتابوں کی لسٹ تیّار کر رکھی ہے۔ مجھے اپنے پسندیدہ مصنفین سے ملنا بہت شوق رہا جن میں ابنِ صفی سے ملنے کا جنون تھا جو نہ پورا ہو سکا اور نہ ہو سکتا ہے۔ بچپن سے اشتیاق احمد سے ملنے کا شوق رہا اور لاہور میں اُن کے گھر کے بہت قریب جا کر بھی اپنی یہ خواہش پوری نہ کر پائی لیکن اس سال میری زندگی کی ایک بہت بڑی خواہش کی تکمیل ہوئی  اور وہ تھی مستنصر حسین تارڑ صاحب سے ملاقات۔  جس کاتفصیلی  ذکر میں  اپنے بلاگ  طویل سفر کے بعد ایک خوشبو بھری ملاقات، مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ساتھ میں کر چکی ہوں۔ اب صرف ایک بار امجد اسلام امجد صاحب سے ملنے کی خواہش ہے اور انشاءاللہ کبھی نہ کبھی ضرور پوری ہوگی۔

پچھلے سال کی خوشیوں میں ایک اہم ترین خوشی میری وہ خواہش پوری ہونا ہے جو برسوں سے تھی۔ کمیونٹی میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے کی خواہش تھی جو کہ اس سال پوری ہوئی TKNVolunteer  ( وقت اور علم کا نزرانہ ) کی صورت میں کام کرکے جس کے لئے میں اب اپنے رب کی جتنی بھی شکرگزار  ہو اتنا کم ہے۔ شکر الحمداللہ!
ہر خوشی کے ساتھ غم بھی زندگی کے ساتھی ہوتے ہیں اور ۲۰۱۴ میں بھی میں نے اپنی دونہایت عزیز ترین ہستیوں کو یکے بعد دیگرے کھودیا۔ میرے سب سے بڑے ماموں جان جن کا ذکر میں نے اپنے بلاگ میری ڈائری کا تازہ ورق میں کیا تھا اور پھر اس کے فوراً بعد ممانی جان کو بھی کھو دیا جو والدہ کے بعد ہمیشہ والدہ کو صورت ساتھ رہی اور اُن کی کمی کو پورا کرتی رہی۔ اللہ اُن کے درجات بلند فرمائے آمین۔

زندگی میں خوشیاں اور درد ساتھ ہی ہوتے ہیں اور اسی طرح کبھی ہم وہ سب کچھ کر لیتے ہیں جو کرنا چاہتے ہیں اور کبھی کبھی وہ سب نہیں کرپاتے ہیں لیکن کبھی ہمت نہ ہارنی چاہئے اور اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔ مستقل مزاجی ہی کامیابی کی کُنجی ہے اس لئے کسی بھی کام کو مستقل مزاجی سے کرے گے تو ضرور کامیاب ہوگے۔ انشاءاللہ تعالیٰ

 ثمینہ طارق

جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔