Translate

اتوار، 12 جنوری، 2020

اپنے اپنے حصے کی محبت



"محبت تو پتوں کی سائیں سائیں کی طرح ہوتی ہے، نہ دکھائی دیتی ہے، نہ پکڑ میں آتی ہے بس اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔"
~ مستنصر حسین تارڑ

مورخہ 10 جنوری 2020 کو ہمدرد یونیورسٹی کی جانب سے محترم مستنصر حسین تارڑ صاحب کو 'لائف ٹائم ایچویمنٹ ایوارڈ' سے نوازا گیا۔ اس ایوارڈ کے ملنے کی خوشی کو منانے کے لئے MHT Readers World کی جانب سے 11 جنوری 2020 کو کراچی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں تارڑ صاحب اور ان کی بیگم میمونہ صاحبہ نے بطور چیف گیسٹ شرکت کی۔

ایک لمبے وقفے کے بعد مجھے بھی اس محفل میں تارڑ صاحب سے دوبارہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ساتھ ہی اس محفل میں موجود تمام شرکاء سے بھی جن میں کچھ پرانے دوست اور شناسا شامل تھے تو کچھ نئے چہروں سے بھی ملاقات رہی۔

تارڑ صاحب سے پہلی ملاقات 2014 میں ان کی کتاب لاہور سے یارقند کی تقریب رونمائی میں ہوئی تھی جس کی تفصیل میں اپنے بلاگ طویل سفر کے بعد ایک خوشبو بھری ملاقات، مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ساتھ ' میں تحریر کر چکی ہوں اور اس کے بعد بھی تارڑ صاحب کے نام میرے بہت سے بلاگ رہے جن میں 'تمہارے کیے لفظ'، 'سالگرہ مبارک' اور 'تکیہ تارڑ' شامل ہیں۔ لیکن عرصہ دراز سے کچھ ذاتی وجوہات کی بناء پر بلاگ لکھنا ترک کر دیا اور آج دوبارہ سے یہ لفظ صرف تارڑ صاحب اور میمونہ صاحبہ کی بدولت تحریر ہو رہے ہیں جس کے لئے میں ان کی نہایت ممنون ہوں۔

اوپر دئے ہوئے اقتباس کو جب جب پڑھا اس کا ہر لفظ دل میں اترتا ہوا محسوس ہوا اور کل کی ملاقات کے بعد تو ان لفظوں پر ٹوٹ کر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے۔ تارڑ  صاحب سے اور ان کے چاہنے والوں سے محبت کا جو جذبہ دل میں رہا کبھی اس پر غور نہ کیا۔ لیکن جب کل تارڑ صاحب کے ساتھ تمام شرکاء سے ملاقات ہوئی تو محسوس ہوا کہ یہ محبت تو بہت شدید ہے جو دکھائی تو نہیں دیتی مگر ہمیں اپنے حصار میں لئے رکھتی ہے اور عرصہ دراز تک ملاقات نہ ہونے کے باوجود اس میں کمی کا امکاں موجود نہیں۔

تارڑ صاحب سے پہلی ملاقات کے بعد شدت سے خواہش رہی کی میمونہ صاحبہ سے ملاقات ہو پائے اور اپنی اس خواہش کا ذکر میں نے اپنے بلاگ خوشبو بھری ملاقات میں ان الفاظ میں کیا تھا 'یہ ملاقات میری زندگی کا ایک اہم پڑاؤ ہے جس کی یادیں تاحیات میرے ساتھ رہے گی مگر اس میں ایک کمی سی رہ گئی جو کبھی نہ کبھی ضرور پوری ہوگی اور وہ ہے تارڑ صاحب کی بیگم میمونہ جی سے ملاقات کیونکہ تارڑ صاحب کی مسکراہٹ میمونہ جی کی مسکراہٹ کےبغیر ادھوری رہتی ہے۔' اور کل یہ خواہش بھی پوری ہوئی۔

تارڑ صاحب کی محبت اپنے چاہنے والوں کے لیے بے پنہاں ہے کہ وہ ناسازگیء طبعیت اور تھکاوٹ کے باوجود ان کو ملاقات کا شرف بخشنے ہیں اور ساتھ میمونہ صاحبہ کا ظرف کمال کا ہے وہ بھی سب پر اپنی محبتوں کو نچھاور کرتی ہیں۔ کل جب  اقبال خورشید صاحب نے ان سے سوال کیا کہ تارڑ صاحب کی زندگی میں تو اتنی محبتیں آئیں تو آپ کو ان کی محبت میں کمی محسوس ہوئی؟ اس کے جواب میں میمونہ جی کا کہا ایک چھوٹا سا جملا وسیع معنی رکھتا ہے اور ان کی اعلی ظرفی کی مثال ہے انھوں نے کہا "سب کو اپنے اپنے حصے کی محبت ملی" ۔

حرف آخر
کل کی اس محفل میں بھی سب نے اپنے اپنے حصے کی محبتیں سمیٹیں اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے اس محفل میں شرکت کر کے اپنے حصے کی محبت کو اپنی جھولی میں سمیٹا۔ تارڑ صاحب اور میمونہ صاحبہ اور اس محفل میں شامل تمام شرکاء کے ساتھ ساتھ عاطف فرید صاحب کی تہہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے اس محفل میں شرکت کا موقع دے کر دوبارہ ان محبتوں کی جانب مائل کیا۔ 

ثمینہ طارق








جمعرات، 6 ستمبر، 2018

خوش آمدید

اسلام علیکم
خوشبو کے سفر کے تمام قارئین سے معذرت خواہ ہو کہ تقریبا دو سال کے عرصے سے بلاگ پر کچھ پوسٹ نہ کر سکی۔ زندگی اتنی تیزی سے بیتی جو رہی ہے کہ لفظوں گرفت میں رکھنا اور انھیں تحریر میں ڈھال کر پیش کرنا ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔ آج جب بلاگ پر آئی اور پرانی تحاریر کا مطالعہ کیا تو احساس ہوا کہ بہت کجھ ہے ان صفحات کی نظر کرنے کو فقط ہمت مجتمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انشاءاللہ بہت جلد اس خوشبو کے سفر میں بیتے پچھلے دو سالوں کی روداد کو ان صفحات کی نظر کروں گی۔ امید ہے آپ سب کا ساتھ ہمیشہ کی طرح شامل حال ہوگا۔ آپ سب کو خوشبو کے اس سفر میں اک بار پھر خوش آمدید!
شکریہ
ثمینہ طارق


جمعرات، 22 ستمبر، 2016

لمس ( افسانہ )

 آج پھر اُس کے رُخسار بھیگے ہوئے تھے اور یہ آج پہلی بار نہیں ہوا تھا بلکہ پچھلے بیس برسوں سے وہ اسی کیفیت سے دوچار تھی۔ رات نیند میں نہ جانے کب وہ روتی رہتی اور صبح آنکھ کھُلتے ہی اُسے اپنا چہرہ بھیگا محسوس ہوتا۔ ایسا اُس وقت ہوتا جب وہ اسے شدّت سے یاد آتا کیونکہ اُس کی یاد پر اسے اختیار نہ تھا۔ کبھی بھی کسی وقت بھی یاد آنے لگتا تھا، اُٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے، کبھی کسی تقریب میں تو کبھی کسی محفل میں اُس کی آنکھیں اُسے دیکھنے کو بے چین رہتی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اُس سے اتنا دور چلا گیا ہےکہ اس طرح اپنے شہر کی محفلوں میں اُسے تلاشنا بے وقوفی ہے لیکن پھر بھی اُسے اپنے آپ پر اختیا ر نہ رہا تھا۔خاص کر کے خاندان میں ہونے والی ہر تقریب میں اُس کی آنکھیں اُسے تلاشتی رہتی تھی۔لیکن اُسے نہ ملنا تھا اور وہ نہ ملا، بیس برس بیت چکے تھے اب تو راحت کی آنکھوں کے سوتے روتے روتے خشک ہونے لگے تھے۔ 
 وہ بڑی بہادُری سے لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو بہت خوش باش ظاہر کرتی لیکن اُس کی اس بہادُری کا زور اُس کی نیند پر نہ چلتا۔ جو کچھ وہ دن میں سب کے سامنے نہ کر سکتی تھی لاشعوری طور پر نیند میں کر جاتی۔ مسلسل اُس کی آنکھیں برستی رہتی اور جب صبح وہ سو کر اُٹھتی تو اُس کے رخسار بھیگے ہوتے تھے اور آنکھیں سوجی ہوتی ۔ پہلے پہل محسن اُسے نیند کی حالت میں روتے دیکھ کر بہت پریشان ہوا لیکن پھر جیسے اُسے بھی عادت سی ہوگئی۔ شائد وہ راحت کو اس حال میں دیکھ کر مطمئن تھا کہ وہ اکیلا ہی اُس کی جدائی کے کرب سے نہیں گزر رہا ہے راحت اس میں اُس کے ساتھ ہے۔ دونوں کا درد سانجھا ہے لیکن فرق ہے تو یہ کہ راحت اپنے آنسوؤں کے ذریعے اس درد کا اظہار کر پاتی ہے اور وہ تو یہ بھی نہیں کر پاتا ۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو ان سب واقعات کا مجرم گردانتا تھا اور کسی حد تک وہ تھا بھی۔ 
 جب بھی وہ اس کرب کی کیفیت سے جاگتی تو اُسے سارا منظر اپنے سامنے گھومتا نظر آتا تھا۔ وہ بہت خوشحال زندگی گزار رہی تھی ۔ اُس کے دونوں بیٹے حیدر اور نوید ماشااللہ کافی بڑے ہوچکے تھےکہ خدانے ایک بار پھر اُسے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ رات کے
 دو بج چکے تھے اور وہ دردِ زہ سے ترپتی ہوئی اپنی ساس کے دروازے پر اُنھیں جگانے کے لئے دستک دے رہی تھی۔ اُس کی ساس نے دروازہ کھول کر پانچ منٹ میں آنے کا کہا اور راحت کو گاڑی میں بیٹھنے کی ہدایت کر کے کپڑے بدلنے چلی گئی۔ راحت نے کوشش کی مگر اُس سے ایک قدم بھی نہ اُٹھایا جا رہا ہوئے تھا ۔ اُس نے دروازے کا سہارا لیتے ہوئے کچھ وقت آرام کرنے کا سوچا اور جیسے یہ لمحہ اُس کےلئے قیامت کا سماء بن گیا۔اندر سے آتی ہوئی آواز نےاُس کے اوسان خطا کر دیے۔اُ سں نے امّی کو احسن سے فون پر کہتے سناکہ "احسن ہم ہسپتال جا رہے ہیں تم بھی آجاؤ اُسے ہسپتال سے ہی لےجانا۔" 
یہ الفاظ بم کی طرح راحت کی سماعت سے ٹکرائے اور وہ ہزیانی ہو کر چیخ اُٹھی " میں اپنا بچّہ کسی کو نہیں دوں گی۔" راحت کی چیخیں سن کر بچّے بھی آگئے اور راحت سے لپٹ گئے۔ محسن بھی گاڑی چھوڑ کر آگئے اور پوری کوشش کر نے لگے کہ راحت کو سنبھالے لیکن وہ چیختےہوئے بے ہوش ہو چکی تھی۔ 
 آنکھ کھُلتے ہی راحت نے اپنے آپ کو ہسپتال کے بستر پر پایا اور بے اختیار اُس کا ہاتھ اپنے شکم پر جا ٹہرا۔ یہ جان کر اُسے اطمینان ہوا کہ اس کا بچّہ ابھی اُس کے اندر موجود ہے۔لیکن پھر مایوسی چھا گئی یہ سوچ کر کہ کب تک وہ اس وجود کو اپنے اندر محفوظ رکھ پائے گی ؟ آخر کار اُسے اس دنیا میں آنا ہی ہے اور پھر کیا ہوگا؟ اُسے فوراً ہی اُس کی گود سے جدا کر دیا جائے گا ۔
 راحت کو لمحوں کا وہ لمس نہ بھوُلتا تھا جب اُس نےاس ننھی سی جان کو اپنی چھاتی سے لگایا تھا۔ اُس نے اس قدر مضبوطی سے اُسے تھام کر اپنےسینے سے بھینچا تھا کہ نرس بھی کہہ اُٹھی تھی کہ "کیا یہ آپ کا پہلا بچّہ ہے؟" اور وہ نرس کی طرف دیکھتی چلی گئی جیسے پوچھ رہی ہو کہ "کیا صرف پہلا بچّہ پیارا ہوتا ہے؟"
 "نہیں یہ میرا تیسرا بیٹا ہے۔" راحت نے اپنی آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو چھپانے کی ناکا م کوشش کی تھی۔
"اوہ آپ کی بیقراری دیکھ کر لگا جیسے یہ پہلا بچّہ ہے۔" نرس کی مسکراہٹ بھی اس لمحے راحت کو دُکھ دے رہی تھی۔ 
 لیبر روم میں ہی نرس بچّے کو اُس کے پاس لٹا کر گئ تھی کہ اُسے فید کروا لیں ۔ کیونکہ ماں کا پہلا دودھ بچّے کے لئےبیماریوں کے خلاف ایک مضبوط ڈھال ثابت ہوتا ہے۔ راحت نے اس ننھی سی جان کو اپنے سینے سے ایسےلگایا کہ کوئی اُس سے چھین نہ لے اور اُس کی آنکھ لگ گئی۔
 آنکھ کھُلتے ہی اُس نے خود کو وارڈ میں پایا مگر بچّہ اسے کہیں نظر نہ آیا جس پر اُس کے آنسو بے اختیار اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے اور اب ہر رات ان کا بہنا معمول بن چکا تھا۔ احسن اور شازیہ اس بچّے کو لے کر اُسی وقت اسلام آباد چلے گئے ۔وہ ترپتی رہی روتی رہی لیکن گھر میں سب صرف دلاسا دیتے رہے کہ تم نےنیک کام کیا ہے ۔ وہ بے اولاد ہے اور پھر سوچو وہ کوئی باہر کا بچّہ لے آتے تو ہم اُسے کیسے قبول کرتے۔ شازیہ کی گود بھرنے کے لئے راحت کی گود اُجاڑ دی گئی۔ وہ ترپتی ،سسکتی رہی لیکن کسی کو رحم نہ آیا۔ اس بات کو اب بیس برس گزر چکے تھے۔ احسن اور شازیہ جیسے پہلے سے انتظام کئے بیٹھے تھے کہ دو مہینوں میں ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے اور یہ خبر ایک عذاب کی صورت راحت پر نازل ہوئی۔ ایک شہر میں نہ سہی ایک ملک میں بھی ہوتے تو ملنے کے امکانات تو تھے ۔ کبھی کسی خاندانی شادی یا محفل میں وہ اپنی اولاد کو شازیہ کے ہاتھ میں سہی دیکھ تو لیتی لیکن اب تو کوئی اُمید باقی نہ رہی تھی۔ اب صرف یادیں تھی اور جب کبھی وہ بے اختیار یاد آتا راحت کےآنسو بہہ نکلتے جو روکے نہ رُکتے۔
 آج پھر ایک ایسی ہی صبح تھی اور راحت اپنا بھیگا چہرہ صاف کرتے ہوئے بستر سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ تھوڑی ہی دیر میں اُسے بچّے کے رونے کی آواز سُنائی دی اور وہ حیدر کے کمرے کے دروازے پر دستک دیتی ہوئی اندر داخل ہوئی اور زین کو اپنی گود میں لے کر بے قراری سے چوم لیا جسے پچھلے ایک ہفتے سے وہ اپنی گود میں لینے سے صرف اس لئے کترا رہی تھی کہ کہیں اُس کا لمس اس کے درد پھر سے نہ جگا دے ۔ زین اُس ننھی سی جان کا نعم البدل تو نہ ہو سکتا تھا جسے راحت نے اپنی کوکھ میں پال کر جنم دینے کی تکلیف سہہ کر پایا تھا اور کچھ لمحوں میں ہی کھو دیا تھا مگر پھر بھی یہ لمس آج اُس کے اندر اُمید کا ایک نیا دیا روشن کر گیا اور وہ اپنے وجود کے اُس حصّے کی خوشیوں کے لئے پھر سے سجدہ ریز ہوگئی جسے بچھڑے ۲۰ برس بیت چکے تھے۔
 ثمینہ طارق

اتوار، 14 فروری، 2016

محبت یا خوف



Daughter: "One shouldn't say 'stupid', right?"
Father: "That's right."
Daughter: "If you say 'stupid', God will punish you?"
Father: "I think God will be disappointed, actually."
Daughter: "Oh, if God is disappointed then He'll not be happy. He'll be sad, right?"
Father: "Uhhh, right..."
Daughter (getting teary-eyed): "I don't want Him to be sad. I won't say 'stupid' ever!"
Father (in his mind): Wow, isn't Love a better incentive than the fear of punishment?

بیٹی: "کسی کو 'احمق'، نہیں کہنا      چاہیے ٹھیک؟"
 باپ: "ٹھیک ہے"
بیٹی: "اگر آپ 'احمق' کہے گےتو خدا آپ کو سزا  دے گا؟"
 باپ: "میرا خیال ہےکہ اصل میں خدا مایوس ہو گا"
بیٹی: "اوہ  ! اگر خدا مایوس ہو گا  تو وہ خوش نہیں ہو گا  ۔ وہ  اداس ہو گا، ٹھیک ؟"
 باپ: "ہمم، ٹھیک..."
 بیٹی (آنسوؤں کے ساتھ): "میں اُسے اداس نہیں کرنا  چاہتی۔  میں کبھی'احمق' نہیں کہوں  گی!"
باپ (میں اپنے دماغ میں): واہ، کیا  محبت سزا  کے خوف سے بہتر ترغیب نہیں ہے؟
کچھ عرصہ قبل  فیس بک پر ایک فرینڈ کی وال پر یہ پوسٹ انگریزی میں لکھی دیکھی جس کا اردو میں ترجمہ بھی اوپر درج ہے ۔یہ دونوں باپ بیٹی کے درمیان مکالمات تھے جن میں سے نام کو ہٹا کر میں نے باپ اور بیٹی لکھ دیا ہے۔اس پوسٹ نے بہت کچھ سوچنے پر  مجبور کیا اور میں نے ایک تجربے سے گزرنے کے لئے اپنے چند طالب علموں (جن میں ہر عمر کے بچّے شامل تھےجماعت اوّل سے لے کر پنجم تک)سے کچھ سوالات کئے ۔
 ٭سوال نمبر ۱ " کیا ایک دوسرے کو غلط ناموں سے پکارنا چاہئے؟ مثلاً پاگل، احمق، بے وقوف، نکمہ، گدھا یا کوئی اور نام جو ہم چڑ بنا کر رکھ لیتے ہیں۔ جوابات کے ساتھ ایک وجہ بھی بتانی تھی ۔
جوابات:
۱- نہیں ،کیونکہ اللہ ناراض ہوتا ہے اور ہم کو سزا دیتا ہے۔
۲- نہیں ،کیونکہ اس سے اُن لوگوں  کو بُرا لگتا ہے اور وہ ناراض ہو جاتے ہیں اور ہم سے بات نہیں کرتے۔
۳-نہیں،  کیونکہ یہ بُرا کام ہے اور بُرا کام کرنے والا دوزخ میں جائے گا۔
۴-نہیں، کیونکہ کسی کو بُرا کہنے والا خود بُرا ہوتا ہے اور بُرے لوگوں کو اللہ سزا دیتا ہے۔
۵-نہیں، کیونکہ یہ بُرا کام ہے اور بُرے کام کرنے والے کو اللہ پسند نہیں کرتا اور دوزخ میں ڈال دیتا ہے۔
۶-نہیں کیونکہ کسی کو بُرا کہنے سے اللہ ناراض ہوتا ہے اور ہم کو اس کی سزا ملتی ہے۔
٭سوال نمبر ۲-ہم سب کو کس نے پیدا کیا ہے؟
جواب: تمام بچّوں کا جواب یکساں تھا " اللہ تعالیٰ نے۔
٭سوال نمبر ۳-آپ کو سب سے اچھا کون لگتا ہے؟
جواب: ۹۰٪امّی ابّو اور ۱۰٪بھائی یا بہن
٭سوال نمبر۴۔ آپ کو وہ کیوں اچّھے لگتے ہیں ؟
جواب: یکساں " کیونکہ وہ ہم سے پیار کرتے ہیں۔
٭سوال نمبر ۵- آپ کس سے پیار کرتے ہیں؟
جواب: یکساں "امّی  یا ابّو"
٭سوال نمبر ۶- کیا آپ اپنے امّی ابّو کا کہا مانتے ہیں اور کیوں اور اگر نہیں مانتے تو کیا ہوتا ہے؟
جوابات:
۱- جی ہاں ہمیشہ کیونکہ وہ ہم سے پیار کرتے ہیں۔
۲-جی ہاں! کیونکہ نہیں مانتے تو وہ ہم کو ڈانٹتے ہیں۔
۳-کبھی مانتے ہیں کبھی نہیں کیونکہ ہم کو اپنی مرضی کا کام اچھا لگتاہے۔ نہیں مانتے ہیں تو ڈانٹ پرتی ہے اور کبھی کبھی مار بھی۔
۴-مانتے ہیں کیونکہ نہیں مانتے تو وہ ناراض ہوتے ہیں اور پھر ہماری بات بھی نہیں مانتے۔
۵-جی ہاں ! کیونکہ نہیں مانتے تو وہ ہم سے ناراض ہو جاتے ہیں اور دکھی بھی۔
۶-امّی کا کہنا  مانتا ہوں کیونکہ مجھے امّی بہت پیار کرتی ہے۔
بچّوں سے ان تمام سوالات کے جوابات سُن کر ایک بات تو ثابت ہوئی کہ ہر بچّہ یہ جانتا ہے کہ اُس کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ اُس کے والدین اُس سے بے انتہا پیار کرتے ہیں اور وہ بھی سب سے زیادہ اپنے والدین سے ہی پیار کرتا ہے لیکن پھر بھی اُن کا کہنا صرف اس لیئے مانا جاتا ہے کہ یا تو نہ ماننے پر ڈانٹ یا مار پرے گی یا پھر اُن کی خواہشات پوری نہ کی جائے گی یعنی گھومنا پھرنا، کھلونے خریدنا وغیرہ۔ کچھ بچّوں نے ہی اپنے والدین سے محبت کا حوالہ دیا کہ وہ اُن کا کہا اس لئے مانتے ہیں کے وہ اُن سے پیار کرتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ بہ آسانی اخز کیا جاسکتا ہے کہ ہم والدین بچّوں کو لالچ دے کر یا پھر ڈر ا دھمکا کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچّہ نفسیاتی طور پر اسی رویے کا عادی ہو جاتا ہے اور اُسے یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ والدین ہم سے پیار کرتے ہیں اس لئے ہمیں اُن کا کہنا ماننا چاہئے۔وہ ہر کام صرف سزا کے خوف کے تحت کرتا ہے یعنی خوف محبت پر حاوی ہوجاتا ہے۔
اسی طرح ہر بچّہ یہ ضرور جانتا ہے کہ کسی کو بُرے نام سے پکارنا بُرا عمل ہے اور اس سے اللہ ناراض ہوتا ہے لیکن وہ یہ بُراکام اس لئے کرنے سے کتراتا ہیں کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہیں کہ وہ انہیں سزا دے گا اور جیسا کہ ہربچّہ پری پرائمری سے ہی اپنی دینیات کی کتاب میں یہ جملا رٹتا رہتا ہے کہ  "اچھا کام کرنے والا جنّت میں جائے گا اور بُرا کام کرنے والا دوزخ میں جائے گا " تو وہ صرف دوزخ کے ڈر سے اپنے آپ کو روکنے کی کوشش کرتا  ہے نہ کہ اس لئےاس سے اللہ ناراض ہوگا۔ اللہ کی ناراضگی کا احساس بھی سزا کے خوف کے تحت ہی اثر انداز ہوتا ہے نہ کہ اس لئے کہ اللہ ہم سے محبت کرتا ہے اس لئے اُس کا کہا ماننا چاہئے۔
ہم اپنے بچّوں میں سزا  اور  دوزخ کا خوف  اور جنّت کی لالچ کو تو پروان چڑھاتے ہے ہیں لیکن اُن میں اللہ سے محبت کا احساس نہیں پیدا کر پاتے ہیں۔ ہم اُنہیں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ جب امّی تم سے اتنا پیار کرتی ہے تو اللہ تم سے اُس سے ۷۰ گنا زیادہ پیار کرتا ہے اور اس  کے بدلے میں تم سے کچھ نہیں چاہتا۔ امّی ابّو تو تمھیں کھلونے صرف لا کر دیتےہیں، اچھے کھانے کھلاتے ہیں لیکن رزق تو وہی عطا کرتا ہے۔اُس نے تو تمام کائنات کو انسان کے لئے پیدا کر دیا ہے پھل پھول، پیر پودے ، درخت باغات، پہاڑ دریا یہ سب تمھارے لئے اللہ نے دئے ہیں اور صرف یہی نہیں وہ والدین جن سے تم پیار کرتے ہو وہ بھی تمھیں اللہ نے عطا کئے ہیں۔محبت کے لئے کئے جانے والے کام  دل سے کئے جاتے  ہیں جبکہ سزا کے خوف سے کئے جانے والے کام مجبوری میں کئے جاتے ہیں۔
آپ کیا کہتے ہیں خوف کو محبّت پر حاوی ہونا چاہئے یا محبت کو خوف پر؟ کیا محبّت سزا کے خوف سے بہتر ترغیب ہے؟
 ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

منگل، 3 نومبر، 2015

رشتے

رشتے کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ اور کیسے ہیں؟ ہمارے سب سے قریب رشتے خون کے رشتے ہوتے ہیں جو ہمیں قدرت کی طرف سے عطا کئے جاتے ہیں لیکن ہم اپنی زندگی میں اور بھی بے شمار رشتے بناتے ہیں۔ کچھ ہماری ضرورتوں کے تحت وجود میں آتے ہیں اور کچھ جزبات کے تحت بنتے ہیں۔ بعض اوقات ہم انجان لوگوں سے بھی رشتہ جوڑ بیٹھتے ہیں ، کبھی کسی کی  آواز سے تو کبھی کسی کے لفظوں سے۔لیکن ان تمام رشتوں کی اساس کیا ہے؟ ان کا جُڑے رہنا کس کے باعث ہے؟ اگر غور کیا جائےتو ہر رشتہ ' محبت' کی ڈور سے جُڑا ہوتا ہے۔ اگر تو کسی بھی رشتے یا تعلق کے درمیان محبت نہ ہو تو پھر وہ غرض اور ضرورت کا رشتہ رہ جاتا ہے جو نہ ہی پائدار ہوتا ہے اور نہ ہی تسکین بخشتا ہے۔اگر رشتوں کی جڑوں  میں محبت کا پانی نہ ڈالا جائے تو یہ پودا کمزور اور لاغر ہو جاتا ہے اور پروان نہیں چڑھ پاتا۔

 وقت کے ساتھ ہم اپنی زندگیوں میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ اکثر اوقات ان رشتوں سے میل ملاپ نہیں ہو پاتا ہے اور ہم لمبے عرصوں تک ایک دوسرے کے حالات سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔ہم محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ہم سب خود غرض ہو چکےہے اور ایک دوسرے کے لئے نہیں سوچتے لیکن اس محبت کا احساس ہمیں اُس وقت ہوتا ہے جب ہم میں سے کوئی کسی بڑی مشکل میں پر جائے ، بیمار ہو جائے یا اس دارِ فانی سے رخصت ہو جائے ۔ ایسے وقت میں  سب ایک جگہ موجود ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی تسلی و تشفّی کا باعث بنتے ہیں ۔

انسان اپنی فطرت سے مجبور ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی محبت پر یقین نہیں کرتا ہے اور اُنہیں آزمائش میں ڈالے رکھتا ہے کہ جان پائے کہ کون کس سے کتنی محبت کرتا ہے۔ آزمائش انسانی رشتوں کے درمیان محبت کو مضبوط کرنے کے بجائے اُس میں دراڑ ڈال دیتی ہیں کیونکہ ہم  آزمائش کے دوران اپنے پیاروں کو ناراض کر بیٹھتے ہیں جس سے رشتے کمزور ہوجاتے ہیں۔انسان سے انسان کا رشتہ محبت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اور یہی پیار اور توجہ ان رشتوں کا مان ہوتا ہے جو آزمانے سے ٹوٹ جاتا ہے پھر سوائے دُکھ کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ہمیں اپنے رشتوں کو وقت دینا چاہئے نہ صرف بُرے وقت میں  بلکہ عام حالات میں بھی ایک دوسرے  کی ضرورتوں سے واقف رہنا چاہئے تاکہ دلوں میں قدورتوں کو جگہ نہ ملے اور نہ ہی ہمیں اور نہ ہی ہمارے اپنوں کو آزمائش کی چکّی میں پیسنا پڑے۔

انسان کا ایک رشتہ جو کہ اس دنیا میں آنے سے بھی پہلے جُڑتا ہے وہ اُس کی بنانے والی ذات سے قائم ہوتا ہے ۔ اپنے رب سے جُڑا یہ رشتہ سب سے مضبوط اور پائدار رشتہ ہوتا ہے۔ انسان کا تعلق ربِّ کریم سے قدرتی اور آفاقی ہوتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے درمیان محبت کا وجود نہ ہو ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم دنیا کی حرص اور لالچ کے سمندر میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ پھر ہمیں اپنے رب کی قربت کا احساس نہیں ہوتا۔ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ  جس نے ہمیں زندگی کی نعمت بخشی ہے وہ ہم سے ہماری بے انتہا پیار کرنے والی ماؤں سے بھی ۷۰ گنا زیادہ پیار کرتا ہے۔ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری ہر سانس اُس کی امانت ہے اور ہم اس کے لئے اُس کے محتاج ہیں۔ اُس کے اذن کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے ہیں پھر بھی دنیا داری میں اس قدر جُت جاتے ہیں کہ اُس سے رشتے کی اساس کو بھول جاتے ہیں۔ وہ اپنی تمام تر محبّتوں کو اپنی نعمتوں کی صورت ہمیں بخشتا ہیں اس کے بدلے  ہمیں صرف اُس کا حق ادا  کرنا ہے  جو کہ عبادات کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے جو ہماری جانب سے اُس سے محبت کا اقرار اور جواب ہے بلکہ اپنے دلوں کی تسکین کا باعث بھی بنتا ہے۔لیکن ہم اپنے دنیاوی رشتوں کی طرح اپنے رب سے بھی رشتہ صرف اپنی ضرورتوں کے تحت جوڑتے ہیں یا تو تکالیف میں اُس سے مدد مانگ کر یا پھر اپنی پریشانیوں سے نجات کے لئے۔

جیسا کہ انسان کا ہر رشتہ 'محّبت' کے ڈور سے جُڑا ہوتا ہے اسی طرح انسان  کا اپنے رب سے رشتہ بھی فقط محبت کی ڈور سے جُڑا ہوتا ہے لیکن اُس سے یہ رشتہ وقت اور  ضرورتوں کا محتاج نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ تو مسلسل ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ جیسا کہ محبتوں کو ہمیشہ اظہار کی ضرورت رہتی ہے اسی طرح اپنے رب سے محبت کا اظہار بھی مسلسل ہونا چاہئے ۔ جس طرح ہم اپنوں سے اپنی محبت کا اظہار تحفے تحائف دے کر کرتے ہیں اسی طرح اللہ سے محبت کا اظہار بھی عبادات میں باقاعدگی اور اُس کےاحکامات کی تکمیل کا تحفہ دے کر کرسکتے ہیں۔

آپ اپنوں سے اپنے رشتوں کو کس طرح مضبوط کرتے ہیں؟

ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

اتوار، 11 اکتوبر، 2015

جو تھام لیا تو سب پا لیا، جو چھوڑ دیا تو سب کھودیا



ثمینہ طارق  جمعرات 2 جولائ 2015



وقت کے گزرنے کی کیفیت کو ہم اپنے حالات اور واقعات اور اپنی زندگی کے پیرائے میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ فوٹو:فائل

وقت کبھی ٹہرتا نہیں، کہیں رُکتا نہیں، کسی کا انتظار وہ کرتا نہیں۔ لمحے منٹوں میں، منٹ گھنٹوں میں، گھنٹے دنوں اور دن مہینوں اور مہینے سالوں میں اس طرح  تبدیل ہوتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

وقت کے گزرنے کی کیفیت کو ہم اپنے حالات اور واقعات اور اپنی زندگی کے پیرائے میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ جب ہمیں کسی کا انتظار ہو تو وقت کاٹے نہیں کٹتا لیکن مقررہ وقت پر کام مکمل کرنا ہو تو تیزی سے نکلا چلا جاتا ہے۔ ہم اپنی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کی ذمّہ داری بھی وقت پر ڈال دیتے ہیں اور اس کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہوتے ہیں اُنہیں یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ ہماری کامیابی میں ہماری محنت، توجّہ، مستقل مزاجی اور لگن بھی شامل ہے جبکہ ناکامی میں ہماری کوتاہی، کم ہمتی اور خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہیں۔

ہر کام اپنے وقت پر اچھا لگتا ہے:
کچھ کام وقت رہتے ہی کر لئے جائے تو بہتر ہے ورنہ اُن کی اہمیت باقی نہیں رہتی جیسے کسی اپنے کی خوشی میں وقت پر شریک ہونا، یا کسی کی تکلیف میں اُس کا ساتھ دینا وغیرہ۔ ایسے خاص اوقات میں ہم اگر اپنی مصروفیت کے باعث شریک نہ ہوسکے تو یہ ہماری زندگی کی بڑی غلطی ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی اپنا روٹھ جائے یا ناراض ہوجائے تو اپنا محاسبہ کرنے میں اتنا وقت نہ صرف کردیں کہ پھر معذرت کا موقع ہی ہاتھ سے نکل جائے اور ہماری زندگی اُن پرخلوص دوستوں اور رشتوں سے خالی ہوجائے۔

وقت ہر درد کا مرہم ہے:
کوئی بھی زخم کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو وقت کا بہاؤ اسے بہالے جاتا ہے۔ لیکن کچھ زخم ایسے بھی ہوتے ہیں جو وقت کے دھارے میں بہہ کر بہل تو جاتے ہیں اور وقت کا مرہم کچھ دیر کو تو انہیں خشک کر دیتا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ اُس پر وقت کی کھڑند جم جاتی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ سخت ہوجاتی ہے۔ پھر جب اسی بے رحم وقت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہم ایسے زخموں کو کھرچنے لگتے ہیں تو  اُن سے دوبارہ لہو رسنے لگتا ہے اور وہ زخم ہمارے دل کا ناسور بن جاتے ہیں

گیا وقت کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا:
گیا وقت کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا، گزرا کل صرف یاد بن کر رہ جاتا ہے اور اگر یادیں حسیں ہو تو آنے والا ہر لمحہ روشن اورخوشگوار ہوتا ہے۔ اگر یادوں میں صرف درد ہو تو آنے والا ہر لمحہ آنسو بن جاتا ہے۔ پھر چاہے لمحہء موجود میں ہم خوشی سے ہمکنار ہی کیوں نہ ہوں۔ ماضی ہمارے حواسوں پر چھایا رہتا ہے اور جینا مشکل کر دیتا ہے۔ ہمارے پاس جو آج ہے وہ کل نہیں رہے گا یہاں تک کہ ہمارے رشتے بھی۔ زندگی کے کسی لمحے کی کوئی خبر نہیں ہم خود بھی آج ہے اور شائد کل نہ ہو۔ پیچھے جو رہتا ہے وہ یادوں کی صورت رہتا ہے۔ ہم کتنی ہی کوشش کرلیں گزرا وقت واپس نہیں آتا ہے۔

جو کچھ ہے لمحہ موجود میں پوشیدہ ہے:
وقت واقعات کا ایک تسلسل ہے جو ماضی سے حال اور پھر مستقبل کی جانب رواں رہتا ہے۔ گیا وقت کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا ہے اور آنے والا وقت کیسا ہوگا اس کی ہمیں کچھ خبر نہیں۔ اس سے صرف ربِ کریم کی ذات واقف ہے۔ ہم اپنے لئے کچھ بھی سوچ لیں، کچھ بھی منصوبہ بنالیں لیکن ہونا وہی ہے جو رب کی مرضی اور منشاء ہوگی۔ دن، مہینے اور سال یونہی گزرتے جائیں گے فقط لمحہ موجود ہی ہمارے اختیار میں ہے۔ اپنے آج کو محسوس کریں اور اس کی اہمیت سے آگاہ ہو کر ان قیمتی لمحات کو اتنا خوبصورت بنائیں کہ آنے والے کل میں وہ آپ کا حسین سہارا بنے یا آپ کے بعد آپ کے اپنوں کو سہارا دے سکے۔ یادیں ہی ہمارا قیمتی سرمایہ ہے جو کوئی ہم سے نہیں چھین سکتا ہے لیکن ان یادوں کو خوبصورت بنانے کے لئے آج کو اپنی گرفت میں لینا ضروری ہے، لمحہ موجود کو بھرپور انداز میں جینا ضروری ہے۔
جس طرح وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اسی طرح موت بھی کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ نہ جانے آنے والا کونسا لمحہ ہماری زندگی کا آخری لمحہ ہو تو کیوں نہ اس لمحے کو ہی اپنی گرفت میں رکھتے ہوئے آنے والی زندگی کے سفر کے لئے کچھ زادِ سفر حاصل کر لیا جائے اور اپنا مقصدِ حیات پا لیا جائے۔

جو کچھ ہے وہ اسی لمحہ موجود میں پوشیدہ ہے۔ جو تھام لیا تو سب کچھ پا لیا اور جو چھوڑ دیا تو سب کچھ کھودیا۔

ثمینہ طارق

میرا یہ بلاگ روزنامہ ایکسپریس میں  جمعرات ۲ جولائی ۲۰۱۵  کو مندرجہ ذیل لنک پر شائع ہوا۔ 

اتوار، 13 ستمبر، 2015

خوشبو والا گھر. (افسانہ)




آنکھ کھُلتے ہی اُس نے اپنے ارد گرد ایک مانوس سی خوشبو محسوس کی اور اُس کے چہر ے پر مُسکان پھیل گئی۔ مگر اُسی لمحے اُسے محسوس ہو ا کہ آج وہ قبل از وقت جاگ گئی ہے۔ عموماً صبح کھڑکیوں کے پردے ہٹنے کے ساتھ ہی سورج کی کرنیں اُس کے لئے آلارم کا  کام انجام دیتی تھی۔ لیکن ابھی تو کافی اندھیرا تھا اور کھڑکیوں سے پردے بھی نہیں ہٹائے گئے تھے۔ اُس کے جاگنے کی وجہ وہ مانوس سی خوشبو تھی جو بستر کے ساتھ رکھی میز پر رکھے گلدستے سے آرہی تھی۔ اُسے گلاب بے انتہا پسند تھے اتنے کہ ایسے  ایک گلاب کے لئے وہ ساری زندگی اس گھر میں رہنے کو تیار تھی اور یہ تو پھر پورا گلدستہ تھا۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر گلدستہ اُٹھا لیا اور  اپنے چہرے تک لا کر اُس کی خوشبو سےمحظوظ ہونے لگی۔ اتنے میں  اُس کی نظر میز پر رکھے ایک خوبصورت کارڈ پر پڑی  جس پر جلّی حرفوں میں  'ہیپی   مدرز ڈے'  لکھا ہوا تھا۔ کارڈ تھامتے ہی اُس کی مُسکان  چند لمحوں کے لئے معدوم ہوگئی مگر پھر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ آج وہ اُس گھر میں تھی جس میں رہنےکی وہ بچپن سے منتظر تھی۔
 چھوٹے چھوٹےٹِن کے چھتوں والے  گھروں پر مشتمل ایک محلّہ جس کی چھتوں کی دراروں سے سورج کی کرنیں چھن چھن کرتی پورے گھر کو چمکاتی رہتی  اور برسات میں کچّی زمین کو جل تھل کرتی تھی ،میں   نچلے درجے کی آبادی اپنی زندگی  گزارنے پر مجبور  تھی۔ شام ہوتے ہی  ہر گھر سے ننگ دھرنگ بچّے نکل کر گلی میں کھیلتے نظر آتے تھے اور اُن کے ساتھ ماریا بھی نکل آتی تھی ۔ماریا  اس  محلّے کی سب سے صاف ستھری اور سلجھی ہوئی بچّی تھی۔ اُس کے والد ایک اسکول میں چپراسی  تھے  اور اُن کی کوششوں سے ماریا کو بھی ان ہی کے اسکول میں بغیر فیس کے داخلہ مل  گیا تھا اس لئے وہ  ایک اچھے  اسکول میں  تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ اس کے برعکس محلّے کے زیادہ تر لوگ سڑکوں کی صفائی یا  پھر  مزدوری کرتے تھے اور اس قابل نہ تھے کہ اپنے بچّوں کو تعلیم دلوا سکے۔تعلیم نے  ماریا کو  محلّے کے دوسرے بچّوں سے ممتازکردیا تھا۔چونکہ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اس لئے اُسے محلّے کےبچّوں کے ساتھ ہی کھیلنا پرتا تھا۔ گلی میں کھیلتے ہوئے بھی وہ بچّوں کے درمیان نمایاں  نظر آتی ۔اس میں اُس کی والدہ کی سُلجھی طبیعت کا بھی ہاتھ تھا ۔ وہ محلّے کی دوسری خواتین کی طرح لوگوں کے گھروں میں کام کرنے نہ جاتی تھی بلکہ کپڑے سینے کا ہنر جانتی تھی اس لئے ماریا کے والد کے اسکول کے اساتزہ   اُنھیں کپڑےسینے  بھجوا دیتے  تھے ۔ اکژ بچے ہوئے کپڑوں  کو جوڑ کروہ  ماریا کے لئے خوبصورت فراک سی دیتی تھی۔ جس سے ماریا    محلّے کے تمام بچّوں میں منفرد نظر آتی تھی۔
چھوٹے چھوٹے گھروں پر مشتمل اس گلی کے  اختتام  پر ایک دو منزلہ پکّی چھت والی   عمارت بھی موجود تھی۔ جہاں سے کبھی کوئی بچّہ باہر نکلتے نہیں دیکھا گیا تھا لیکن ہر اتوار کو گلی میں کھیلنے والے تمام بچّے اس گھر کے دروازے کے آگے جمع ہو جاتے تھے کیونکہ اس گھر سے تھیلیوں میں بھر کر کھانے کی چیزیں بانٹی جاتی تھی اور محلّے کے تمام گھروں میں پہنچائی جاتی تھی اور یہ کام گلی میں کھیلنے والے بچّے ہی انجام دیتے تھے۔ ماریا بھی ان بچّوں میں شامل ہوتی تھی  اور اچھے اچھے کھانے لیتے ہوئے اُس کا جی چاہتا کہ وہ اس گھر میں رہنے چلی جائے  کیونکہ اُس  گھر میں  گلاب کے بہت سے پودے لگے ہوئے تھے جن کی خوشبو سے سارا محلّہ مہکتا تھا اور گلاب ماریا  کو بے انتہا پسند تھے۔ ماریا نے  اپنی اس خواہش کا ذکر کئی بار اپنی ماں سے کیا تھا اور خوب ڈانٹ کھائی تھی۔ 
اس محلّے میں کھیلتے ہوئے ماریا کا بچپن تمام ہوا اور اُس نےتعلیم مکمل کر کے اپنے ہی اسکول میں ملازمت حاصل کر لی۔ اب ان کا گھر بھی محلّے کے باقی گھروں سے بہت بہتر ہوگیا تھا مگر گلی کے آخر میں بنےہوئے اُس گھرمیں جانے کی خواہش اُس کے دل میں اب بھی تھی جسے اُس نے بچپن سے ہی خوشبو والا گھر کہنا شروع کر دیا تھا ۔ حالانکہ اب کئی سالوں سے اُس گھر سے کھانا نہیں بانٹا جاتا تھا بلکہ محلّے کے گھروں میں جو کچھ بھی پکتا وہ اُس گھر میں رہنے والوں کے لئے لے جاتے تھے۔ وہ گھر تو ویسا ہی تھا مگر اُس کے مکین بدل گئے تھے اور اب جو وہاں رہتے تھے وہ محلّے کے لوگوں سے بھی زیادہ ضرورت مند تھے۔ پہلے پہل تو ماریا کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ایسا کیوں ہوا لیکن بڑھتی عمر کے ساتھ اُس نے جان لیا کہ مکان وہیں رہ جاتے ہیں لیکن مکین جہان سے گزر جاتے ہیں۔جیسے اُس کے والد اُسے اکیلا چھوڑ کر چل بسے تھے۔
والد کی وفات کےبعد ماریا کی والدہ نے بہت کوشش کی کہ ماریا شادی کرلے لیکن ماریا اپنی ماں کو اکیلا چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس بات کو لے کر آئے دن دونوں میں بحث ہوتی رہتی۔جوزف کا رشتہ ماریا کے لئے آیا تو اُس کی ماں کی اُمید جاگ اُٹھی کیونکہ وہ ماریا کے بہترین دوستوں میں سے تھا اور ماریا اُسے پسند بھی کرتی تھی۔ماں نے بڑی اُمید سے ماریا سے کہا!
"ماریا   جوزف بہت اچھا لڑکا ہے ۔پڑھا لکھا بھی ہے اور اچھی ملازمت بھی ہے۔ ہم جیسے  غریب لوگوں کو  ایسے رشتے مقدر سے ملتے ہیں انھیں کھونا نہیں چاہئے۔"
"نہیں ماں!آپ نے یہ سوچا بھی کیسے کہ میں آپ کو چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔ آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ جوزف نوکری کے لئے   ملک سے باہر  جا رہا ہے۔ مجھے بھی اُس کے ساتھ جانا پرے گا پھر آپ اکیلے کیسے رہے گی۔ " ماریا  اپنی ضد پر قائم تھی۔
" تو ایسا کرو مجھے اُس خوشبو  والے گھر میں چھوڑ آؤ میں وہاں آرام سے رہوں گی۔" یہ سنتے ہی ماریا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے وہ کبھی خواب میں بھی نہیں  سوچ سکتی  تھی کہ وہ اپنی بیمار ماں کو اُس گھر میں چھوڑ کر شادی کرکے دوسرے مُلک  جا بسے۔
"نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی میں آپ کے ہی پاس رہوں گی اور آپ فکر نہ کریں اگر یہیں کوئی مناسب رشتہ مل گیا تو شادی بھی کر لوں گی۔" ماریا نے اپنے اور اپنی ماں کے آنسو پونچھے اور مسکراتےہوئے اپنی ماں کو دلاسا دیا۔ 
ماں کو بیماری ہی ایسی لگی جو اُس کی جان لے کر گئی اور ماریا اس دنیا میں بلکل  تنہارہ گئی۔ جب تک اسکول میں پڑھاتی رہی اُس کا وقت گزرتا رہا لیکن ریٹائر منٹ کےبعد اُسے اس گھر میں اکیلے وقت گزارنا بہت مشکل لگنے لگا۔ ماریا نے  وقت گزاری کے لئے خوشبو  والے گھر میں جانا شروع کردیا  جہاں اُس جیسے تنہائی کے مارے بہت سے لوگ موجود تھے۔وہ اُن کے ساتھ رہتی ، اُن کے کام کرتی ، اُن کے ساتھ تفریح کرتی ،اُن کی باتیں سنتی اور پھر رات گئے گھر لوٹ آتی۔ ماریا کو وہاں رہنے والوں کی حالت  دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا تھا۔ وہ تنہائی کے کرب سے واقف تھی لیکن اُس کے صبر کے لئے یہی کافی تھا کہ اُس کا کوئی اپنا اس دنیا میں موجود  نہیں ہے مگر وہاں بسنے والے لوگوں کے تواُن کے اپنے اس تنہائی کے اندھیرے غار میں دھکیل گئے تھے۔وہ اُن کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتی تھی مگر اُس کی پینشن  صرف اُس کی ضرورتوں کو پورا کر پاتی  تھی  وہ اتنی نہ تھی کہ وہ  اس سے کسی کی مدد کر سکتی۔
 ماریا کا دل اب گھر میں بلکل نہیں لگتا تھا۔ دن میں تو اُس کا وقت  خوشبو والے  گھر میں اچھا خاصا گزر جاتا تھا  مگر رات ہوتے ہی  گھر کی ہر چیز اُسے ماں کی یاد دلاتی تھی۔ رات کو سوتے میں اُسے ماں کی آواز سُنائی دیتی جیسے وہ پکار رہی ہو ۔ آخر کار اُس نے ایک اہم فیصلہ کیا اور اپنا گھر کرائے پر دے کر خود بھی  خوشبو والے گھر میں رہنے چلی گئی۔
گلاب کے پودوں کے درمیان بسے اس گھر میں ہر طرف خوشبو ہی خوشبو تھی جو صرف پھولوں کی خوشبو نہ تھی بلکہ اُس محبت اور احساس کی خوشبو بھی  تھی جو وہاں رہنے والوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے تھا۔ پھولوں کا گلدستہ ہاتھ میں لئے ماریا نے  کارڈ کو ایک بار پھر سے دیکھا اور اُن حسین لمحوں کا انتظار کرنے لگی جب نہ صرف محلّے کے بلکہ شہر کے بہت سے بچّے آج اس گھر میں بہت سے تحائف کے ساتھ آئے گے اور اُسے ماں نہ ہوتے ہوئے بھی ماں ہونے کاحسیں  احساس بخشے گے۔ وہ ایک دارلسکون میں موجود تھی، دارالسکون یعنی ایسا گھر جہاں سکون میسر ہو،  جو اُس کی گلی کے  اختتام پر بنے اُس گھر میں بنایا گیا تھا جسے وہ خوشبو والا گھر کہتی تھی اور   جس کے مکیں بے اولاد تھے اور موت  کے بعد اس گھر کو دارلسکون کے لئے وقف کر گئے تھے۔

نوٹ: یہ افسانہ فیس بُک کے اُردو افسانہ گروپ کے ایک ایوینٹ 'اکیسویں صدی کے افسانے' میں شامل ہوا جس کا لنک ذیل میں درج ہے۔


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔