Translate

منگل، 3 ستمبر، 2013

خوف

کھو دینے یا کھو جانے کا خوف انسان کی فطرت میں شامل ہوتاہے چاہے وہ کسی چیز کے کھو جانے کا خوف ہو یا کسی اپنے کے کھو جانے کا خوف ہو- ہم اپنی عزیز ترین چیزوں کی حفاظت دل و جان سے کرتے ہیں کیونکہ ہمیں ان کے کھو جانے یا بچھڑ جانے کا خوف ہوتا ہے اور یہ خوف ہمارے ازہان پر کچھ اس طرح غالب رہتا ہے کہ ہم یہ محسوس ہی نہیں کر پاتے ہیں کہ اُس چیز یا شخص کا جُدا ہونا ہمارے مفاد میں  بھی ہو سکتا ہے یا ہمارے لئے خوش آئند ثابت ہوسکتا ہے- ممکن ہے ہماری زندگی میں اُس سے بہتر کوئی شخص وارد ہو یا ہم اُس سے بہتر کوئی شئے خرید لیں-
ہم اپنی چیزوں سے اس قدر محبت رکھتے ہیں کہ اُن کے کھو جانے کا خوف ہمارے اعصاب پر طاری رہتا ہے چاہے پھر وہ کوئی معمولی سی چیز ہی کیوں نہ ہو مثلًاً  ایک مصنف کے لئیے اُس کا قلم اور اک قاری کے لیے اُس کی کتاب۔ جب چیزیں کھو جاتی ہیں تو اُن کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں اور ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہم پہلے کی بنسبت بہتر یا قیمتی شئے خریدے  یعنی کہ ہم بہتری کی جانب مائل رہتے ہیں – پھر آہستہ آہستہ ہم اپنی پُرانی چیزوں کو اکثر فراموش کر بیٹھتے ہیں کیونکہ انسان نسیان کا مریض ہے اور ہر چیز کو بھولنے کا شرف رکھتا ہے- نسیان کا مرض بھی انسان کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں کیونکہ اگر ہم اپنی کھوئی ہوئی چیزوں کو بھول نہ پاتے تو یہ عمر بھر کا روگ بن جاتا-
لیکن ہم سے کوئی ہمارا اپنا بچھڑ جائے تو یہ دُکھ نا قابلِ برداشت ہوتا ہے- ہم اپنوں کو بھولنے کی کوشش کرنے میں جلد کامیاب نہیں ہوتے لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ ہم اپنوں کو بھی دُنیا کی تیز رفتاری میں بُھلا بیٹھتے ہیں لیکن جب کبھی وہ یاد آتے ہیں تو پھر سے دُکھی ہو جاتے ہیں- ان میں سے کچھ رشتے تو ہمارے بہت قریب ہوتے ہوئے بھی ہمیں دکھائی نہیں دیتے ہیں اور کچھ ہمیں چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے اس دُنیا سے چلے جاتے ہیں- قُدرتی طور پر بچھڑنے والے کو کو بھولنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا ہے لیکن ہم اکثر اپنے رشتوں کو بھی چیزوں کی طرح کہیں رکھ کر بھول جاتے ہیں اور ایک دن آتا جب یہ رشتے ہم سے کھو جاتے ہیں - انسان کو اپنی چیزوں کی بنسبت رشتوں کے بچھڑنے کا احساس بڑی دیر میں ہوتا ہے ور اُس وقت تک وہ ہم سے اس قدر دُور ہو جاتے ہیں کہ اُنہیں دوبارہ اپنی زندگی میں لانا ممکن نہیں رہتا- ہم چاہتے ہوئے بھی نہ تو انہیں دوبارہ ڈھونڈ پاتے ہیں اور نہ ہی بھُلا پاتے ہیں اور یہ رشتے درد بن کر ساری زندگی ہمارے دل میں رہتے ہیں-چیزوں  اور رشتتوں دونوں ہی کے کھودینا دردناک ثابت ہوتا ہے لیکن انسان بآسانی اس عمل سے گزر جاتا ہے- کبھی پیچھے مُڑ کر دیکھے اور اپنی زندگی کا جائزہ لے تو تھوڑی دیر کو دُکھی ضرور ہوتا ہے لیکن پھر سے اپنی زندگی کے کاموں میں مشغول ہو کر سب کچھ بھلا دیتا ہے۔
انسان صرف اپنی چیزوں اور رشتوں کے کھونے کے ڈر میں ہی مبتلا نہیں رہتا بلکہ وہ خود کو کھو دینے سے سب سے زیادہ خوفزدہ رہتا ہے۔خود کو کھودینے کا  خوف انسان کے لئے سب سے تکلیف دہ ثابت ہوتا ہےاور یہ خوف ان تمام خدشات پر ہاوی ہوتا ہے جس سے ہمیں زندگی میں واسطہ پرتا ہے مثلاً  نہ پسند کئے جانے کا خوف، مسترد کئے جانے کا خوف، تعلقات کے ٹوٹنے کا خوف، پسندیدہ اشیاءکے کھونے کا خوف- یہاں تک کے اُن حالات  کے کھودینے کا خوف جس میں ہم خوش اور مطمئن ہے- ہم یہ جانتے ہیں کہ انسان فانی ہے، ایک نہ ایک دن اسےاس دنیا سے چلے جانا ہے ۔ کوئی بھی ہمیشہ نہیں رہنے والا نہیں پھر بھی موت کا خوف ہرشخص پر مسلط رہتا ہے-ہم ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ نہ جانے کون سا لمحہ ہمارے لئے قزاقِ اجل کا پیغام لے آئے- خوف انسان کی فطرت کا اک حصّہ ہے-اس کے باعث ہم بہت سے ایسے کام کرنے سے قاصر رہتے ہیں جس سے ہمارے دل و دماغ کو سکون اور اطمینان میسر آتا ہے-موت سے پہلے بھی انسان اکثر و بیشتر اپنے آپ کو کھودینے کے عمل سے گزر جاتا ہے اور اس کا اچھایا     بُرا ہونا اس بات پرمنحصر ہے کہ ہم نے خود اپنے آپ کو کب، کہاں اور کن حالات میں کھویا ہے- کبھی انسان اپنے غموں اور دکھوں سے نجات پانے کے لئے اپنے آپ کو لوگوں کے ہجوم میں کھونے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی دنیا سے بیزار ہو کر سناٹوں میں ،کبھی کسی کے لفظوں میں تو کبھی کسی کے خیال میں، کبھی کسی سوچ میں تو کبھی کسی خواب میں- غرض انسان اپنی تمام  عزیز ترین  اشیاء اور رشتوں کی طرح موت سے پہلے خود کوبھی کھودیتا ہے-اگر خود کو کھونے کا یہ عملاپنی ذات کی تلاش کے سلسلے میں ہو تو پھر انسان کے لئے سفراور بھی مشکل ہوجاتا ہے اور خوف بھی زیادہ رہتا ہے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اپنی تلاش کا یہ سفر اُسے کہاں تک لے جائے گا اور پھر وہ خود کو ڈھونڈ بھی پائے گا یا مزید اس کی گہرائی میں اُترتا جائے گا-
 اپنے یقین کو ہمیشہ اپنے خوف سے بلند رکھیں اور خوف کو کبھی بھی اپنے یقین پر مسلط نہ ہونے دیں- جو لوگ اپنے خوف کو اپنےیقین  پر مسلط نہیں ہونے دیتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں اور ایسے کام کر جاتے ہیں جو عام طور پر ناممکن نظر آتے ہیں – اپنی تلاش کے سفر پر نکلنے والے وہ لوگ جن کا یقین پختا ہو او ر اللہ پر ایمان مضبوط ہو وہ اس تلاش کے سفر کو جاری رکھتے ہے اور اس کے ذریعے روح کے سفر کا انتخاب کرتے ہیں- روح کا سفر خوشبو کا سفر ہے اور یہ اپنا راستہ خود بناتا ہے اور اس راستے پر سفر کرنے والا دنیا کے خوف سے آزاد ہو جاتا ہےاور خود کو کھونے کے لئے ہر لمحہ تیار رہتا ہے- وہ اپنے آپ کو اُس ذاتِ پاک میں ڈبو دینا چاہتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ خود کو کھونے کا یہ عمل اس کی فنا ہے- لیکن انسان اپنی اس فنا میں بھی خوش ہے کیونکہ وہ اس کھودینے کے عمل کے دوران وہ سب کچھ پا لیتا ہے جس کی اُسے عمر بھر تلاش رہی ہے اور انسان کا اسطرح خود کو کھونے کا عمل اس کی زندگی کا سب سے مثبت عمل ثابت ہوتا ہے-وہ خود کو کھو کر بھی یہ بھول جاتا ہے کہ اُس نے خود کو کھویا ہے -یاد رہتا ہے تو فقط وہ جسے خود اپنے آپ کو کھوکر اُس نے پایا ہے-
کھو دینے کا ڈر تو انسان کی فطرت میں شامل ہے لیکن عشقِ خدا ایک ایسا دریا ہے جس میں ڈوبنے کے ڈر سے بار بار بار اُبھڑنے والا فقط تیرتا ہی رہ جاتا ہے جبکہ  ڈوب جانے والا پار اُتر جاتا ہے- ڈوبنے والا خود کو کھونے سے نہیں ڈرتا اور خود کو فنا کر کے بقا کا سفر بخوبی طے کر پاتا ہے-
 ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔