Translate

منگل، 3 نومبر، 2015

رشتے

رشتے کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ اور کیسے ہیں؟ ہمارے سب سے قریب رشتے خون کے رشتے ہوتے ہیں جو ہمیں قدرت کی طرف سے عطا کئے جاتے ہیں لیکن ہم اپنی زندگی میں اور بھی بے شمار رشتے بناتے ہیں۔ کچھ ہماری ضرورتوں کے تحت وجود میں آتے ہیں اور کچھ جزبات کے تحت بنتے ہیں۔ بعض اوقات ہم انجان لوگوں سے بھی رشتہ جوڑ بیٹھتے ہیں ، کبھی کسی کی  آواز سے تو کبھی کسی کے لفظوں سے۔لیکن ان تمام رشتوں کی اساس کیا ہے؟ ان کا جُڑے رہنا کس کے باعث ہے؟ اگر غور کیا جائےتو ہر رشتہ ' محبت' کی ڈور سے جُڑا ہوتا ہے۔ اگر تو کسی بھی رشتے یا تعلق کے درمیان محبت نہ ہو تو پھر وہ غرض اور ضرورت کا رشتہ رہ جاتا ہے جو نہ ہی پائدار ہوتا ہے اور نہ ہی تسکین بخشتا ہے۔اگر رشتوں کی جڑوں  میں محبت کا پانی نہ ڈالا جائے تو یہ پودا کمزور اور لاغر ہو جاتا ہے اور پروان نہیں چڑھ پاتا۔

 وقت کے ساتھ ہم اپنی زندگیوں میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ اکثر اوقات ان رشتوں سے میل ملاپ نہیں ہو پاتا ہے اور ہم لمبے عرصوں تک ایک دوسرے کے حالات سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔ہم محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ہم سب خود غرض ہو چکےہے اور ایک دوسرے کے لئے نہیں سوچتے لیکن اس محبت کا احساس ہمیں اُس وقت ہوتا ہے جب ہم میں سے کوئی کسی بڑی مشکل میں پر جائے ، بیمار ہو جائے یا اس دارِ فانی سے رخصت ہو جائے ۔ ایسے وقت میں  سب ایک جگہ موجود ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی تسلی و تشفّی کا باعث بنتے ہیں ۔

انسان اپنی فطرت سے مجبور ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی محبت پر یقین نہیں کرتا ہے اور اُنہیں آزمائش میں ڈالے رکھتا ہے کہ جان پائے کہ کون کس سے کتنی محبت کرتا ہے۔ آزمائش انسانی رشتوں کے درمیان محبت کو مضبوط کرنے کے بجائے اُس میں دراڑ ڈال دیتی ہیں کیونکہ ہم  آزمائش کے دوران اپنے پیاروں کو ناراض کر بیٹھتے ہیں جس سے رشتے کمزور ہوجاتے ہیں۔انسان سے انسان کا رشتہ محبت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اور یہی پیار اور توجہ ان رشتوں کا مان ہوتا ہے جو آزمانے سے ٹوٹ جاتا ہے پھر سوائے دُکھ کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ہمیں اپنے رشتوں کو وقت دینا چاہئے نہ صرف بُرے وقت میں  بلکہ عام حالات میں بھی ایک دوسرے  کی ضرورتوں سے واقف رہنا چاہئے تاکہ دلوں میں قدورتوں کو جگہ نہ ملے اور نہ ہی ہمیں اور نہ ہی ہمارے اپنوں کو آزمائش کی چکّی میں پیسنا پڑے۔

انسان کا ایک رشتہ جو کہ اس دنیا میں آنے سے بھی پہلے جُڑتا ہے وہ اُس کی بنانے والی ذات سے قائم ہوتا ہے ۔ اپنے رب سے جُڑا یہ رشتہ سب سے مضبوط اور پائدار رشتہ ہوتا ہے۔ انسان کا تعلق ربِّ کریم سے قدرتی اور آفاقی ہوتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے درمیان محبت کا وجود نہ ہو ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم دنیا کی حرص اور لالچ کے سمندر میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ پھر ہمیں اپنے رب کی قربت کا احساس نہیں ہوتا۔ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ  جس نے ہمیں زندگی کی نعمت بخشی ہے وہ ہم سے ہماری بے انتہا پیار کرنے والی ماؤں سے بھی ۷۰ گنا زیادہ پیار کرتا ہے۔ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری ہر سانس اُس کی امانت ہے اور ہم اس کے لئے اُس کے محتاج ہیں۔ اُس کے اذن کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے ہیں پھر بھی دنیا داری میں اس قدر جُت جاتے ہیں کہ اُس سے رشتے کی اساس کو بھول جاتے ہیں۔ وہ اپنی تمام تر محبّتوں کو اپنی نعمتوں کی صورت ہمیں بخشتا ہیں اس کے بدلے  ہمیں صرف اُس کا حق ادا  کرنا ہے  جو کہ عبادات کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے جو ہماری جانب سے اُس سے محبت کا اقرار اور جواب ہے بلکہ اپنے دلوں کی تسکین کا باعث بھی بنتا ہے۔لیکن ہم اپنے دنیاوی رشتوں کی طرح اپنے رب سے بھی رشتہ صرف اپنی ضرورتوں کے تحت جوڑتے ہیں یا تو تکالیف میں اُس سے مدد مانگ کر یا پھر اپنی پریشانیوں سے نجات کے لئے۔

جیسا کہ انسان کا ہر رشتہ 'محّبت' کے ڈور سے جُڑا ہوتا ہے اسی طرح انسان  کا اپنے رب سے رشتہ بھی فقط محبت کی ڈور سے جُڑا ہوتا ہے لیکن اُس سے یہ رشتہ وقت اور  ضرورتوں کا محتاج نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ تو مسلسل ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ جیسا کہ محبتوں کو ہمیشہ اظہار کی ضرورت رہتی ہے اسی طرح اپنے رب سے محبت کا اظہار بھی مسلسل ہونا چاہئے ۔ جس طرح ہم اپنوں سے اپنی محبت کا اظہار تحفے تحائف دے کر کرتے ہیں اسی طرح اللہ سے محبت کا اظہار بھی عبادات میں باقاعدگی اور اُس کےاحکامات کی تکمیل کا تحفہ دے کر کرسکتے ہیں۔

آپ اپنوں سے اپنے رشتوں کو کس طرح مضبوط کرتے ہیں؟

ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔


2 تبصرے:

  1. بہت عمدہ۔
    میرے خیال میں یہ سارا معاملہ صرف اضطراب کا ہے جو ہمیں کسی طور چین لینے نہیں دیتا۔ ہم کسی ایک حالت پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ کر سکتے ہی نہیں ہیں۔ یہ حرکیات ہمارے خمیر میں ہے جو ہماری جستجو کو ہر بار ایک قدم آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ ہم صرف اپنی ہی ذات کی تسکین کی تلاش میں سرگرداں، ہر دھوپ اور ہر چھاؤں سے لڑنے نکل پڑتے ہیں۔ اس دوران رشتے بننے اور بگڑنے کا ایک ناتمام سلسلہ ہوتا ہے جو اپنے ارتقائی منازل طے کر رہا ہوتا ہے۔ ہر مقام کے بعد ایک مقام ہوتا ہے۔ لیکن کوئی مقام بھی آخری مقام نہیں کہلا پاتا۔ یہ جستجو ہمیشہ جاری رہتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ!
      جستجو کا جاری رہنا ہی زندگی کی علامت ہے

      حذف کریں