Translate

منگل، 28 اپریل، 2015

دوست حصّہ چہارم: توازن رکھئے

کسی بھی چیز کی زیادتی یا کمی تقصان دہ ہوتی ہے۔  اس لئے ہر  کام میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہے مثلاّ کھانے پینے میں توازن رکھنا صحت کے لئے انتہائی ضروری ہیں ۔اس کےلئےمتوازن غذا کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوتا ہے ورنہ صحت کے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اسی طرح وقت کو گزارنے کے لئے بھی معمولات کا تعین ضروری ہے۔ کھیل کا وقت ، پڑھائی کا وقت ، کام کا وقت یا آرام کا وقت ورنہ زندگی بے ترتیب اور پریشان کن ہو جاتی ہے۔  ہمارے مذہب اسلام نے بھی ہمیں دنیاوی اور دینی کاموں کے درمیان توازن قائم رکھنے کی تلقین کی ہے۔ عبادات کے ساتھ ساتھ دنیا کے کام کاج اور دنیا والوں کے حقوق کا خیال رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔

جس طرح ہم دنیا کے تمام کاموں میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح اپنے رویّوں میں بھی توازن قائم رکھنا بے حد ضروری ہے۔ دوست ضرور بنائے مگر اُن سے میل ملاپ میں توازن نہ کھونے دے۔ ہم اکثر اوقات جانے انجاے میں لوگوں کو اپنی زندگی میں شامل کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر اتنا وقت میسر نہیں آتا کہ سب کے ساتھ رابطے میں رہے جس سے اُن کے دلوں میں خلش پیدا ہوتی ہے اور وہ ہم سے ناراض ہوتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ لوگ دوست بنانے میں بہت زیادہ احتیاط برتتے ہیں یہاں تک کہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں پر بھی بھروسا نہیں کرتے ہیں اور لئے دئے رہتے ہیں جس سے اطراف کے لوگ اُنھیں مغرور سمجھتے ہیں۔ اکثر اوقات ہم لوگوں سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں لیکن جب وہ ہماری توقعات پر پورے نہیں اُترتے تو ہم دُکھی اور پریشان ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ اُن کی غلطی ہے اور اُنہوں نے ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ جب کہ یہ ہماری اپنی غلطی ہوتی ہے کہ ہم اپنی ضرورت اور اپنے احساس کے تحت اُن سے توقعات وابستہ کرتے ہیں یہ سوچے سمجھے بنا ء کے اُن کے لئے یہ سب کرنا ممکن بھی ہے یا نہیں۔

کسی سے بھی محبت کرنے سے پہلے اپنے آپ سے محبت کرنا بےحد ضروری ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان صرف اپنی ضرورتوں اور احساسات کا خیال کرے اور اپنے دوستوں کی مجبوریوں اور احساسات کو سمجھنے کی کوشش نہ کرے۔ ضروری نہیں کہ اگر تو ہم میل ملاپ اور آنا جانا  زیادہ پسند کرتے ہیں تو ہمارے دوست کو بھی وہی پسند ہو۔ ہر ایک انسان کا زندگی گزارنے کا اپنا ایک نظریہ ہوتا ہے اور اچھا اور سچّا دوست وہی ہے جو آپ کے نظریہ سے اتفاق نہ رکھتے ہوئے بھی اُس کا احترام کرے۔  ہمیشہ اپنے دوستوں کے ساتھ مخلص رہنے کے لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ کسی بھی معاملے میں صرف اپنی مرضی نہ  برتی جائے بلکہ اپنے دوست کے احساسات کو سمجھتے ہوئے اس کی مرضی کا بھی اُتنا ہی احترام کی جائے جتنا اپنی مرضی کا کرتے ہیں۔

دوستی میں توازن رکھنا بے حد ضروری ہے ورنہ تو بہت سے اختلافات کا سامنا کرنا پرتا ہے اور ناراضگیوں کو بھُگتنا پرتا ہے۔ آج کا ہر دوسرا فرد "سپیس" وقفہ یا فاصلہ چاہتا ہے۔  لوگوں کی زندگی میں بے جا مداخلت چاہے وہ ہمارے دوست ہو یا رشتہ دار ، اکثر مہنگی پرتی ہے بعض اوقات ہمیں اپنی دوستی سے ہی ہاتھ دھونا پرتا ہے۔ دوستوں سے ہمدردی ضرور رکھئے ، اُن کی ضرورتوں کا خیال رکھے ، اُن کی پریشانیوں سے با خبر رہے اور جہاں تک ممکن ہو اُن کی مدد بھی کریں لیکن جس موڑ پر محسوس کریں کے آپ کی مدد  اُنھیں مداخلت محسوس ہو رہی ہے اور وہ آپ سے ناخوش ہے تو اپنے آپ کو وہی روک دیں ۔ دوستی میں جزبات ضرور کارفرما ہوتے ہیں لیکن   زیادہ جزباتی پن بھی اکثر جُدائی کا باعث بن جاتا ہے۔  دوست کو وقت دیجئے  اس مشکل سے نکلنے کا اور آپ کے پاس لوٹنے کا لیکن اس 'سپیس' کو اتنا  طول بھی نہ دیا جانا چاہئے کہ رابطہ ہی منقطہ ہو جائے اور وہ سمجھے آپ اُ س کی پریشانیوں میں اُسے اکیلا چھوڑ کر رفو چکر ہو گئے ۔ 

آخری بات!
 دوستی ضرور کیجئے اور نبھائے بھی لیکن متوازن طریقے سے۔ نہ خود کسی پر بوجھ بنے اور نہ ہی کسی کو اپنے آپ پر بوجھ ڈالنے دیں۔  زندگی میں ہمارے تعلقات تو بہت سے لوگوں سے ہوتے ہیں اور کچھ بہت قریب بھی آجاتے ہیں لیکن ہمارے سب سے قریب ہمارے اپنے گھر والے ہوتے ہیں اس لئے لوگوں سے دوستی ضرور نبھائے مگر خیال رکھئے کہ اس کی خاطر آپ کے اپنے آپ سے دور نہ ہوجائے اور ساتھ ساتھ آپ کو اپنے لئے بھی وقت میسر ہو جس میں آپ وہ کام کر سکے جو آپ کے دل کو بھاتے ہو اور جس سے آپ سکون حاصل کر سکتے ہوں چاہے پھر وہ کتابیں پڑھنا ہو، کھیل ہو، تفریحی مقامات کی سیر ہو یا پھر کوئی رضاکارانہ کام ہو۔ زندگی کے ہر میدان میں توازن رکھنا نہایت ضروری ہے۔
 ثمینہ طارق
مندرجہ ذیل حصّؤں کا مطالعہ  نیچے دئے گئے لنکس پر کر سکتے ہیں۔
جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

غزل: تجھ سنگ بیتا ہر لمحہ حاصلِ سفر لگتا ہے

آج پرانی ای میلز چیک کرتے ہوئے ایک فائل ہاتھ لگی جس کو میں کمپوٹر کی خرابی کی وجہ سے ای میل میں سیو کر کے بھول چکی تھی۔ اس میں بہت سی نظمیں اور غزلیں جو اُن دنوں لکھنے کا شوق سوار تھا وہ رومن میں لکھی ہوئی تھی۔ اُن میں سے ایک غزل اُردو میں تحریر کرکے شئیر کر رہی ہوں جو میں جانتی ہوں نہ وزن میں ہے نہ ہی بحر میں درست ہوگی۔ مگر اگلے وقتوں کی ایک کوشش آپ سب کی نظر۔

تجھ سنگ بیتا ہر لمحہ حاصلِ سفر لگتا ہے
 باقی کا سارا سفر تنہا ، بے خبر لگتا ہے

اِک پل کو تیری دید کی آرزو تھی ہمیں
 وہی پل کیوں بے اعتبار اس قدر لگتا ہے

تیری یادوں کا سایہ ساتھ رہے گا ہمیشہ
 یہ سایہ،اپنی تنہائیوں کا ہمسفر لگتا ہے

تیری بولتی نگاہوں کو جس دم دیکھاتھا
 وہی منظر ہر منظر سے اب معتبر لگتا ہے

تپتے صحرا کی رہگزر ٹھنڈی چھاؤں لگےہے
ساتھ تیرا مجھے اب، سایہ دار شجر لگتا ہے

شمعِ حیات کی لوح چاہے تو بُجھ جائے اب
 مجھ کو تو اپنا یہ سفر اب سفل لگتا ہے


ثمینہ طارق