Translate

منگل، 30 دسمبر، 2014

دوست حصّہ سوئم : مخلص دوست بنئے

محبت کی اس مہک سے فضاء کو معطر کرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اپنی ذات سے باہر نکل کر بھی دوستی کی جائے۔ اپنے آپ سے محبت اور دوستی کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اپنی ذات  میں قید ہوجائے۔ اپنے آپ پر اعتماد قائم کرتے ہوئے جب ہم اپنی خامیوں اور خوبیوں کا ادراک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اپنے لئے دوست منتخب کرنا آسان ہوتا ہے اور جب یہ دوستی پھول بن کر کھلتی ہے تو اس کی خوشبو سے فضاء معطر ہو جاتی ہے اور اپنے اطراف کے تمام لوگوں کودوستی کے رشتے میں مقید کر لیتی ہے ۔

دوست بنانے کا عمل تو بہت چھوٹی سی عمر سے ہی شروع ہو جاتا ہے جیسے کہ پہلے تحریر کر چکی ہوں کہ انسان کا پہلا دوست اُس کے گھر کا ہی کوئی فرد ہوتا ہے۔ ماں، باپ، بہن  بھائی یا پھر کوئی کزن وغیرہ۔ لیکن جیسے ہی بچّہ اسکول میں داخل ہوتا ہے وہ بہت سے دوست بناتا ہے لیکن اُس وقت دوستی کے اس عمل پر نہ ہی اُس کا اختیار ہوتا ہے اور نہ ہی اُسے اس سے کی کوئی غرض وابستہ ہوتی ہے۔ یہ ایک غیر اختیاری عمل ہوتا ہے جو کہ بس عمل پزیر ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ دور معصومیت اور شفافیت لئے ہوئے ایک بے غرض دوستی قائم کرتا ہے جو عموماً ً وقتی ہوتی ہے لیکن اکژلمبی اور پائدار دوستی کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے جس کا احساس ہمیں کافی عرصے بعد ہوتا ہے۔

پھر جیسے جیسے عمر کے گوشوارے میں برس آگے بڑھتےہیں یا کم ہوتے ہیں ہمارے لئے دوستوں کا انتخاب اکژ ہمارے والدین یا بزرگ کرتے ہیں۔ "اس سے دوستی رکھو یہ اچھا ہے۔ اس سے بات نہ کرو ، اُس کے ساتھ نہ جاؤ وہ اچھا بچّہ نہیں ہے۔" ایسے کئی جملے ہماری سماعت سے نہ صرف ٹکراتے ہیں بلکہ ہم ان پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں یہی تربیت دی جاتی ہے کہ بڑے ہمارا بھلا ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ ایسے وقت میں دوستی میں مفادات شامل ہونا شروع ہوجاتے ہیں  اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اُن لوگوں کے قریب ہوتے جاتے ہیں جو ہمیں کسی نہ کسی طرح مددگار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بچّے کو مجبور کی جاتا ہے کہ اپنے ایک ایسے ہم جماعت سے دوستی رکھی جائے جو گھر سے قریب رہتا ہے تاکہ اسکول کی چھُٹی کرنے پر اُس سے گھر کا کام لیا جاسکے پھر چاہے اُس کا مزاج ہم سے ملتا ہو یا نہ ملتا ہو ، ہم میں اور اُس میں چاہے کوئی بھی قدر مشترک نہ ہو اور بے شک ہمیں اُس سے بات کرنے میں بھی کوفت محسوس ہوتی ہو لیکن اُس سے دوستی بنائے رکھنے پر مجبور ہونا ہمارے لئے اہم قرار پاتا ہے اور یہیں سے ایک بچّہ دوستی میں مفاد تلاش کرنے کی ابتداء کرتا ہے جو کہ آئندہ زندگی میں یا تو شعور کی منزل پر پہنچ کر تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے یا پھر  اُسے مفاد پرست بنانےمیں بنیادی ستون بن جاتا ہے۔

عمر کا ایک دور ایسا بھی آتا ہے جب ہم دوستی صرف اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور اس میں صرف اور صرف ہمارے جزبات کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اپنے ساتھ چلنے والا ہر شخص مخلص محسوس ہوتا ہے اور ہم اُس پر اپنی محبتوں کو نچھاور کرتے جاتے ہیں۔ اس دور میں ہم اپنے دوستوں کو اپنا بہترین رازداں سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو ان پر اس طرح منکشف کر دیتے ہیں کہ وہ جب کبھی چاہے ہمارے راز کو ہتھیار بنا کر ہم سے اپنا کوئی بھی مفاد حاصل کر لیتے ہیں جس کے باعث لوگوں پر اور دوستی پر سے ہمارا اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر تو ہمیں اس دور میں واقع کوئی مخلص دوست میسر آجائے تو پھر ہم سا خوش قسمت کوئی نہیں ہو سکتا ہے اور ایسی دوستی پھر تاحیات قائم رہتی ہیں اور وفا، محبت اور قدردانی کے ایسی مثال قائم ہوتی ہے کہ کوئی اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتا ہے۔

دوستی کے یہ تمام ادوار زیادہ تر ہماری طالبِ علمی کے دور کےہوتے ہیں اور اس دور میں یا تو ہم کچھ ایسے دوست حاصل کر لیتے ہیں جو ہماری پیشہ ورانہ زندگی میں بھی ہمارے ساتھی ہوتے ہیں اور ہم اُن پر مکمل اعتبار کر سکتے ہیں یا پھر دوستی سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے اور پھر ہم دوست بنانے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ جیسے ہی ہم پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہوتے ہیں ہمارے اردگرد بہت سے انجان لوگوں کا جھمگٹا سا بن جاتا ہے اور ہم اُن میں اپنے ہم مزاج لوگوں سے قریب ہوتے جاتے ہیں۔ اکثر ہم اپنے روز مرّہ کے ملنے جلنے والے لوگوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتے ہیں اور اُن سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں یہ جانے بغیر کے کیا اُن کی زندگی میں بھی ہماری وہی اہمیت یا مقام ہے جو ہمارے دل یا زندگی میں اُن کے لئے ہے یا پھر ہم اُن کے لئے فقط ساتھ کام  کرنے والے کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے وہ ہم سے مخلص ہے اور اُس کا رویّہ ہمارے لئے محبت لئے ہوئے ہیں۔ ایسے وقت میں نہ صرف ہم اپنی ذات کو نقصان پہنچاتے ہیں اور تکلیف اور درد سے گزرتے ہیں بلکہ اُس مخلص شخص پر شک کر کے اس کی حیات کو بھی پریشان کُن بنا دیتے ہیں۔
غرض ہم اپنی زندگی میں بے شمار دوست بناتے ہیں چاہے پھر وہ ہماری کسی مجبوری یا مفاد کے باعث بنے ہو یا پھر ہماری محبت اور ایمانداری سے دوستی ہوئی ہو۔ چاہے وہ ہماری زندگی میں کچھ روز، ماہ یا چند سال کے لئے ٹہرے ہو یا پھر مسلسل ہماری حیات کا حصّہ بن چکے ہو۔ چاہے وہ ہماری طالبِ علمی کے دور سے تعلق رکھتے ہو یا پھر پیشہ ورانہ زندگی سے۔چاہے وہ ہمارے لئے صرف ایک دوست ہو یا پھر ہمارے عزیز ترین رشتوں کی طرح ہمارے لئےاہم ہو یعنی ہمارے بھائی ،بہن یا اولاد  کی طرح ہمیں عزیز ہو۔ وہ ہماری زندگی سے اس قدر قریب ہو کہ اُن کی زندگی میں آنا والا ہر دکھ اور سکھ ہمارے لئے اپنے دکھ اور سکھ کے برابر ہو یا پھر وہ اُن لوگوں میں شامل ہو جن کی زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہمیں کوئی غرض نہ ہو۔
اگر تو ہم اپنے آپ کے دوست ہے تو پھر ان دوستوں کا زندگی میں آنا اور جانا  ہماری زندگیوں کو کبھی بھی اسطرح متاثر نہ کر سکے گا کہ ہم اپنے آپ کو تکلیف اور دُکھ میں ڈال دے بلکہ ہم اپنی ذات کو ہمیشہ ہر قدم پر سب سے زیادہ اہمیت دے گے اور اس بات کا یقین رکھے گے کہ لوگوں کا ہماری زندگی میں آنا اور جانا کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہوتا ہے اور ان کے آنے اور جانے کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اس لئے اسے کھُلے دل سے قبول کرنا چاہے اور اپنی ذات کی نفی کر کے اُن کےبچھڑنے کے دکھ میں  مبتلا نہ ہونا چاہے۔ اگر تو ہم خوش ہیں تو ہمارے آس پاس کا سارا ماحول خوشگوار ہوگا اور ہم اپنی خوشی سے اپنے اطراف میں رہنے والوں کے دلوں کو بھی خوشی سے منور کر سکے گے۔
کوئی بھی انسان کامل نہیں ہو سکتا ہے اس  لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ سے دوستی کرتے ہوئے لوگوں سے دوستی کے بندھن میں بندھا جائے اور کسی سے  ایسی توقعات وابستہ نہ کی جائے جس کا پورا نہ ہونے کی صورت میں ہم اپنے آپ کو ہی کھو بیٹھے۔کوشش کی جائے کے اپنی جانب سے لوگوں کو ایک ایسا دوست میسر کیا جائے جس کی ہمیں خود اپنے لئے تلاش یا ضرورت ہے۔جو ہمارے لئے اہم ہو۔ اگر تو خود اپنی ذات کو مفادات سے بالا تر کر کے دوستی کے رشتے میں باندھا جائے تو یقیناً ہمیں بھی ایسے ہی دوست ضرور میسر آئے گے جو مفادات سے بالاتر ہوکر ہم سے دوستی نبھائے گے۔

ثمینہ طارق

 (جاری ہے)

حصّہ اوّل
حصّہ دوئم
حصّہ چہارم



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

جمعرات، 11 دسمبر، 2014

یادیں ـــــ میرے بابا کے نام


مجھے بلاگ لکھتے تقریباً دیڑھ سال ہونے آئے لیکن شائد یہ میرا پہلا بلاگ ہے جو میں کسی کاپی پیسٹ کے بغیر دائریکٹ بلاگ پر لکھ رہی ہوں اور اپنے پڑھنے والوں سے مخاطب ہو کر لکھ رہی ہوں لیکن پھر بھی اسے آج کی تاریخ میں پوسٹ نہ کر سکوں گی۔ کیونکہ اسے لکھنے کا وقت اُس وقت میسر آیا جب کہ آج کا دن بس گزرا جاتا ہے۔ آج یعنی ۱۰ دسمبر ۲۰۱۴ کو میرے والد کی ۲۶ ویں برسی ہے۔ سارا دن اس قدر مصروفیت میں گزرا کہ لیپ ٹاپ کھولنے کا وقت ہی نہ مل سکا۔ وقت لگتا ہے جیسے پر لگا کر اُڑ جاتا ہے ہم کتنی ہی کوشش کر لے اسے ہاتھ میں نہیں تھام سکتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بھول بھی جاتے ہیں لیکن والدین کبھی نہیں بھولتے۔ جتنی بھی مصروفیت رہی لمحہ بھر بھی اُن کا خیال دل سے جُدا نہ ہوا اور مسلسل اُنہیں یاد کرتی رہی بہت کچھ یاد آیا کچھ یادیں میرے لفظوں کو پڑھنے والوں کی نظر۔
بچپن ہی سے والدہ کے زیادہ قریب رہی لیکن پہلی اولاد ہونے کے ناطے والد کا لاڈ اور پیار بھی اسقدر ملا کہ ممکن ہی نہیں کی اُن لمحات کو بھولا جا سکے۔اپنی حیشیت کے مطابق اُنہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مجھے کبھی کسی کمی کا سامنا نہ کرنا پرے۔ کوشش کرتے کے نہ صرف میری بلکہ ہم تینوں بھائی بہنوں کی خواہشات کو پورا کرتے اس کے لئے  مسلسل اوور ٹائم کرتے لیکن جب رات گئے گھر آتے تو ہماری چھوٹی چھوٹی فرمائشوں کو کبھی نہ بھولتے اور جس نے جو مانگا ہوتا وہ ضرور لاتے۔پھر وہ ہمارا پسندیدہ بسکٹ ہو یا ٹافی یا کھیل کے لئے کوئی بال ہو یا لٹو۔
کھیل سے یاد آیا وہ ہمارے ساتھ ہر کھیل میں شریک ہوتے۔ چھوٹے سے اپارٹمنٹ کا چھوٹا سا برامدہ ہمارے کھیل کا میدان ہوتا اور وہاں ہم ہر قسم کے کھیل کھیلتے اور اکشر تو سارا گھر ہی کھیل کا میدان بنا ہوتا جس میں ماں بابا دونوں شامل ہوتے۔ کرکٹ، بیڈمنٹن، لٹو چلانا،  رسی کودنا، چھپن چھپائی ہمارے ہفتہ وار کھیل میں شامل تھے جو چھُٹی کے دن کھیلے جاتے تھے جبکہ لُڈو، چوڑ پولیس اور نام چیز جگہ ہمارے معمول کے کھیل ہوا کرتے تھے جو تقریباً ہر روز رات کو کھانا کھانے کے بعد کھیلے جاتے تھے۔ ایک اور کھیل جو مجھے بہت خوب یاد ہے جب میں اور میری بہن بہت چھوٹے ہوا کرتے تھے تو وہ دونوں کو ایک ساتھ اپنے کندھوں پر بٹھا کر گھومتے تھے تاکہ ہم امّی کو روٹی بناتے ہوئے تنگ نہ کریں اور وہ جلد فارغ ہو جائے۔ اس وقت راشن میں گھی اور تیل ملا کرتا تھا اور بہت لمبی لائنوں میں کھڑا رہنا پرتا تھا۔ ایک دن ایسے ہی کسی کو ڈبہ کندھے پر اُٹھائے دیکھا تو پھر جب بھی بابا ہم میں سے کسی کو کندھے پر بٹھاتے تو میں فوراً شور مچاتی گھی لے لو بھائی گھی لے لو۔ وہ شانا نہیں بھولتا ۔ اُٗس کا لمس نہیں بھولتا ۔ والدین کا پیار کبھی نہیں بھلایا جا سکتا ممکن ہی نہیں۔
کتابیں پڑھنے کا شوق چڑھا تو کتابیں خریدنے کی تو سکت نہ تھی لیکن پھر بھی جب اتوار کو اوور ٹائم کے لئے جاتے تو پُرانی کتابوں کی نہ جانے کونسی مارکیٹ سے ڈھیر ساری کتابیں جن میں نونہال، بچّوں کی دنیا اور تعلیم و تربیت کے علاوہ میگزین بھی ہوا کرتے تھے جنہیں میں اگلے اتوار تک ختم کرنے کی کوشش کرتی۔ پھر اپنے دوست کے بک شاپ سے رات کو اشتیاق احمد کا ناول لاتے جو ہر ویک اینڈ پر آتا اور صبح سویرے اُنہیں واپس کرنا ہوتا اور میں اور اُن کے دوست کی بیٹی جو میری بہت ہی گہری دوست تھی، مل کر رات بھر میں پڑھتے۔ روزانہ رات کو ریڈیو پر چترہال لگا کر بابا کے ساتھ بیٹھ کر کھیلتے ہوئے گانے سننا اور پھر جب ریڈیو گرام آیا تو ریکارڈ لگا کر اس کو سوئی کے نیچے مسلسل چلتے ہوئے حیرت سے تکتے ہوئے اپنی بے سُری آوازوں میں گانا بھی ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
کبھی کھانے کے معاملے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی امّی کو وہ ہر وہ چیز شوق سے کھاتے جو امّی پکاتی۔یہی وجہ تھی کہ ہم تینوں بھائی بہنوں کو بھی سب کچھ کھانے کی عادت پر گئی اور کوئی بھی چیز کھانے میں کوئی پریشانی نہ ہوئی دال، سبزی ہو یا گوشت۔ ہر ممکن کوشش کرتے کے کم از کم اتوار کا ناشتہ سب کا اپنی پسند کا ہو۔ میرےاور بھائی کے لئے خاص کر کے انڈے اور ڈبل روٹی آتے جب کہ بہن کو مکھن اور سلائس پسند تھا تو اُس کے مکھن سلائس ضرور آتا اور ماں بابا وہی گھر کی روٹی اور چائی کا ناشتہ کرتے۔ اُس وقت تو شائد ہمیں کبھی اس کا احساس نہ ہوا لیکن اب جیسے جیسے یاد آتا ہےتو محسوس ہوتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں پھر وہ چاہے بابا کا مسلسل اوور ٹائم کرنا ہو یا امّی کا سارا دن مشین چلانا، کپڑے سینا۔
کیا کیا یاد کیا جائے۔ بیٹیاں تو یوں بھی بہت جلد جدا ہو جاتی ہے والدین سے تو ہم بھی ہوئے اور اپنی رخصتی پر بابا کی آنکھوں کے آنسو تاحیات ساتھ رہے گے۔جب  اپنی بیٹی کو رخصت کر رہی تھی اور اپنے شوہر کی آنکھوں میں آئے آنسو دیکھے تو ایک چہرہ میری نگاہوں میں گھوم گیا اور وہ چہرہ کوئی اور نہیں بابا کا تھا۔ بیشک وہ دینا میں موجود نہیں مگر ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں۔ بیٹی کو جنم دیا تو بہت خوشی تھی ۔ پہلی اولاد تھی لیکن مجھ سے زیادہ خوشی بابا کو تھی اور وہ شائد اُسے دیکھنے کے لئے ہی زندہ تھے کیونکہ ڈاکٹر اُن کی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے۔ اُنہیں کینسر تھا۔ میری بیٹی کو سارا وقت اپنے پاس لٹائے رکھتے ۔ بول نہیں سکتے تھے لیکن اُن کی آنکھوں سے اُن کی خوشی جھلکتی تھی اور جب بیٹی ۲۵ دن کی تھی تو وہ ہمیں ہمیشہ کےلئے چھوڑ کر چلے گئے ۔ مگر ان ۲۵ دنوں میں لمحہ بھر بھی اُسے اپنے سے جُدا نہ ہونے دیا۔

آج اُن کے انتقال کو ۲۶ برس گزر چکے ہیں ۔ یادیں تو کبھی ختم نہ ہوگی۔ وقت گزر جاتا ہے اور زندگی بھی۔ شائد کسی روز ہم بھی ایسے ہی گزر جائے گے۔مگر یادیں رہ جائے گی۔ ہمیشہ کے لئے۔ دو سال قبل لکھی ایک نظم بابا کے نام۔
یادیں
دسمبر جب بھی آتا ہے
بہت تڑپاتا ہے
مجھ کو میرا بچپن
بہت یاد آتا ہے
جب کبھی مجھ کو
 میرا بچپن یاد آتا ہے
 جی بھر کے رونے کو پھر
 میرا دل چاہتا ہے
 جس کی چھاؤں میں
 بسر ہوئی زندگی میری
 اُس درخت کا مضبوط تنّا
 بہت یاد آتا ہے
 جب بھی مجھ کو
 میرا بچپن یاد آتا ہے
 مجھ کو میرے بابا کا
 مضبوط شانا
 بہت یاد آتا ہے
 دسمبر جب بھی آتا ہے
 بہت تڑپاتا ہے



دعا:
رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا ۾ (بنی اسرائیل۔۲۴)
ترجمہ: اے میرے پروردگار! جس طرح میرے والدین نے مجھے چھوٹے سے کو پالا ہے اور (میرے حال پر رحم کرتے رہے ہیں) اس طرح تو بھی ان پر (اپنا) رحم کر۔ آمین!
بلاگ پڑھنے والے تمام لوگوں سے  اپنےوالدین کی مغفرت کے لئے دعاؤں کی طلبگار

ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

پیر، 8 دسمبر، 2014

دوست حصّہ دوئم : اپنے آپ سے دوستی و محبت




سب سے پہلے اپنے آپ سے دوستی کیجئے کیونکہ اپنے آپ سے دوستی نہ صرف  آپ کے دل میں زندگی سے محبت  پیدا کرتی ہے بلکہ آپ کو اپنی زندگی کا مقصد بھی فراہم کرتی ہیں اور اپنے آپ پر اعتماد بھی قائم ہوتا ہے۔  شک کسی سے بھی نفرت کی پہلی وجہ ہے جو دکھ کا باعث بنتا ہے جب کہ اعتماد محبت کی طرف پہلا قدم ہے جو کسی کو بھی خوشی کشیدنے میں مدد کرتا ہے۔

۱۹۵۶ میں ایک ماہر نفسیات اور سماجی مفکر ایرک فروم  نے اپنے آپ سے محبت کے مفہوم کو اس طرح واضح کیا کہ " اپنے آپ سے محبت کرنا مغرور، متکبر یا انا پرست ہونے سے بلکل مختلف ہے۔ اپنے آپ سے محبت کرنے کے معنی ہیں کہ انسان جسمانی اور زہنی دونوں لحاظ سےاپنا خیال رکھے، اپنی ذمّہ داریوں سے بہتر انداز میں عہدہ برا ہو، اپنی عزت آپ کرنا سیکھے، اپنے آپ کو جانے مثلاً اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کو سچائی اور ایمانداری سے قبول کرے۔ ایک انسان کا کسی دوسرے انسان سے محبت کرنے کے لئے پہلے اپنے آپ سےاُسی شدت اور انداز میں  محبت کرنا نہایت ضروری ہے۔"

اپنے آپ سے دوستی کرنے کے معنی ہے اپنے آپ سے محبت کرنا۔ اپنے آپ سے محبت کرنے کے معنی ہرگز یہ نہیں کہ انسان صرف اپنی ذات سے متعلق مفاد سے وابستہ رہے۔ اپنے آپ سے دوستی کے معنی ہے کہ اپنے جسم، جان ، ضروریات اور صحت کا خاص خیال رکھا جائے۔ اگر تو ہم اس قابل ہی نہ رہے کہ اپنی ضروریات کو وقت پر پورا کر سکے یا اپنی صحت کا خیال نہ رکھے اور ہمیشہ بیمار رہے ، یا اپنی جسمانی ضروریات کو پسِ پُشت ڈال کر اپنی صحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دنیا کے کاموں میں مصروف رہے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنے تمام کاموں کو بخوبی نباہ پائے گے کیونکہ اگر تو اپنی جسمانی ضروریات کا خیال نہ رکھا جائے تو ہماری صحت خراب ہو گی اور ہم اکثر و بیشتر بیمار رہے گے جس کے باعث ہم کسی طور اپنی معاشرتی ذمّہ داریوں کو بہتر ین انداز میں نبھانے کے قابل نہ ہوپائے گے۔

اگر تو ہم اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام نہ دے پائے تو پھر ہمارا اپنے آپ پر سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے اور ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہم اس قابل نہیں ہے کہ کسی کے کام آسکے یا کسی کے لئے کچھ کر سکے۔ اس طرح ہم  اپنے اندر ایک خلا پیدا کرتے چلے جاتے ہیں اور اُس کے اندر مسلسل اُترے چلے جاتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو کوسنے لگتے ہیں اور خود اپنی ذات سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اپنی عزت اپنی ہی نگاہوں میں گنوا بیٹھتے ہیں۔ ایک بار اگر نفرت کا بیج بو دیا جائے تو پھر اسے تناور درخت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے اور ہم نا محسوس طریقے سے اپنی ذات سے بددل ہو کر اپنے  ہی خلاف  اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

جب انسان اپنے آپ سے نفرت میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پھر اُسے اپنےاندر چھپی اچھائیاں بھی نظر نہیں آتی ہیں اور نہ ہی وہ اپنی خامیوں کو پہچان سکتا ہے۔ اُس وقت وہ صرف اس زعم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ میں جو کر رہا ہوں وہی دُرست ہے اور اس طرح وہ  نہ صرف بہت سے غلط فیصلے کر بیٹھتا ہے بلکہ بہت سے لوگوں کے دل تور کر اُنہیں ناراض بھی کر دیتا ہے۔ جب تک ہم اپنی خوبیوں سے واقف نہ ہو ہم نہ ہی اپنے لئے کوئی مفید کام سر انجام دے سکتے ہیں اور نہ ہی اپنوں اور اپنے اردگرد بسنے والوں کے لئے کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ جب کبھی کچھ کرنے کا موقع آئے تو ہم یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ ہم میں یہ صلاحیت نہیں ہے اور ہم اس کام کو سر انجام نہ دے سکے گے۔ اسی طرح تو اگر ہم اپنی خامیوں سے آشنا نہ ہوتو پھر اپنے اردگرد انجانے میں کئی دشمن پال لیتے ہیں کیونکہ نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے لوگوں کا دل توڑ کر اُنہیں تکلیف پہنچا دیتے ہیں اور بہت سی ناراضگیاں مول لیتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اپنی خوبیوں اور خامیوں کا سہی اور درست تجزیہ کیا جائے اور انہیں پوری ایمانداری سے قبول کر کے استعمال میں لایا جائے یا دور کیا جائے۔

اپنے آپ سے محبت کرنا ہرگز خود پسندی  نہیں ہیں ۔خود پسند لوگ مغرور و متکبر ہوتے ہیں اور اُنہیں اپنے سوائے دنیا میں کوئی نظر نہیں آتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی درست ہیں اور باقی سب غلط ہیں۔  کچھ لوگ اپنے آپ سے محبت کرنے والوں کو انا پرست کے ذمرے میں بھی ڈال دیتے ہیں جس کی اہم وجہ یہ ہوتی ہیں کہ اپنی ذات سے محبت کرنے والے لوگ اپنا خیال رکھتے ہیں اور کسی بھی کام  کے کرنے سے پہلے یا کسی محفل میں شامل ہونے یا کسی بھی قسم کی تفریح  میں شامل ہونے سے پہلے  اپنی خوبی اور خامی کا اندازہ لگاتے ہیں اور یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ اُن سے یہ کام ممکن ہوگا یا نہیں یا پھر اپنے وقت کا احساس رکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس محفل میں شریک ہونا  یا تفریح کے لئے جانے سے اُن کے دوسرے کام نظر انداز  تو نہیں ہو رہے ہیں ۔ وہ لوگ اپنی ترجیحات کا بلخصوص خیال رکھتے ہیں جس کے باعث لوگ اُنہیں اکثر مغرور و متکبر اور انا پرست خیال کرتے ہیں کہ یہ لوگ میل ملاپ نہیں پسند کرتے ہیں لیکن ایسے لوگ ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں جو اپنی زندگی کے کسی بھی فیصلےکو کرنے سے پہلے اپنے بارے میں ضرور سوچے کیونکہ اگر تو ہم اپنے آپ کو خوش نہیں رکھ سکتے ہیں تو پھر کسی کو بھی کوئی خوشی نہیں دے سکتے ہیں ۔ اگر انسان کا اپنا دل ہی مطمئن نہ ہو تو پھر وہ کسی اور کو پرسکون کیسے رکھ سکتا ہے۔

اپنے آپ سے دوستی کرنے کے لئے اپنا خیال رکھے جس سے آپ میں خود اعتمادی  پیدا ہوگی اور آپ اپنی تمام تر معاشرتی ذمّہ داریوں کو بخوبی سرانجام دے پائے گے جس کے باعث لوگوں سے تعلقات میں بہتری آئے گی اور آپ معاشرے کے ایک فعال کردار کی حیثیت سے پہچانے جائے گے۔اپنے آپ پر اعتماد رکھنے والے لوگ شک و شبے سے بالاتر ہوکر نہ صرف فیصلے کرتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد بھی اعتماد کی ایسی لہر پھیلا دیتے ہیں جس سے ساری فضاء پُر اعتماد ہو جاتی ہیں۔ یہ اعتماد ہی ہے جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر کے ایک دوسرے سے محبت کے راستے کو کھولتا ہے اور نفرتوں کو ختم کرنے میں  مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ نفرتوں سے صرف دکھ ہی دکھ ہاتھ آتے ہیں جبکہ محبت کرنے والے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں سےخوشی کشیدنے کے قابل ہوتے ہیں اور ان خوشیوں کو دوسروں میں بانٹنے سے اس دائرے کو پھیلانے میں مدد ملتی ہیں۔

ہر شخص محبت کا دعویٰ تو ضرور کرتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ کسی سے بھی محبت کرنے سے پہلے اپنے آپ سے محبت کرنا کتنا اہم ہے۔ اپنے آپ سے محبت کیجئے ، اپنا خیال رکھئے ، اپنی خوبیوں اور خامیوں کو پہچانئے ، اپنے آپ پر اعتماد کیجئے پھر دیکھئے کہ یہ محبت کی مہک آپ کے اردگرد کی فضاء کو کیسے معطر کرتی ہیں۔
(جاری ہے) ثمینہ طارق

حصّہ اوّل
حصّہ سوئم
حصّہ چہارم


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔