Translate

منگل، 30 دسمبر، 2014

دوست حصّہ سوئم : مخلص دوست بنئے

محبت کی اس مہک سے فضاء کو معطر کرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اپنی ذات سے باہر نکل کر بھی دوستی کی جائے۔ اپنے آپ سے محبت اور دوستی کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اپنی ذات  میں قید ہوجائے۔ اپنے آپ پر اعتماد قائم کرتے ہوئے جب ہم اپنی خامیوں اور خوبیوں کا ادراک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اپنے لئے دوست منتخب کرنا آسان ہوتا ہے اور جب یہ دوستی پھول بن کر کھلتی ہے تو اس کی خوشبو سے فضاء معطر ہو جاتی ہے اور اپنے اطراف کے تمام لوگوں کودوستی کے رشتے میں مقید کر لیتی ہے ۔

دوست بنانے کا عمل تو بہت چھوٹی سی عمر سے ہی شروع ہو جاتا ہے جیسے کہ پہلے تحریر کر چکی ہوں کہ انسان کا پہلا دوست اُس کے گھر کا ہی کوئی فرد ہوتا ہے۔ ماں، باپ، بہن  بھائی یا پھر کوئی کزن وغیرہ۔ لیکن جیسے ہی بچّہ اسکول میں داخل ہوتا ہے وہ بہت سے دوست بناتا ہے لیکن اُس وقت دوستی کے اس عمل پر نہ ہی اُس کا اختیار ہوتا ہے اور نہ ہی اُسے اس سے کی کوئی غرض وابستہ ہوتی ہے۔ یہ ایک غیر اختیاری عمل ہوتا ہے جو کہ بس عمل پزیر ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ دور معصومیت اور شفافیت لئے ہوئے ایک بے غرض دوستی قائم کرتا ہے جو عموماً ً وقتی ہوتی ہے لیکن اکژلمبی اور پائدار دوستی کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے جس کا احساس ہمیں کافی عرصے بعد ہوتا ہے۔

پھر جیسے جیسے عمر کے گوشوارے میں برس آگے بڑھتےہیں یا کم ہوتے ہیں ہمارے لئے دوستوں کا انتخاب اکژ ہمارے والدین یا بزرگ کرتے ہیں۔ "اس سے دوستی رکھو یہ اچھا ہے۔ اس سے بات نہ کرو ، اُس کے ساتھ نہ جاؤ وہ اچھا بچّہ نہیں ہے۔" ایسے کئی جملے ہماری سماعت سے نہ صرف ٹکراتے ہیں بلکہ ہم ان پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں یہی تربیت دی جاتی ہے کہ بڑے ہمارا بھلا ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ ایسے وقت میں دوستی میں مفادات شامل ہونا شروع ہوجاتے ہیں  اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اُن لوگوں کے قریب ہوتے جاتے ہیں جو ہمیں کسی نہ کسی طرح مددگار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بچّے کو مجبور کی جاتا ہے کہ اپنے ایک ایسے ہم جماعت سے دوستی رکھی جائے جو گھر سے قریب رہتا ہے تاکہ اسکول کی چھُٹی کرنے پر اُس سے گھر کا کام لیا جاسکے پھر چاہے اُس کا مزاج ہم سے ملتا ہو یا نہ ملتا ہو ، ہم میں اور اُس میں چاہے کوئی بھی قدر مشترک نہ ہو اور بے شک ہمیں اُس سے بات کرنے میں بھی کوفت محسوس ہوتی ہو لیکن اُس سے دوستی بنائے رکھنے پر مجبور ہونا ہمارے لئے اہم قرار پاتا ہے اور یہیں سے ایک بچّہ دوستی میں مفاد تلاش کرنے کی ابتداء کرتا ہے جو کہ آئندہ زندگی میں یا تو شعور کی منزل پر پہنچ کر تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے یا پھر  اُسے مفاد پرست بنانےمیں بنیادی ستون بن جاتا ہے۔

عمر کا ایک دور ایسا بھی آتا ہے جب ہم دوستی صرف اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور اس میں صرف اور صرف ہمارے جزبات کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اپنے ساتھ چلنے والا ہر شخص مخلص محسوس ہوتا ہے اور ہم اُس پر اپنی محبتوں کو نچھاور کرتے جاتے ہیں۔ اس دور میں ہم اپنے دوستوں کو اپنا بہترین رازداں سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو ان پر اس طرح منکشف کر دیتے ہیں کہ وہ جب کبھی چاہے ہمارے راز کو ہتھیار بنا کر ہم سے اپنا کوئی بھی مفاد حاصل کر لیتے ہیں جس کے باعث لوگوں پر اور دوستی پر سے ہمارا اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر تو ہمیں اس دور میں واقع کوئی مخلص دوست میسر آجائے تو پھر ہم سا خوش قسمت کوئی نہیں ہو سکتا ہے اور ایسی دوستی پھر تاحیات قائم رہتی ہیں اور وفا، محبت اور قدردانی کے ایسی مثال قائم ہوتی ہے کہ کوئی اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتا ہے۔

دوستی کے یہ تمام ادوار زیادہ تر ہماری طالبِ علمی کے دور کےہوتے ہیں اور اس دور میں یا تو ہم کچھ ایسے دوست حاصل کر لیتے ہیں جو ہماری پیشہ ورانہ زندگی میں بھی ہمارے ساتھی ہوتے ہیں اور ہم اُن پر مکمل اعتبار کر سکتے ہیں یا پھر دوستی سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے اور پھر ہم دوست بنانے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ جیسے ہی ہم پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہوتے ہیں ہمارے اردگرد بہت سے انجان لوگوں کا جھمگٹا سا بن جاتا ہے اور ہم اُن میں اپنے ہم مزاج لوگوں سے قریب ہوتے جاتے ہیں۔ اکثر ہم اپنے روز مرّہ کے ملنے جلنے والے لوگوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتے ہیں اور اُن سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں یہ جانے بغیر کے کیا اُن کی زندگی میں بھی ہماری وہی اہمیت یا مقام ہے جو ہمارے دل یا زندگی میں اُن کے لئے ہے یا پھر ہم اُن کے لئے فقط ساتھ کام  کرنے والے کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے وہ ہم سے مخلص ہے اور اُس کا رویّہ ہمارے لئے محبت لئے ہوئے ہیں۔ ایسے وقت میں نہ صرف ہم اپنی ذات کو نقصان پہنچاتے ہیں اور تکلیف اور درد سے گزرتے ہیں بلکہ اُس مخلص شخص پر شک کر کے اس کی حیات کو بھی پریشان کُن بنا دیتے ہیں۔
غرض ہم اپنی زندگی میں بے شمار دوست بناتے ہیں چاہے پھر وہ ہماری کسی مجبوری یا مفاد کے باعث بنے ہو یا پھر ہماری محبت اور ایمانداری سے دوستی ہوئی ہو۔ چاہے وہ ہماری زندگی میں کچھ روز، ماہ یا چند سال کے لئے ٹہرے ہو یا پھر مسلسل ہماری حیات کا حصّہ بن چکے ہو۔ چاہے وہ ہماری طالبِ علمی کے دور سے تعلق رکھتے ہو یا پھر پیشہ ورانہ زندگی سے۔چاہے وہ ہمارے لئے صرف ایک دوست ہو یا پھر ہمارے عزیز ترین رشتوں کی طرح ہمارے لئےاہم ہو یعنی ہمارے بھائی ،بہن یا اولاد  کی طرح ہمیں عزیز ہو۔ وہ ہماری زندگی سے اس قدر قریب ہو کہ اُن کی زندگی میں آنا والا ہر دکھ اور سکھ ہمارے لئے اپنے دکھ اور سکھ کے برابر ہو یا پھر وہ اُن لوگوں میں شامل ہو جن کی زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہمیں کوئی غرض نہ ہو۔
اگر تو ہم اپنے آپ کے دوست ہے تو پھر ان دوستوں کا زندگی میں آنا اور جانا  ہماری زندگیوں کو کبھی بھی اسطرح متاثر نہ کر سکے گا کہ ہم اپنے آپ کو تکلیف اور دُکھ میں ڈال دے بلکہ ہم اپنی ذات کو ہمیشہ ہر قدم پر سب سے زیادہ اہمیت دے گے اور اس بات کا یقین رکھے گے کہ لوگوں کا ہماری زندگی میں آنا اور جانا کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہوتا ہے اور ان کے آنے اور جانے کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اس لئے اسے کھُلے دل سے قبول کرنا چاہے اور اپنی ذات کی نفی کر کے اُن کےبچھڑنے کے دکھ میں  مبتلا نہ ہونا چاہے۔ اگر تو ہم خوش ہیں تو ہمارے آس پاس کا سارا ماحول خوشگوار ہوگا اور ہم اپنی خوشی سے اپنے اطراف میں رہنے والوں کے دلوں کو بھی خوشی سے منور کر سکے گے۔
کوئی بھی انسان کامل نہیں ہو سکتا ہے اس  لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ سے دوستی کرتے ہوئے لوگوں سے دوستی کے بندھن میں بندھا جائے اور کسی سے  ایسی توقعات وابستہ نہ کی جائے جس کا پورا نہ ہونے کی صورت میں ہم اپنے آپ کو ہی کھو بیٹھے۔کوشش کی جائے کے اپنی جانب سے لوگوں کو ایک ایسا دوست میسر کیا جائے جس کی ہمیں خود اپنے لئے تلاش یا ضرورت ہے۔جو ہمارے لئے اہم ہو۔ اگر تو خود اپنی ذات کو مفادات سے بالا تر کر کے دوستی کے رشتے میں باندھا جائے تو یقیناً ہمیں بھی ایسے ہی دوست ضرور میسر آئے گے جو مفادات سے بالاتر ہوکر ہم سے دوستی نبھائے گے۔

ثمینہ طارق

 (جاری ہے)

حصّہ اوّل
حصّہ دوئم
حصّہ چہارم



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں