Translate

اتوار، 14 جولائی، 2013

سفرشرط ہے!! حصّہ دوئم

اس خوشبو کے سفر میں ساری کائنات ہماری ہم سفر ہے۔شمس و قمر، پہاڑ و میدان، دریا و سمندر،  جنگل و بیاباں ، پھول ، رنگ و خوشبو ،پودے، درخت، پرندے ،بادل، ہوا     غرضدنیا کی ہر شئے۔

جس طرح سفر کے دوران سفر کرنے والے دو لوگوں کا کسی بھی شئے یا مقام کے بارے میں نظریہ مختلف ہوتا ہے -دو اشخاص کسی شئے یا مقام کے بارے میں مختلف اندازمیں سوچتے ہیں کوئی سفر کو صرف اک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے ہی اختیار کرتا ہے تو کوئی سفر کو سیر و تفریح کے طور پر اور کوئی اسے سیکھنے کے عمل سے گزرنے کی خاطر یا شوقیہ  اختیار کرتا ہے- جو لوگ سفر صرف اس لئے اختیار کرتے ہیں کہ اُنہیں اک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچنا ہوتا ہے وہ سفر کو باریک بینی سے نہیں دیکھتے ، سفر کے دوران آنے والے مقامات کو سرسری طور پر دیکھتے ہیں اور صرف اپنی منزل سے متعلق سوچتے ہیں کہ جلد از جلد اپنے طے شدہ مقام تک پہنچ جائے- جب کہ سیر و تفریح کی خاطر سفر اختیار کرنے والے لوگ ہر شئے اور ہر مقام سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اُن اشیاء یا مقامات کے بارے میں معلومات بھی حاصل کرتے ہیں اور اس سے محظوظ ہوتے ہیں- وہ لوگ جو سفر کو شوقیہ یا محض سفر کی خاطر اختیار کرتے ہیں  وہ سیاح  کہلاتے ہیں اور وہ کبھی اپنی منزل کے متلاشی نہیں ہوتے ہیں – وہ ہمیشہ سفر میں رہنا پسند کرتے ہیں-ایسے  لوگ ہر مقام اور ہر شئے سے نہ صرف یہ کہ لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ انہیں ان مقامات سے عشق ہو جاتا ہے اور وہ گاہے بگاہے اُن مقامات پر جانے کے لئیے بیتاب رہتے ہیں -وہ ہر نئی جگہ کو کھوجنے کے لئے مضطرب رہتے ہیں -انہیں پھر چاہے کتنی ہی دُشواریوں کا سامنا کیوں نہ کرنا پرے وہ اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور اس سے نہیں گھبراتے-

زندگی کا سفر بھی کچھ اسی طرح ہے ہم سب اک ساتھ زندگی گزارتے ہیں لیکن ہم سب کا زندگی سے متعلق نظریہ مختلف ہوتا ہے- کچھ لوگ زندگی کو صرف آخرت کے لیے اک موقع گردانتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ زندگی کا سفر بخوبی انجام پائے اور وہ آخرت میں سزا سے بچ جائے اور جزا کے مستحق ٹہرے- وہ بڑے نپے تُلے انداز میں زندگی کو گزارتے ہیں- جبکہ کچھ لوگ زندگی سے پوری طرح ے لُطف اندوز ہوتے ہیں اور اپنے اس سفر کے دوران اللہ کی بنائی ہوئی تمام چیزوں سے متاثر تو ہوتے ہیں مگر اُن کی اصلیت کو کھوجنے کی جستجو نہیں رکھتے-وہ ان سے تمام فوائد تو حاصل کرتے ہیں لیکن یہ کوشش نہیں کرتے کہ اس کے بات کو جانے کہ یہ سب سہولیات انسان کو کیوں اور کس مقصد کے لئے عطا کی گئی ہے جبکہ کچھ لوگ مسلسل اس سوچ میں مُبتلا رہتے ہیں کہ کیا ہماری زندگی کا مقصد صرف دنیا کی آسائشات سے لُطف اندوز ہونا ہی ہے ؟ اور یہ سب کچھ انسان کو کیوں اور کس لئے عطا کیا گیا ہے؟ ہم ان تمام نعمتِ خداوندی سے کس طرح فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور  اس کا شکر ادا کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

یعنی کے لوگ زندگی کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے بسر کرنے کا طریقہ بھی سب کا مختلف ہوتا ہے- کچھ لوگ شدت سے مزہب پر عمل پیرا ہوتے ہیں جبکہ کچھ مزہب سے یکسر منکر ہوتے ہیں  اور کچھ میانہ روی اختیار رکھتے ہیں وہ دنیا اور مزہب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں- نہ دین کے لئے دنیا کو ترک کرتے ہیں نہ ہی دنیا کے لئے دین کو ترک کرتے ہیں ، یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو کہ دنیا کی ہر شئے میں خدا کے وجود کو تلاشتے ہیں اور اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ وہ زاتِ پاک ہر جگہ ہر شئے میں موجود ہیں-ایسا سفر اختیار کرنا ہر اک کے لئے ممکن  نہیں ہے آج کے اس تیزرفتار دور میں ہم اکثر اپنی نہایت اہم ضروریات کو بھی فراموش کر جاتے ہیں یا بہت سے قریبی رشتوں کو بھی کھو بیٹھتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہیں کہ ہم ہر کام میں ، ہر مقام پر، یا ہر شئے میں کسی نادیدہ وجود کو تلاشتے رہے-

سفر کے دورا ن انسان کو تھکاوٹ کا احساس بھی ہوتا ہے اور بھوک اور پیاس بھی لگتی ہیں لیکن کوئی بھی شخص سفر کرتے ہوئے اُس وقت تک کھانے یا پینے میں وقت ضائع نہیں کرتا جب تک اُسے شدید بھوک یا پیاس نہ لگے-حالانکہ کھانا اور خاص کر کے پانی انسان کی زندگی کی اہم ضرورت ہیں-تو پھر زندگی کے سفر میں کوئی بھی انسان سچ کی تلاش کا سفر کیسے اختیار کر سکتا ہے جب تک کہ اُسے اس کی پیاس نہ ہو- جو پیاسا ہوتا ہے وہ ہی یہ جستجو کرتا ہے اور جو جستجو رکھتا ہے اُسے ہی اس راہ کا مسافر بنایا جاتا ہے اور وہ بوند بوند کرکے اپنی  روح   کو اس  دریا کے میٹھے پانی سے سیراب کرتا ہے اور ہر بوند کی لزت سے آشنا ہوتا ہے- مگر صرف وہی جو جستجو رکھتا ہے اس سفر کی کٹھن راہوں  سے نہیں گھبراتا اور سفر جاری رکھتا ہے-

سچ کے تلاش کے سفر کی نہ ہی ابتداء انسان کے اختیار میں ہیں اور نہ ہی انتہا –  رب جسے چاہے اس سفر پر لگا دے اور جسے چاہے تھکا دے – اُس کے اِذن کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں- اُسے پانا یا نہ پانا  دور کی بات ہیں لیکن اس سفر کی اپنی ہی ایک لزت ہے اور جو اس لزت سے آشنا  ہو جائے وہ پھر سفر کی کٹھنائیوں سے گھبرا کر سفر منقطع نہیں کرتا بلکہ اس کی خوشبو سے اپنی روح کو معطر کرتا ہے اور سفر جاری رکھتا ہے-


بدھ، 3 جولائی، 2013

سفر شرط ہے!! حصہ اوّل

 زندگی سفر ہے ۔۔۔۔ سفر زندگی ہے۔۔۔

یہ دونوں ہی جملے بارہا کبھی کسی گاڑی کے پیچھے تو کبھی کسی ٹرک یا رکشا کے پیچھے لکھے ہوۓ یا کبھی کسی دیوار یا سائن بورڈ پر لکھے دیکھے ہیں، لیکن جب کبھی ان پر نظر پڑی تو پہلا خیال ذہن میں آیا کہ کیا واقع سفر کرنا کسی کے لئے زندگی ہو سکتا ہے؟ یا زندگی کو کوئی سفر کہ سکتا ہیں؟؟ دیکھا جائے تو دونوں جملوں میں مماثلت پائی جاتی ہیں. چاہے سفر کرنا کسی کے لئے زندگی ہو یا کسی کی زندگی سفر ہو ان دونوں معملات میں دوباتیں مشترک ہیں اور وہ ہے 'تسلسل' اور 'تحرک ' کا پایا جانا-

کسی بھی طرح کے سفر میں تسلسل کا ہونا ایک لازمی جزو ہے- سفر کا تسلسل ہی اسے سفر بناتا ہے اور اس کا اختتام منزل پر ہوتا ہے- جہاں ٹہراؤ آ جاتا ہے اور تسلسل ختم ہو جاتا ہے- اسی طرح ہماری زندگی بھی ایک سفر ہی ہے جس میں تسلسل کا پایا  جانا  ایک اہم جزو  ہے اور اس کا اختتام بھی ٹھہراؤ یعنی موت پر ہے- ہماری زندگی میں تسلسل کے پاے جانے کی واضح مثال ہماری سانسوں کے چلتے رہنےکے عمل سے ملتی ہے- سانس کا جسم میں داخل ہونا اور خارج ہونا ایک مسلسل عمل ہے جس کے باعث ہم زندہ رہتے ہیں اور ہماری سانسوں کے چلتے رہنے کا عمل ہمیں اس تسلسل سے جڑے رہنے پر مجبور کرتا ہے جس کے باعث ہم مسلسل سفر میں رہتے ہیں اور اس طرح ہم زندگی کو سفر کا نام دے سکتے ہیں-

دوسرا جزو 'تحرک' ہے یعنی حرکت میں رہنا- سفر کے دوران ہم مسلسل متحرّک رہتے ہیں چاہے وہ سفر جہاز کا ہو، بس کا ہو یا پیدل ہو، سفر ہمیں متحرّک رکھتا ہے اسی طرح زندگی بھی ہمیں متحرّک رکھتی ہے- انسان جب تک زندہ رہتا ہے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے وہ اپنے آپ کو حرکت میں رہنے سے روک نہیں پاتا ہے اس کی واضح مثال پلکوں کا جھپکنا اور خیالات کا دماغ میں آنا جانا ہے- یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی زندہ انسان اپنے آپ کو حرکت میں رہنے سے روک پاے، ایک معذور شخص بھی مسلسل اپنی سوچ کے ذریے ہی سہی حرکت میں رہتا ہے. زندگی میں 'تحرک' کا ہونا ضروری ہےجب کہ 'جمود'' موت ہے اسی لئے زندگی بھی سفر ہے-
اس طرح یہ دونوں ہی جملے ایک دوسرے سے جڑے محسوس ہوتے ہیں ایک مسافر کے لئے اگر تو سفر زندگی ہے تو ایک عام انسان کے لئے اس کی زندگی ہی سفر ہے- ایک انسان کے لئے جتنا سانس لینا ضروری ہے اتنا ہی ایک مسافر کے لئے سفر کرنا لازم ہے اور ہم اپنے ارد گرد کے ماحول سے روابط رکھتے ہوے اس سفر کو انجام دیتے ہیں-

سفر کے دوران ایک مسافر مسلسل اپنے ارد گرد کا جائزہ لیتا رہتا ہے اور اپنے اس پاس کے  لوگوں کا مشاہدہ کرتا ہے اسے اور اس سے بہت کچھ سیکھتا ہے اسی طرح ہمارے ذہن میں خیالات کا آنا جانا ہمیں تسلسل سے جڑے رہنے پر مجبور کرتا ہے اور یہ تو ممکن ہی نہیں کہ انسان سوچنے کے عمل کو منقطع کر دے اسے محدود تو کیا جا سکتا ہے لیکن منقطع نہیں کیا جا سکتا اور اگر خیال کے آنے جانے کو اور سوچ کو منقطع کرنا ممکن نہیں ہے تو پھرہم اس دنیا میں رہنے والے لوگوں کو سوچنے اور ان کے اعمال پر نگاہ رکھنے کے علاوہ دنیا کی تمام چیزوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوتے ہے اور یہی سوچ ہمیں ان تمام چیزوں کے خالق کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے-

جب ہمارے خیال کی پروازاُس خالق تک جا پہنچے تو ہم اس راز کو پانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ  اُس رب نے یہ دنیا کیوں بنائ؟؟ ہمارا وجود اس دنیا میں کیوں موجود ہے ؟؟؟ کیا ہم اس دنیا میں صرف کمانے، کھانے پینے، پڑھنےلکھنے ، سونے جاگنے اور عیاشیاں  کرنے کے لیےآئے ہی؟؟یا زیادہ سےزیادہ   زندگیوں کو اپنےمن پسند طریقے سے  گزارتے ہوئے لحد میں جا کر سونے کے لئے؟؟؟ لیکن یہ ممکن نہیں کہ ہم زندگی کی تمام تر اسائشوں سے فائدہ اُٹھانے کے باوجود  اسکے خالق کی حقیقت کہ پانا نہ چاہے، یہ نہ سوچے کے اُس رب العزت نے ہمیں یہ تمام ترعنایات عطا کی ہے تو اس کے بدلے میں ہم  کیا کر سکتے ہیں؟ ہم اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح وہ مقصد پا لیا جائےجس کی وجہ سےہم اس دنیا میں آئے ہیں اور یہی سوچ  ہمیں اپنے  وجود سے قریب کر دیتی ہیں اور نہ صرف اپنے وجود سے بلکہ اپنے سے وابستہ تمام ہستیوں سے قریب تر کر دیتی ہیں اور ہم پوری شدت  سے اس راز سے پردا اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم دنیا میں کیوں آئے ہیں؟؟؟

انسان جب اس دنیا میں آتا   ہے تو وہ اپنے رب سےقریب تر ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے وہ دنیا کے کاموں میں مشغول ہوتا ہے وہ اس احساس سے غافل ہو جاتا ہے لیکن زندگی میں کبھی نا کبھی کسی نہ کسی مقام پر پہنچ کر ہم اپنے آپ میں اک خلا محسوس کرنے لگتے ہیں اور  یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ زندگی میں تمام تر اسائیشوں کو پانے کے باوجود ہماری زندگی میں یہ خلا کیوں اور کس وجہ سے  ہے؟؟ اسے ہم کس طرح پُر کر سکتے ہیں ؟؟؟؟

سفر چاہےاک شہر سے دُوسرے شہر کا  ہو یا اک ملک سے دُوسرے ملک کا یا پھر اپنے گھر سے کسی اپنے کے گھر تک کا ہو ، نیز سفر چاہے چھوٹا ہو یا لمبا، سفر کے دوران ہم اپنے اطراف کا مشاہدہ  کرتے ہوئے سیکھنے کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں اور کائنات کے بہت سے رازوں سے واقیت حاصل کرتے ہیں اسی طرح زندگی کا سفر بھی ہمارے لیے آگہی کا باعث بنتا ہے اور ہمارے دلوں سے پردہ  ہٹانے  اور آنکھوں سے جالے صاف کرنے میں مددگار ثابت ہوتا  ہے  اورہم  اس کائنات کے خالق تک پہنچنے کی جدوجہد میں مشغول ہو جاتے ہیں اور یہاں سے سوچ کا اک نیا باب کھلتا ہےاور زندگی کے اک نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے اور وہ سفرسوچ کا سفر یا روح کا سفر کہلاتا ہے-

سفر شرط ہے!! سفر جسمانی ہو یا زہنی، سفر خیال کا ہو یا پھر روح کا- خیال کی پرواز پر سوچ کا سفر روح کی منزل پر پہنچنے میں مددگار  ثابت ہوتا ہے اور روح کا سفر مشکل ترین سفر ہونے کے باوجود تسکین کا باعث بنتا ہے اس سے ہمارا پورا وجود معطر ہو جاتا ہے  اور ےیہ سفر خوشبو کا سفر کہلاتا ہے-