Translate

بدھ، 27 مئی، 2015

میرے بچپن کے دن: کچھ کھٹی میٹھی یادیں

پچھلے دنوں فیس بُک کے ایک گروپ  'بزمِ ادب' میں  'ہفتہء اطفال' منایا  گیا جس میں گروپ کے تمام ممبران نے اپنے بچپن کی باتیں شئیر کی اور بچپن میں پڑھی جانے والی کہانیاں ، نظمیں اور کھیلوں کو بھی شئیر کیا۔۔ میں نے بھی اپنی کچھ یادوں کو کریدا اور صفحہء قرطاس پر اُتارا۔ آج کے اس بلاگ میں وہ تمام باتیں ترتیب وار  پوسٹ کر رہی ہوں۔

بچپن کے کھیل:
کھیل تو بہت چھوٹی عمر سے ہی کھیلے جاتے ہیں اور بچّے کو پیدائش پر ہی بہت سے کھلونوں کے تحائف دے دئے جاتے ہیں تو جناب ہمارا بھی سب سے پہلا کھلونا جھُنجنا ہی تھا جسے آپ گھنٹی بھی کہہ سکتے ہیں۔ کھیلوں کا آغاز گھر میں کھیلے جانے والے کھیلوں سے ہوا جو سب سے پہلا کھیل تھا وہ ' گھی ڈبہ' تھا۔   اس کا آغاز تو مجھ سے ہی ہوا  لیکن پھرہم تینوں بھائی بہنوں کا پسندیدہ کھیل بن گیا۔بچّے عموماً اپنی والدہ کو اُس وقت ضرور تنگ کرتے ہیں جب وہ کچن میں ہو اور خاص کر کے روٹی پکا رہی ہو اور ہمارا شمار بھی ایسے بچّوں میں ہوتا تھا ۔  اس کا حل ہمارے والدِ محترم نے کچھ یوں نکالا کہ بچّے کو کندھے پر بٹھا کر گھر میں گھوماتے اور جب ہم رونے لگتے تو امیّ کے پاس  لے جاتے اور کہتے لو میں گھی کا ڈبہ لایا ہوں گھی خرید لو ۔ یہ تو ایک ترکیب تھی بچّے کو چُپ کروانےکی اور ہنسانے کی لیکن یہ ہمارا سب سے پسندیدہ کھیل بن گیا اور پھر ہم باری باری ابّو کے کندھے پر سوار ہوتے اور کہتے گھی لے لو بھائی۔ وہ لمس وہ کندھا کبھی نہ بھولا جو ہمارا سہارا تھا۔
گھر میں امیّ ابّو کے ساتھ کھیلنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا تھا نہ صرف اُس وقت تک جب تک باہر جانے کی اجازت نہ تھی بلکہ جب تک وہ حیات رہے رات کو کم از کم  ویک اینڈ پر ہمارے گھر میں لُڈو، کیرم بورڈ ، نام چیز جگہ، چور پولیس، چیل اُڑی، میرا وزیر کون؟   وغیرہ باقاعدگی سے کھیلا جاتا تھا اور یہی ہم نے اپنے بچّوں کے ساتھ بھی کھیلا اور اب تک کھیلتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک اور کھیل بھی کھیلا جو تاش تھا مگر ایک وقت میں امّی ابّو کے ساتھ بیٹھ کر۔گھر میں کھیلے جانے والے کھیلوں میں  ایک کھیل گڑیا  گڈے کا کھیل بھی تھا جو بہت شوق سے نہ صرف گھر میں کھیلا جاتا تھا بلکہ دوستوں کےگھروں میں جا کر بھی مہمان مہمان کھیلتے تھے۔ گڑیوں کے کپڑے بنانا،کھلونوں کےبرتنوں میں کھانا کھانا اور کھلانا، گڑیا اور گڈے کی شادی کروانا سب سے بہترین کھیل ہوا کرتا تھا۔
جب باہر کھیلنے جانے کی اجازت ملی تو پھر سب کھیل کھیلے پکرم پکرائی ، پیل دوج، لنگڑی پالا (جس میں ایک ٹانگ اُٹھا کر دام دی جاتی تھی) برف پانی ،کھو کھو، اونچ نیچ، چھپن چھپائی ،گھوڑا جمال کا، کرکٹ جو گھر سے باہربھی کھیلی اور گھر کے اندر امّی ابوّ کے ساتھ بھی کھیلی ۔اس کے علاوہ ریسنگ کا شوق تھا اور مقابلوں میں بھی حصّہ لیا جس کی پریکٹس کے لئے کچھ وارم اپ ایکسرسایئزز کروائی جاتی تھی جو میرے لئے باقاعدہ ایک کھیل تھی اور میں اُسے گھر میں بھی کھیلتی تھی جس میں رسّی کودنا  (اک ساتھ ۲00 مرتبہ سیدھا اور اُلٹا دونوں) اور گیند کو دیوار کی طرف پھینک کر کیچ کرنا مگر مختلف زاویوں اور طریقوں سے یہ میرا بہت پسندیدہ کھیل تھا جو روزانہ اسکول جانے سے قبل اور رات کو سونے سے قبل کھیلا جاتا تھا۔

بچپن کی نظمیں:
بچپن کی سب سے پہلی نطم جو سنی وہ ایک لوری تھی جو گجراتی زبان میں تھی اور وہ اپنی امّی کی زبانی سُنی  اور اُنھوں نے اپنی امّی سے سنی تھی  شائد نسل در نسل یہی لوری سنائی جاتی تھی۔یہ اتنی میٹھی تھی   کہ جب چھوٹے بھائی بہنوں کا اضافہ ہوا گھر میں تو مجھے وہ لوری زبانی یاد ہو گئی اور پھر میں اُن کو جھولا ڈالتے ہوئے گاتی تھی اور اپنے پھر اپنے بچّوں کو بھی یہ لوری سنا کر سُلایا۔ تھوڑی سی گجراتی زبان میں لکھ رہی ہوں لیکن گجراتی سکرپٹ میں نہیں کیونکہ پھر کسی کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔

نندر ادی رے نندر ادی 
آؤ رے میٹھی نندر آدی
(نیند یا رانی نیندیا رانی
آجا میٹھی نیندیا رانی

نندر ادی کہے آوو چھُو ہوں   
گھی نے گور لاوؤ چھُو ہوں
گڑیا  نے کھوراؤں چھو ہوں
ویلی ویلی آوؤ ں چھُو ہوں
گہری گہری آوؤ چھو ہوں

(نیندیا رانی کہےآتی ہوں میں
گھی اور گُڑ لاتی ہوں میں
گڑیا کو کھلاتی ہوں میں
جلدی جلدی آتی ہوں میں
گہری گہری آتی ہوں میں
نندر ادی رے نندر ادی 
آؤ رے میٹھی نندر آدی

نندر ادی کہے آوو چھُو ہوں   
سوٹ نے بوٹ  لاوؤ چھُو ہوں
گڑیا  نے پیراوؤں چھو ہوں
ویلی ویلی آوؤ ں چھُو ہوں
گہری گہری آوؤ چھو ہوں

(نیندیا رانی کہے آتی ہوں میں
 سوٹ اور بوٹ  لاتی ہوں میں
گڑیا کو پہناتی  ہوں میں
جلدی جلدی آتی ہوں میں
گہری گہری آتی ہوں میں)
 اسی طرح ہر بند میں مختلف چیزیں لائی جاتی تھی ۔ یہ لوری بہت بڑی عمر تک امّی سے سنتے رہے  رات میں سونے سے پہلے۔اس کے بعد کتابوں میں بہت سی نظمیں پڑھی اور سُنی  اور پڑھائی اور سنائی بھی ایک اُستاد کی حیثیت سے۔ کچھ خود بھی لکھی اپنی بیٹیوں کے لئے اور اسکول کے بچوں کے لئے ۔ ایک نظم جو خالہ اور امی دونوں سے سنی چھوٹی سی ہے مگر بہت پیاری اس  لئےلکھ رہی ہوں۔ٹانگوں پر جھولا جھولاتے ہوئے سنائی جاتی تھی بچے کو اپنا لاڈ اور پیار دکھانے کےلئے ۔

جھو جھو بالا
واری آوے خالہ
خالہ نا ہاتھ ما تھالا
تھالا مُکیا لاڈوا
لاڈوا کوئی چاکھے نہیں
گڑیا نے کوئی راکھے نہیں
( جھو لا جھلاؤ بچے کو
واری آئے خالہ
خالہ کے ہاتھ میں تھالی
تھالی میں لڈو
لڈو کوئی کھائے نہیں
 گڑیا کو کوئی رکھے نہیں) 
دونوں میں گڑیا کی جگہ بچّے کا نام لیا جاتا تھا اور جب میں نے اپنی بیٹیوں کو سنائی تو یہ جانا کہ اپنا نام سن کر بچّہ کتنا خوش ہوتا ہے اور وہ جان جاتا ہے کہ جو کچھ بھی کہا جا رہا ہے اُس کے لئے ہے۔ اُن کی کھلکھلاہٹ اور مسکراہٹ  زندگی کو پُر سکون کرنے کے لئے کافی ہوتی ہیں۔

بچپن کی کہانیاں:
پہلی کہانی بھی امّی سے سنی اور ہر بچّہ ماں سے ہی پہلی کہانی سنتا ہے چاہے پھر وہ کوئی سی کہانی کیوں نہ ہو۔ ہماری والدین بھی ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے نہ صرف رات کو سوتے ہوئے بلکہ دن کے اوقات میں بھی۔ ابّو سے کہانی سننے کے لئے تو یا رات کا وقت ملتا یا چھٹی والا دن لیکن امّی کو ہم کسی وقت نہیں بخشتے تھے۔ وہ کتنی ہی مصروف کیوں نہ ہو ہمیں کہانی سنانے کے لئے راضی ہوتی ۔ جب وہ کچن میں  کھانا پکا رہی ہوتی اور ہم کھانے کے انتظار میں بھوک کے مارے بیچین ہوتے تو  اُن کے پاس کہانی کا ہتیار ہوتا ہمیں صبر اور سکون سے بٹھانے کے لئے۔ ہم بھائی بہن کچن میں ہی ڈیڑہ دال دیتے اور وہ پکاتے پکاتے ہمیں کہانی سناتی جاتی اور ساتھ ہمارے فضول سے سوالات کے جوابات بھی دیتی جاتی۔ کبھی کبھی جب امّی کپڑے سی رہی ہوتی ہم مشین کے گرد بیٹھ جاتے اور وہ سیتے ہوئے ہمیں کہانی سناتی جاتی۔ ان کہانیوں میں رام سیتا کی کہانی ہمیں کبھی نہ بھولی ۔ امّی کا بچپن ہندوستان میں گزرا اس لئے یہ سب کہانیاں اُنہوں نے یا تو اسکول میں پڑھی تھی یا اپنی امّی سے سنی تھی ۔ اس کے علاوہ بھی راجا مہاراجاؤں کی ڈھیڑوں کہانیاں ہوتی۔ کبھی اپنی زندگی کے واقعات سناتی۔ ہندوستان  میں گزرا اپنا بچپن، اپنے اسکول کی باتیں ، کھیل کود کی باتیں ، اپنے والدین  اور  رشتے داروں کے قصّے اور پھر ہندوستان سے ہجرت کے دوران پیش آنے والے واقعات جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے اور کچھ اپنوں سے سنے تھے۔ پاکستان پہنچ کر جن تکالیف کا سامنا کرنا پر ا وہ سب کچھ امّی اور ابّو دونوں سے سنا۔ ان واقعات میں سب سے تکلیف دہ کہانی والد کی سنائی ہوئی تھی جو پاکستان آتے ہوئے راستے میں دادا کے انتقال کی وجوہات بنی۔ ہمارے لئے یہ سب واقعات ایک کہانی کی طرح ہی ہوتے تھے اور بہت سبق آموز بھی کیونکہ اس طرح ہم نے اپنے خاندان والوں کو جانا جو اب ہم میں نہیں تھے ۔ 
اپنے بچّوں سے اپنی زندگی کے واقعات ضرور شئیر کرنے چاہئے اس سے اچھا سبق کہیں اور سے نہیں ملتا جو اصل زندگی سے ملتا ہے۔لیکن ان کے علاوہ بھی امّی اور ابّو نے بیشمار کہانیاں سنی اور کہانیاں سننےکا عمل بہت لمبے عرصے تک جاری رہا  اور اگر اس سلسلے میں اُن کہانیوں کا ذکرنہ کرو جو ہمیں ہماری خالہ زاد بہن نے سنائی تھی تو درست نہ ہوگا۔ جی جناب تو ہم نے ڈراؤنی کہانیاں سننے کا آغاز بہت چھوٹی عمر سے کیا جو کہ ہماری کزن یعنی خالہ زاد بہن سُنایا کرتی تھی جس کو سننے کے بعد اکژ راتوں کو ڈر کر اُٹھ جاتے تھے ۔لیکن وہ ہماری  زندگی کے بہترین اور یادگار لمحے تھے ۔
جب پڑھنا شروع کیا تو پھر بہت کچھ پڑھا  تعلیم تربیت، نونہال، پھول ، بچوّں کی دنیاوغیرہ ان میں سے چھلاوے کی کہانی میری ہمیشہ پسندیدہ ہوتی اور اگلی قسط کا انتظار رہتا۔پھر اشتیاق احمد کو پڑھنا شروع کیا تو کچھ اور ہاتھ میں اُٹھانے کو جی ہی نہیں کرتا تھا ۔ میں نے چوتھی جماعت سے اشتیاق احمد کو پڑھا سب کچھ چاہے کوئی سیریز ہو یا خاص نمبر۔ پھر ڈائجسٹ ہاتھ لگے جس کے لئے کبھی پابندی نہیں لگائی امّی نے۔ اخبارِ جہاں تو باقائدگی سے گھر میں آتا تھا۔لائبریری سے کتابیں لینی شروع کی تو ابنِ صفی کو پھر کبھی نہ چھوڑا۔ ساتھ اشتیاق احمد کو بھی پڑھتے رہے۔ لائبریری سے بے شمار کتابیں لے کر پڑھی ہر  موضوع پر۔ایک کہانی جو امّی کی سنائی  تھی وہ لکھ رہی ہو اس پوسٹ کے ساتھ۔

ماں
 ایک گاؤں میں دو میاں بیوی رہتے تھے۔ اُن کے دو بچّے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ دونوں اپنے والدیں کے بہت لاڈلے تھے ۔ اُن کی امّی سارا دن اُن کے گھر کے کام کرتی اور اُن کے لئے اچّھے اچھّے کھانے پکاتی۔اُن کے ابّو جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جاتے تھے اور پھر لکڑیاں بیچ کر اُن سے گھر کا سامان لے آتے۔ وہ سب بہت خوش تھے۔ ایک دن اُن کی امّی بہت بیمار ہوگئی ۔ ڈاکٹر کی دوا سے بھی آرام نہ آیا اور وہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔ بچّے امّی کو یاد کر کے بہت روتے تھے۔ ابّو نے بہت کوشش کی کہ بچّوں کو سنبھالے لیکن اُن کو جنگل جانا بھی ضروری تھا ورنہ گھر کا خرچہ کیسے چلتا۔ پروسی نے اُن سے کہا کہ وہ دوسری شادی کر لے تو بچّے سنبھل جائے گے۔ پھر ابّو نے دوسری شادی کرلی۔ نئی امّی کچھ دن اُن کے ساتھ بہت اچھی رہی پھر کبھی وہ اُن کو کھانا نہ دیتی اور کبھی ڈانٹتی اور مارتی بھی تھی۔ بھائی بڑا تھا اور سمجھدار بھی اس لئے وہ بہن کو ہمیشہ خود چُپ کروا دیتا اور ابّو کو کچھ نہ بتاتا۔ ایک روز نئی امّی اپنے رشتہ داروں کے گھر چلی گئی اور بچّے دونوں بھوکے تھے۔ بہن رونے لگی تو بھائی اُسے امّی کی قبر پر لے گیا۔ وہاں وہ بہت دیر تک روتی رہ اور امّی کو آوازیں دیتی رہی۔امّی کی قبر آنسوؤں سے بھر گئی۔ پھر وہ روزانہ امّی کی قبر پر جانے لگے۔ ایک روز اُنہوں نے دیکھا کہ امّی کی قبر کے اوپر کچھ پھل لگے ہیں۔ بچّے بھوکے تو تھے ہی دونوں نے پھل کھانے شروع کئے وہ بہت میٹھے تھے۔ دونوں خوش ہوکر گھر واپس گئے۔ اب اُن کی نئی امّی کو پریشانی ہونے لگی کہ وہ بچّوں کو تھوڑا سا کھانا دیتی ہے اور کبھی نہیں بھی دیتی تو پھر بچّے اتنے صحت مند کیسے ہو رہے ہیں۔ ایک روز نئی امّی نے بچوّں کا پیچھا کیا اور دیکھا کہ بچّے اپنی ماں کی قبر سے پھل تور کر کھا رہے ہیں ۔ یہ دیکھتے ہیں اُن کا دل موم ہوگیا کہ ایک وہ ماں ہے جو اپنے مرنےکے بعد بھی بچّوں کے لئے رزق دے رہی ہیں اور ایک یہ خود ہے کہ معصوم بچّوں کو بھوکا رکھتی ہیں۔ اُنہوں نے قبر پر جا کر اُن کی امّی سے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ اب ان بچّوں کا خوب خیال رکھے گی۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ بچّوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آتی تھی۔ اب سب بہت خوش تھے۔

حرفِ آخر!
بچپن کسی کو نہیں بھولتا ہے اور ہر ایک کے بچپن میں کچھ باتیں مشترک ہوتی ہیں یہ ہم نے اس ہفتہء اطفال میں جانی کیونکہ تقریباً تمام لوگوں کےکھیلے جانے والے کھیل ، پڑھی گئی کہانیاں اور نظمیں کافی ملتی جُلتی تھی لیکن ہر ثقافت کا اپنا ایک رنگ ہوتا ہے۔ جیسے میں نے گجراتی کی لوری یہاں لکھی ایسے آپ کے بچپن کی بھی کچھ یادیں ہوگی ۔ کیا آپ اسے شئیر کرنا پسند کریں گے؟ اگر ہاں تو ضرور لکھئے کمینٹ باکس میں ۔

 ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

منگل، 19 مئی، 2015

دارالسکون

دارالسکون سے مراد ایک ایسا گھر ہے جس میں ہم سکون کی زندگی بسر کر سکتے ہیں اور یقیناً وہ گھر سب اپنوں سے مل کر ہی بنتا ہے جیسے والدین اور  بچّے اور پھر اُن کے بچّے یا پوتے پوتیاں  ،نواسے  نواسیاں وغیرہ۔ ایسا گھر جس میں تمام لوگ مل جل کر رہے اور ایک دوسرے کے ہر دکھ درد ، تکلیف اور مصیبتوں میں اُسی طرح شریک ہو جیسے وہ اک دوسرے کی خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ ایسا گھر جہاں ہر فرد اپنی اجتماعی زندگی کو نبھاتے ہوئے بھی انفرادی طور پر آزاد اور خود مختار ہو۔ اپنے وقت سونا ، جاگنا، کھانا پینا اور کام کاج کرنے میں  خود مختار ہو۔ ایسا نہیں کہ ایک گھر میں ایک  ساتھ رہتے ہوئے لوگ اپنی زندگیوں میں آزاد اور خود مختار نہیں رہ سکتے ۔ اگر تو گھر کے تمام افراد مل کر ایک دوسرے کی مشاورت سے فیصلے کرے اور تمام کاموں کے اوقات مقرر کریں تو یہ ممکن بھی ہے اور باآسانی ایسی زندگی گزاری جا سکتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے آج کے دور میں ہماری تمام تر توجّہ اپنے آپ پر رہتی ہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے والدین یا دادا  دادی جو اب بوڑھے ہو چکے ہیں وہ بھی ہمارے اوقاتِ کار کے مطابق وقت گزارے اور اپنے آپ کو ہمارے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ ایسے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اُن کی قوتِ برداشت اب پہلے جیسی نہیں رہی ہیں اور وہ ہمارے وقت کے مطابق ہماری طرح زندگی نہیں گزار سکتے ہیں۔

جب ہمارے والدین بوڑھے ہو جاتےہیں تو بلکل ویسے ہی ہو جاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں ہوا کرتے تھے۔ جب بھوک لگے کھانا مانگنے لگے، جب جی چاہا سو جائے، جب دل کیا تفریح کی اور جب دل کیا باہر جانے کی ضد کی۔ جب بچّے ایسی ضدیں کرتے ہیں تو والدین اپنی تمام تر مصروفیات کو درگزر کر کے اپنے بچّوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ بّچّے کی دنیا میں آمد تک اُن کی جو بھی مصروفیات ہوتی ہیں اُسے نظر انداز کر کے اپنا سار ا وقت بچّوں کے لئے وقف کرتے ہیں۔ جب بچّہ آدھی رات کو بھوک سے رونا شروع کرتا ہے تو ماں اپنی نیند کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی اس  کاپیٹ بھرنے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ رات میں نہ جانے کتنی بار ماں اور باپ دونوں اُٹھ کر اپنے بچّے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں ۔اکثر اوقات ماں کو اپنے بچّے کی پرورش کےلئے اپنے  کیرئیر کو بھی خیرباد کہنا پرتا ہے اور وہ پھر بھی خوش ہوتی ہیں کہ اُس کے بچّے کی پرورش بہتر طور ہو رہی ہے۔جب بچّہ بیمار ہو تو والدین اُس کی تندرستی اور صحت کے لئے اپنے دن رات ایک کر دیتے ہیں وہ نہیں سوچتے کے اتنی رات تک کیوں جاگوں صبح آفس بھی جانا ہے۔ جب بچّے سیر کو جانے کی ضد کرتے ہیں تو والدین نہیں سوچتے کہ ایک دن تو چھٹی کا ملا ہے کیوں نہ آرام کروں یا اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزاروں بلکہ وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچّوں کے ساتھ چھٹی کا دن گزارے اور اس سے بڑھ کر اُن کے لئے کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ لیکن  جب یہی والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں جنہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق دنیا کی تمام تر نعمتوں سے مالا مال کیا  ، اچھی تعلیم  دلائی جس کی وجہ سے آج بچّہ ایک اعلیٰ مقام پر فائز ہے اور اتنا مصروف ہے کہ اُسے اب یہ دیکھنے کا وقت ہی نہیں ہے کہ والدین کس حال  میں ہیں۔   اُسے اپنے دوستوں میں وقت گزارنا زیادہ اچھا لگتا ہے، اپنی مرضی سے اپنے وقت پر کھانا  اور سونا اچھا لگتا ہے یہ خیال نہیں آتا کہ کم از کم دن میں ایک وقت رات کا کھانا ہی ساتھ بیٹھ کر کھا لیا جائے والدین کی مرضی سے اُن کے سونے سے پہلے گھر آیا جائے تاکہ کچھ دیر اُن کے ساتھ وقت گزارا جائے اور کبھی کسی چھٹی کے دن اُنھیں بھی ساتھ لے کر جایا جائے۔

اکثر والدین کبھی شکایت نہیں کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بچّوں اور اُن کے بچّوں کےوقت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ لیکن اگر تو کوئی کبھی شکایت کر بیٹھے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ والدین اُن کی ترقّی کی  راہ میں رکاوٹ بنےرہے ہیں اور اُنھیں آزادی میسر نہیں ہیں۔  ایسے وقت میں وہی والدین جو اُن کا بوجھ کاندھوں پر اُٹھا کر گھومتے رہے تھے  بچّوں کو بوجھ لگنے لگتے ہیں اور وہ اُنھیں دارالسکون میں چھوڑ آتے ہیں۔دارالسکون سے مراد ایسا گھر جہاں سکوں میسر آئے  تو وہ والدین جنھوں نے اپنی ساری حیات اپنے بچّوں کے لئے تیاگ دی وہ اب اُن پر بوجھ ہے اس لئے غیروں کے حوالے کر دئے جاتے ہیں۔ کچھ کو پاگل یا نفسیاتی مریض قرار دے دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنا حق نہ ملنے پر بچّوں کی طرح لڑنے اور جھگڑنے لگتے ہیں یا پھر رونے لگتے ہیں۔ وہ نفسیاتی مریض نہیں ہوتے ہیں لیکن جب اُنھیں اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ ضرور نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔

پہلے تو مشرق میں دارالسکون کے نام سے کوئی واقف نہ تھا لیکن اب ہر ملک اور شہر میں ایسے گھر آباد ہو چکے ہیں جن میں  لوگ اپنے والدین اور دادا دادی کو چھوڑ جاتے ہیں ۔ پچھلے دنوں  ایک گروپ کے ساتھ ایسے ہی دارالسکون میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پر بہت سے لوگوں سے مل بیٹھ کر باتیں کرنے کا موقع ملا۔ ہر فرد کی اپنی ایک الگ کہانی تھی جو کچھ اُن کی زبان سے ادا ہوئی تو کچھ آنکھوں اور آنسوؤں سے۔ اتنا سارا درد دل میں لئے بھی یہ لوگ ایک دوسرے کے لئے جان چھڑکتے ہوئے نظر آئے کیونکہ اب ان کے رشتے دار بھی یہ ہی لوگ ہیں اور دوست اور دکھ درد کے ساتھی بھی۔ہم جیسے لوگوں کو دیکھ کر سب کے چہرے کھل جاتے ہیں اور بعض لوگ تو کہہ بیٹھتے ہیں کہ آپ لوگ آجایا کرے ہمارے گھر سے تو کوئی نہیں آتا ہے۔ بہت سی این جی اوز اور نوجوانوں کے ٹولے یہاں آتے ہیں اور تمام تہوار منائے جاتے ہیں چاہے وہ ایسٹر ہو، ہولی ہو یا عید ہو۔ ویلنٹائن ڈے ہو یا مدرز ڈے ہو۔ مختلف لوگ آکر مختلف قسم کی ایکٹیویٹیز کا انتظام کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کو اکیلے پن سےنجات دلائی جا سکے۔

میرا اس ادارے میں پچھلے دو ماہ میں تین مرتبہ جانا ہوا اور تینوں مرتبہ ہم نے مختلف سرگرمیاں منعقد کی ۔ جن میں وہاں موجود لوگوں کی سالگرہ منانا، لافنگ تھیراپی، آرٹ اینڈ کرافٹ ایکٹیویٹی اور مدرز ڈے وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں میں تقریباً تمام لوگوں نےبڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور بہت خوش ہوئے۔سینئر سیٹیزنز یعنی بوڑھے افراد کو بھی زندگی کو بھر پور طریقے سے جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہم لوگوں کو لیکن فرق صرف یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی  زندگی میں یہ خوشیاں خود سے لانے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں ۔ وہ عمر کے ساتھ اپنی خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں اور کچھ بھی کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اُنھیں ہر قدم پر ہماری اُسی طرح ضرورت ہوتی ہے جیسے بچپن میں ہمیں اُن کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ ہم سے کچھ نہیں مانگتے ہیں صرف تھورا سا وقت درکار ہوتا ہے اُنھیں خوش رہنے کے لئے اور محبت کے دو بول۔

کیا آپ کے گھر میں آپ کے والدین آپ کے ساتھ رہتے ہیں ؟ کیا آپ اُنھیں اپنا وقت دیتے ہیں؟  کیا آپ کبھی ایسے ادارے میں گئے ہیں ؟ اگر نہیں تو جائے اور سب سے پہلے اپنے والدین کو وہ وقت دیجئے جو آپ پر اُن کا قرض ہے  اور اگر ممکن ہو تو ایسے اداروں میں وقت گزار کر لوگوں کے چہروں پر کھلی مسکراہٹوں کو سمیٹ لیجئے کیونکہ آپ کے بڑھاپے میں یہی قیمتی لمحات آپ کا سرمایہ حیات بنے گے۔ اس دنیا میں اگر سب سے قیمتی تحفّہ ہم کسی کو دینا چاہتےہیں تو وہ ہمارا   وقت اور علم ہے جس کے ذریعے ہم  لوگوں کی زندگی میں بہتری اور مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں ۔ اپنے وقت کا صحیح استعمال کیجئے اور اپنے علم سے لوگوں میں وقت اور علم کی اہمیت کو اُجاگر کیجئے۔
 ثمینہ طارق


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔