Translate

ہفتہ، 15 مارچ، 2014

وقت


وقت کبھی  ٹہرتا نہیں ، کہیں رُکتا نہیں، کسی کا انتظار وہ کرتا نہیں۔ لمحے منٹوں میں ، منٹ گھنٹوں میں ، گھنٹے دنوں اور دن مہینوں  اور مہینے سالوں  میں اس طرح  تبدیل ہوتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ وقت کا اسطرح بدلنا کبھی ہم محسوس کر پاتے ہیں اور کبھی اپنی زندگی میں اسقدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اس کے گزرنے کا احسا س ہی نہیں ہوتا ہے۔ ہم اسے محسوس کرے یا نہ کرے اس سے کوئی فرق نہیں پرتا کیونکہ وقت کو چلتے ہی رہنا ہے اسے کہیں بھی کسی کے لئے بھی نہیں ٹہرنا۔ کیونکہ وقت پیمائشی نظام کا ایک ایسا جزو ہے جس سے دو واقعات کے درمیانی وقفہ کو معلوم کیا جاتا ہے ۔ یہ واقعات کا ایک ایسا تسلسل ہے جسے واپس نہیں پلٹا جا سکتا ہے۔

وقت کے گزرنے کی کیفیت کو ہم اپنے حالات اور واقعات اور اپنی   زندگی کے پیرائے میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ جب ہمیں کسی کا انتظار ہو تو وقت کاٹے نہیں کٹتا ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ آج وقت کیوں اتنی آہستگی سے گزر رہا ہے  لیکن جب ہمارے پاس کسی کام کو کرنے کے لئے مقررہ وقت ہو تو محسوس ہوتا ہے کہ وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اور ہم وہ کام وقت پر مکمل نہیں کر پائے گے۔ اسی طرح  جب ہم خوش ہوتے ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا وقت اچھا چل رہا ہے اس لئے ہمیں خوشی اور کامیابی حاصل ہو رہی ہے لیکن اگر تو کسی کام میں ناکامی ہمارے ساتھ ہو تو ہم دُکھی ہو جاتے ہیں اور اس دُکھ کی ذمہ داری بھی وقت کے سر ڈال دی  جاتی ہے کہ ہمارا وقت ہی بُرا چل رہا ہے اس لئے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اپنی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کی ذمہ داری کے پیچھے جو  عوامل کارفرما ہوتے ہیں اُنہیں ہم یکسر فراموش کر دیتے ہیں کہ ہماری کامیابی میں ہماری محنت، توجّہ ، مستقل مزاجی اور لگن بھی شامل ہے جبکہ ہماری کسی بھی ناکامی میں کچھ ہماری کوتاہی تو کچھ کم ہمتی اور  خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہیں۔

وقت سے متعلق دو جملے بہت مشہور ہیں اور دونوں ہی ہماری زندگی میں نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں اس لئے ان پر خاص توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔
۱-ہر کام اپنے وقت پر اچھا لگتا ہے
۲-گیا وقت کبھی واپس نہیں لوٹتا۔

ہم زندگی میں کرنا تو بہت کچھ چاہتے ہیں لیکن ہم میں سے اکژ  لوگ سب کچھ کر لینے کی خواہش رکھتے ہوئے بھی کچھ بھی کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ صرف خواب دیکھنے اور منصوبے بنانے سے کچھ بھی ممکن نہیں ہوتا اس کے لئے عمل کی ضرورت ہوتی ہیں۔ پہلا قدم اُٹھانے میں خوف ضرور محسوس ہوتا ہیں لیکن اگر اس خوف پر قابو پا لیا جائے تو پھر کچھ بھی کرنا ناممکن نہیں ہوتا۔اکثر ہم کچھ کرنے سے پہلے یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ یہ وقت اس کام کے لئے مناسب ہے یا نہیں؟ ہمیں اسوقت اس کام  کی ابتداء کرنی چاہئے یا نہیں؟ یہی سوچیں ہمیں کسی بھی کام کو کرنے سے روکتی رہتی ہے اورہم  اپنی زندگی کے بہترین لمحات کو کھو دیتے ہیں جس میں ہم وہ سب کچھ کر سکتے تھے جو ہمارا دل کرنے کو چاہتا ہے اور فقط وقت کے درست ہونے نہ ہونے کا سوچ کر ہم اپنی زندگی کے بہت قیمتی لمحات کو کھو بیٹھتے ہیں اور جب ہمیں اس کا احساس ہوتا ہے تو پھر یہی خیال آتا ہے کہ اب تو وقت ہاتھ سے نکل گیا اب کیا ہو سکتا ہے اور پھر ہمت ہار کر وہ سب کبھی نہیں کر پاتے ۔لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اب آپ کچھ نہیں کر سکتے ۔ کسی بھی کام کو سر انجام دینےکے لئے وقت کی قید نہیں ہوتی اور نہ ہی عمر کی فقط ہمت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہیں اور کامیابیا ں ساتھ ہوتی ہے صرف اُن کے جو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے خوف کو ترک کر کے قدم بڑھاتے ہیں اور مستقل مزاجی سے اس کام کو  سرانجام دیتے ہیں۔

لیکن یہ بھی درست ہے کہ کچھ کام وقت رہتے ہی کر لئے جائے تو بہتر ہے ورنہ اُن کی اہمیت باقی نہیں رہتی او ر جس کی وجہ سے اکثر ہم بہت سے اپنوں کو کھو بیٹھتے ہیں۔ کسی اپنے کی خوشی میں وقت پر شریک ہونا، یا کسی کی تکلیف میں اُس کا ساتھ دینا نہایت اہمیت رکھتا ہے ۔ ایسے خاص اوقات میں ہم صرف یہ سوچ کر کہ ہمارے کام اور ہماری مصروفیت زیادہ اہم ہے شرکت نہ کر کے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرتے ہیں پھر چاہےاس کے لئے کتنی معذرت کر لی جائے نہ تو اُن کو تسلّی ہوتی ہے اور نہ ہمیں تشّفی ہوتی ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی اپنا روٹھ جائے یا ناراض ہو جائے تو اپنا محاسبہ کرنے میں اتنا وقت صرف نہ کردے کہ پھر معذرت کا موقع ہی ہاتھ سے نکل جائے اور ہماری زندگی ان پرخلوص دوستو ں اور رشتوں سے خالی ہوجائے ۔دل سے قریب رہنے والے لوگوں سے جُدائی کا دکھ ہمیشہ کا دُکھ ہوتا ہےاور اک گہرا زخم بھی۔یہ سچ ہے کہ وقت ہر زخم کا مرہم بن جاتا ہے۔ کوئی بھی زخم کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو وقت کا بہاؤ اسے بہا لے جاتا ہے۔  لیکن کچھ زخم ایسے  بھی  ہوتے ہیں جو وقت کے دھارے میں بہہ کر بہل تو  جاتے ہیں اور  وقت کا مرہم کچھ دیر کو تو  انہیں خشک کر دیتا ہے ۔مگر آہستہ آہستہ اُس پروقت کی کھڑند جم جاتی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ سخت ہو جاتی ہے. پھر جب اسی بے رحم وقت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہم ایسے زخموں کو کھرچے لگتے ہیں تو اُن  سے دوبارہ لہو رسنے لگتا ہے اور وہ زخم ہمارے دل کا ناسور بن جاتے ہیں۔

وقت واقعات کا ایک تسلسل ہے جو   ماضی، سےحال اور پھر  مستقبل کی جانب رواں رہتا ہے۔گیا وقت کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا ہے اور آنے والا وقت کیسا ہوگا اس کی ہمیں کچھ خبر نہیں اس سے صرف ربِ کریم کی ذات واقف ہے۔ ہم اپنے لئے کچھ بھی سوچ لیں، کچھ بھی منصوبہ بنا لیں لیکن ہونا وہی ہے جو رب کی مرضی اور منشاء ہو گی پھر گزرے وقت کی کوہتائیوں پر کفِ افسوس ملنے  اور آنے والے وقت کے خوف سے اپنے آج کو ضائع  کرنےکے بجائے  گزرے وقت سے سبق حاصل کرے اور آنے والے وقت کو بہتر بنانے کے لئے کوشش اور دعا کرےکیونکہ یہ جو لمحہ ہم اس وقت جی رہے ہیں وہیں سب سے قیمتی ہے کل ہوتے ہی وہ ماضی بن کر افسوس بن جائے گا۔

جب تک ہماری سانسیں چل رہی ہیں، زندگی ہمارے وجود میں باقی ہے   ۔دن، مہینے،اورسال یونہی گزر تے جائے گے فقط لمحہ موجود ہی ہمارے اختیار میں ہے اس لئے اس کا استعمال سوچ سمجھ کر اور مناسب طریقے سے کرنا ہی عقلمندی کی نشانی ہے اور اسی میں انسان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار ہے تو کیوں نہ اس کا استعمال اس طرح کیا جائے کہ اس سے اپنے ساتھ اپنے اطراف میں بسنے والے کچھ اپنوں کا بھی بھلا ہو جائے۔جس طرح وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اسی طرح موت بھی کسی کا انتظار نہیں  کرتی ۔ نہ جانے آنے والا کونسا لمحہ ہماری زندگی کا آخری لمحہ ہوتو کیوں نہ اس لمحے کو ہی اپنی گرفت میں رکھتے ہوئے آنے والی زندگی کےسفر کے لئے کچھ زادِ سفر حاصل کر لیا جائےاور اپنا مقصدِ حیات پا لیا جائے۔

ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔