(مستنصر حسین تارڑ صاحب کے نام نزرانہ عقیدت)
تمھارے کہے لفظ
منظر بنتے ہیں
آنکھوں کے رستے
دل میں اُترتے ہیں
اور پھر
وہیں بس جاتے ہیں
ان منظروں کی تلاش میں
نہ جانےکتنے قلب
مضطرب رہتے ہیں
اورنہ جانے کتنی روحیں
بے چین رہتی ہیں
ہر لفظ قدم قدم پر
اپنا اک نشان چھوڑ جاتا ہے
جس کی کھوج میں
بے شُمار لوگ
سفر پر نکل کھڑے ہوتے ہیں
ان لفظوں سے پھوٹتی روشنی میں
اپنی منزلوں کا تعین کرتے ہیں
اور جب یہ منطر
اُن کی نگاہوں کو چھوتے ہیں
تو یہ مضطرب قلب اور
یہ بے چین روحیں
وہیں سر بسجود ہو جاتی ہیں
دل شاد ہوتے ہیں اور
اور دعاؤں کے پھول کھلتے ہیں
یارب!
ان لفظوں کو تراشنے والےمحسن کو
عمرِ دراز عطا کر اور
اپنی امان میں رکھ
(آمین)
ثمینہ طارق
آپ کا بلاگ اتفاقاً بذریعہ نورین تبسم دریافت ھوا۔
جواب دیںحذف کریںحیرانی ھوئی کہ پچھلے دو تین سال سے مسلسل لکھنے کے باوجود آپ نہ تو اردو سیارہ پر ہیں اور نہ ہی اردو بلاگرز فیس بک گروپ میں۔
اچھی روانی ہے آپ کے بلاگ میں۔
حذف کریںشکریہ جناب! آپ کو بلاگ کی روانی اچھی لکی ممنون ہوں۔ اردو بلاگرز کو جتنا پڑھا وہاں سیاسی ماحول گرم پایا اور مجھے سیاست میں کچھ دلچسپی نہیں اس لئے جو دل کی بات ہوتی ہے وہی لکھتی ہوں اور گروپس چوئن نہیں کئے۔ مستقبل میں شائد کر لوں مگر صرف وہی جو سیاست سے دور ہو۔ شکریہ سراہنے کا۔