Translate

جمعرات، 18 جون، 2015

تھیلیسیمیا


۸  مئی کو دنیا بھر میں تھیلیسیمیا  سے آگاہی کا دن منایا گیا ۔ اس دن کو منانے کا مقصد تھیلیسیمیا سے متعلق لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں مجھے بچّوں کے کینسر ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا  وہاں بھی تھیلیسیمیا کا ایک الگ وارڈ موجود تھا کیونکہ یہ بیماری بچّوں میں پائی جاتی ہے۔ اس سے آگاہی کے لئے  آگہی (افسانہ)لکھا جو میں یہاں پوسٹ کر چکی ہوں لیکن تھیلیسمیا سے متعلق مکمل معلومات اس مضمون میں لکھنے کی کوشش کروں گی۔ میں سائنس کی کسی فیلڈ سے تعلق نہیں رکھتی اس لئے معلومات جن ویب سائٹ سے لی گئی ہے اُس کے ریفرینس آخر میں درج کردئے جائے گے۔
 تھیلیسمیا کیا ہے؟ کیوں اور کب ہوتا ہے؟ کیسے اور کسے ہوتا ہے؟ اس کی احتیاط اور علاج کیسے ہو؟ اس کے خاندان بھر پر کیا اثرات ہوتے ہیں ؟ ہم اس کی آگاہی کے لئے کیا اقدام اُٹھا سکتے ہیں؟  اور سب سے اہم بات کہ ہم اس سے متاثرہ خاندان کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں۔یہ چند اہم  باتیں ہیں  جسے ذیل میں  جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔


 تھیلیسیمیا کیا ہے؟



تھیلیسیمیا خون کی ایک موروثی جنیاتی بیماری ہے جو والدین کے ذریعے اولاد میں منتقل ہوتی ہیں اور اس کی وجہ سے خون کے سرخ خلیوں کی وافر مقدار میں  ٹوٹ پھوٹ کے باعث خون کی شدید کمی ہو جاتی ہے اور ایسے مریض کو تا حیات خون کی تبدیلی کی ضرورت رہتی ہے اور ہر ۷ سے ۱۰ روز بعد خون لگوانا پرتا ہے۔ ایسے مریض کے جسم میں خون کے سُرخ خلیے بہت کم مقدار میں بنتے ہیں اور  اُس کا ہیموگلوبن بھی ایک نارمل انسان کی بنسبت بہت کم ہوتا ہے ۔ ہیموگلوبن خون کے سُرخ خلیوں  میں پایا جانے والا وہ پروٹین ہے جس کے ذریعے ہمارے جسم کو آکسیجن کی فراہمی ہوتی ہے۔
جنیاتی طور پر تھیلیسیمیا کی دو بنیادی اقسام ہیں :
·       الفا تھیلیسیمیا
·       بیٹا تھیلیسیمیا
الفا تھیلیسیمیا مریضوں  میں ہیموگلوبین کی الفا زنجیر کم بنتی ہےجبکہ بیٹا تھیلیسیمیا مریضوں  میں ہیموگلوبین کی بیٹا زنجیر کم بنتی ہے۔۔ اس طرح خون کی کمی واقع ہوتی ہے۔
جب کہ مرض کی شدت کےحساب سے تھیلیسمیا کی تین بنیادی اقسام ہیں:
·       مائنر تھیلیسیما
·       انٹرمیڈیا تھیلیسیمیا
·       میجر تھیلیسیما
تھیلیسمیا کی شدید ترین قسم " میجر " کہلاتی ہیں، درمیانی کیفیت 'انٹر میڈیا" جبکہ  کم  شدت والی قسم "مائنر " کہلاتی ہیں۔ ایک قسم کا تھیلیسمیا کبھی بھی کسی دوسری قسم میں تبدیل نہیں ہوتا ہے۔

کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟

یہ چونکہ موروثی بیماری ہے اس لئے یہ والدین سےاولاد میں منتقل ہوتی ہیں ۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک بھی تھیلیسیمیا کا مریض ہو تو اُن کے ۵۰٪ بچّے تھیلیسیمیا کا شکار ہونگے جبکہ اگر والدین میں سے کوئی بھی اس بیماری کا شکار نہ ہو تو تمام بچّے اس بیماری سے محفوط ہونگے۔ لیکن اس کا سب سے زیادہ خطرہ اُن بچّوں کو ہیں جن کے دونوں والدین میں یہ مرض پایا جاتا ہے۔ اگر دونوں والدین اس مرض کا شکار ہے تو ان کے ٪۲۵ فیصد بچّے نارمل جبکہ ۵۰٪بچّے تھیلیسیمیا مائنر اور ۲۵٪ بچّے تھیلیسیما میجر کا شکار ہونگے۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک بھی تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہو تو تمام بچّے اس بیماری کا شکار ہونگے اور اگر دونوں ہی والدین اس بیماری کا شکار ہے تو تمام بچّے تھیلیسیما میجر کا شکار ہونگے۔




تھیلیسیمیا مائنر اور میجر کےاثرات:
تھیلیسیمیا مائنر کے مریض کو عام طور پر کوئی شکایت نہیں ہوتی وہ ایک نارمل زندگی بسر کرتے ہیں اور اکثر اُنھیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہو ایک ایسی بیماری کو ساتھ لئے چل رہے ہیں جو اپنی اولاد کو منتقل کر سکتے ہیں۔ اس مرض میں مبتلا حاملہ خواتین خون کی شدید کمی کا شکار ہوتی ہے۔
تھیلیسیمامیجرصرف اُس صورت میں ہوتا ہے جب دونوں والدین اس بیماری کا کسی نہ کسی طرح شکار ہو۔ ایسے بچّے خون کی شدید کمی کا شکار ہوتے ہیں اور اُنھیں ہار دو ہفتے بعد خون کی بوتل چڑھانی پرتی ہےجس کے باعث وہ کمزوری کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری بیماریوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں اور اپنی زندگی  کو نارمل انداز میں نہیں گزار پاتے ہیں جس کے باعث خود اعتمادی سے محروم ہوتے ہیں اور ہر وقت کشمکش کا شکار رہتے ہیں۔ نہ کھیل کود میں حصّہ لے سکتے ہیں نہ ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ عام طور پر اس بیماری میں انسان ۳۰ سے ۴۰ سال کی عمر تک زندہ رہتا ہے لیکن پاکستان میں یہ افراد بمشکل ۱۰ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں۔ اگر تھیلیسیمامیجر کے بالغ افراد شادی کریں تو اُٗن کی تمام اولاد اس مرض کا شکار ہوگی ۔

تھیلیسیما کے مرض کی عام نشانیاں:
·       منہ کی ہڈی کی معزوری
·       تھکاوٹ
·       سست نمو
·       دیر سے بالغ ہونا
·       سانس کی کمی
·       جلد کا یرقان
·       کمزوری
·       پیٹ میں سوجن
·       بھوک کا کم لگنا
·       اعضاء کا بڑا ہونا مثلاً   تلّی ، جگر اور دل
·       ہاتھ پاؤں سرد ہونا
·       ہڈیوں کا کمزور ہونا
·       انفیکشن ہونا

تھیلیسیمیا کی تشخیص:
عام طور پر تھیلیسیمیا کی تشخیص ایک عام سے خون کے ٹیسٹ سے کی جاسکتی ہیں۔ اگر تو اوپر موجود کسی بھی ایک  نشانی کو اپنے بچّوں میں پائے تو فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کیجئے ۔ ڈاکٹر خون کے ٹیسٹ اور ضرورت پرنے پر دوسرے ٹیسٹ بھی کروا سکتے ہیں جس میں تلّی کے بڑھنے کا ٹیسٹ بھی شامل ہے یہ بیماری کی نوعیت اور شدت پر منحصر ہے۔ 

احتیاطی تدابیر:
تھیلیسیمیا میجر چونکہ ایک موروثی بیماری ہے جو کہ والدین سے بچّوں میں منتقل ہوتی ہیں اور اس کا کوئی واضح علاج میسر نہیں ہے بلکہ  یہ ایک جان لیوا بیماری ہےتو بہتر یہ ہے کہ اس کی تشخیص پہلے سے کروالی جائے ۔  اگر تو شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی دونوں اپنے خون کے ٹیسٹ کروالیں تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ تھیلیسمیا کے شکار ہےیا نہیں اگر تو ایک فرد صرف تھیلیسمیا مائنر کا بھی شکار ہے تو اُسے ایسے فرد سے شادی کرنی ہوگی جو کہ اس میں مبتلا نہ ہو تاکہ یہ  مرض اولاد میں منتقل نہ ہو۔ اس کے علاوہ ایسے افراد اپنے خاندان میں شادی سے گریز کریں کیونکہ اسطرح دونوں افراد تھیلیسمیا مائنر بھی ہوئے تو اولاد میجر کا شکار ہوگی۔


علاج:
تھیلیسیما کا علاج اس مرض کی نوعیت اور سختی پر منحصر ہے جو ایک ڈاکٹر مکمل تشخیص کے بعد تجویز کرتا ہے۔
  عام طور پر اس کے علاج میں مندرجہ ذیل جیزیں شامل ہیں:
·       خون کی منتقلی
·       ہڈی کے گودے کی پیوندکاری
·       ادویات
·       تلی اور/یا پتّے  کو ہٹانے کے لیے ممکن سرجری

تھیلیسیما کے اثرات:
·       تھیلیسیما کے مرض میں مبتلا افراد روزانہ کی بنیاد پر موت سے لڑتے رہتے ہیں۔ خون کی منتقلی اُن کو مزید بیماریوں  کا شکار کرتی ہے جس  کے خلاف اُن میں قوتِ مدافعت نہیں ہوتی  ۔
·       اس کے علاوہ کمزوری  کو باعث وہ کسی بھی قسم کی سرگرمی میں حصّہ لینے سے محروم ہوتے ہیں اور اپنی خود اعتمادی اور زندگی سے اعتبار کھو بیٹھتے ہیں۔
·       مریض کے علاوہ خاندان بھر پر بھی اس کے مضر معاشی اور سماجی اثرات ہوتے ہیں۔
·       معاشی طور پر ایسے بچّے کے والدین بہت ہی پریشان کُن حالات کا شکار رہتے ہیں اور ادویات اور خون کی فراہمی کے لئے دوسروں کی مدد کے طالب رہتے ہیں۔
·       اگر تو نوبت سرجری تک آجائے تو پھر والدین کے لئے اور بھی مشکلات کھڑی ہوتی ہیں اور وہ مدد کی تلاش میں رہتے ہیں کیونکہ سرجری بہت مہنگی ہوتی ہیں جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتی۔
·       ہڈیوں کے گودےکی تبدیلی کے لئے کسی نہ کسی بہن یا بھائی کا گودا میسر ہونا ضروری ہے ۔ اس صورت میں وہ بہن یا بھائی بھی سرجری کے عمل سے گزرتا ہے۔ یہ صورتِ حال تمام گھر والوں کے لئے نہ صرف پریشان کن بلکہ مایوس کن بھی ہوتی ہے۔
·       ایسے بچّے کو علاج کے علاوہ بھی مسلسل توجّہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ والدین اپنا زیادہ وقت ایسے بچّوں کے ساتھ گزارتے ہیں جس کے باعث اُس کے دوسرے بہن بھائی عدم توجّہ کا شکار ہو کر نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
·       ایسے خاندان معاشی طور پر غیر مستحکم ہوتے ہیں اور اپنی روزمرّہ کی ضروریات پوری کرنے کے قابل بھی نہیں رہتے ۔


تھیلیسیما کےلئے ہمارا کردار:
ایک تخمینے کے  مطابق پاکستان میں یہ بیماری ۹۰ ہزار افراد میں پائی جاتی ہے۔ ۶ فیصد آبادی میں یہ بیماری بطور تھیلیسیمیا مائنر کے پائی جاتی ہے۔ اس سے بچاؤ کا واحد ذریعہ آگاہی ہے۔ اس کی آگاہی کے سلسلے میں ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ 
·       تھیلیسیمیا سےمتعلق آگاہی مہم میں شامل ہو ۔ اس کے لئے اپنے سوشل میڈیا ٹویٹر ، فیس بک، گوگل پلس اور تمام اپلیکیشنس کا استعمال کریں اور اس کے ٹیسٹ سے متعلق آگاہی فراہم کریں۔
·       سب سے پہلے اپنا ٹیسٹ کروائے اور پھر اپنے گھر والوں ، دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی اس سے متعلق آگاہی فراہم کریں۔
·       تھیلیسمیا کی طرف ہمارا سب سے اہم کام یا کردار خون کا عطیہ ہے۔ چونکہ سائنس اتنی ترقی کے باوجود اب تک خون کا کوئی نعم البدل نہیں مہیا کر پائی ہے اس لئے اس بیماری سے لڑنے والوں کے لئے ہم صرف اپنے خون کا عطیہ دے کر مدد کر سکتے ہیں۔ رمضان مبارک قریب ہے اور ہم اپنے  زکواۃ  کے فرض کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن خون کا عطیہ آپ کے جسم کی زکواۃ ہے جو کبھی بھی دی جاسکتی ہے۔
·       کسی بھی تھیلیسیمیا فاؤنڈیشن کے ممبر بن کر ایک بچّے کو ایڈاپٹ کر سکتے ہیں۔چونکہ ایک انسان ہر تین  ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے تو اگر آپ ۱۲دوست مل کر ایک بچّے کے خون کی ذمہّ داری قبول کر لے تو ایک سال تک اُسے خون دیا جا سکتا ہے۔ 
·       تھیلیسیمیا کے مریضوں کے والدین کی ہر ممکن معاشی اور سماجی مدد میں حصّہ لیا جائے۔ اُن کی معاشی مدد کے ساتھ اُن کے ساتھ تھوڑا وقت گزار ا جائے تاکہ وہ اپنی مشکلات سے لڑنےکے قابل ہو سکے۔
·       تھیلیسیمیا کے مریض بچّوں کی تعلیم کا خرچ  اُٹھایا جا سکتا ہے اور ساتھ اُن کے بھائی بہنوں  کا خرچ کا بھی کسی طرح انتطام کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی اُن کےلئے روزمرّہ کی اشیاء کا انتظام کیا جائے تاکہ  وہ زندگی کی نعمتوں سے محرومی کا شکار نہ ہو۔
·       تھیلیسیمیا کے بچّوں اور اُن کے والدین کے لئے تفریح اور معاشرتی ہم آہنگی کا موقع فراہم کرنا۔




ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

تصاویر: گوگل اور فیس بُک
ریفرینسز :











کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں