Translate

منگل، 11 نومبر، 2014

ماں

بنیادی طور پر ماں کا لفط ایک ایسی ہستی کے لئے استعمال ہوتا ہے جو ہمیں جنم دیتی ہے۔ ماں کا لفظ چاہےکسی بھی زبان میں کسی بھی طرح ادا کیا جائے اُس میں قدرتی مٹھاس اور محبت کا لمس محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جیسےماں ، امّاں ، امّی ، ماما، ممّا ، اُمّی وغیرہ۔ ہر لفط میں شیرینی قدرتی طور پر موجود ہے اور تمام ہی الفاط اسقدر آسانی سے ادا کئے جاسکتے ہیں کہ ایک بچّہ جب بولنا شروع کرتا ہے تو پہلے ماں کو ہی پُکارتا ہے ۔یہ شائد  اس لئے کہ' مم'  صرف ہونٹوں کے جُڑنے سے ہی ادا ہو جاتا ہے اور یہی لفظ بچّے کی ز بان پر سب سے پہلے آتا ہے جو بلآخرممّی یا امّی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
انسان اس دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے جس وجود میں سانس لیتا ہے اور جہاں اُس کی جسمانی اور زہنی تشکیل مکمل ہوتی ہے وہ وجود اُس کی ماں کا ہے۔ایک بچّہ اپنی ماں کے شکم سے اسطرح جُڑا ہوتا ہے کہ اُس کے وجود کی گواہی سب سے پہلے اُس کی ماں ہی دیتی ہے اور وہ ہی ایک ایسی ہستی ہے جو اپنے بچّے کو اُس وقت سے ہی محسوس کرتی ہیں جب وہ صرف ایک خلئے کی صورت اُس کے شکم میں ٹہرتا ہے۔ ماں اور بچّے کے وجود ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں اس لئے جب بچّہ اس دُنیا میں آجاتا ہےتب بھی ماں ہی سب سے پہلے اُس کی تکلیف اور خوشی  کو محسوس کر سکتی ہے۔
یوں تو دونوں ہی والدین اپنی جانب سے بچّوں کی پرورش میں مکمل کردار ادا کرتے ہیں لیکن پھر بھی بچّہ قدرتی طور پر ماں کے قریب ہوتا ہے۔آج کے دور میں بے شک بچّوں کو  آیاؤں اورنرسریوں کے حوالے کر دیا جاتا ہو لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کے بچّہ ماں کے دل سے جدا ہوتا ہے۔ اس دور کی مشکلات کے باعث اکثر مائیں مجبور ہوتی ہے کہ اپنی اولاد کو کسی اور کے حوالے کر کے کام پر جائے مگر وہ ہر لمحہ  اُن کےلئے متفکر رہتی ہیں۔یہ ممکن ہی نہیں کہ ماں اپنے بّچے کی تکلیف کو محسوس نہ کر سکے۔ بچّے چاہے کتنے ہی  بڑے ہو جائے ماں کو وہ ویسے ہی ننھے منے لگتے ہیں جن کو اُنگلی پکڑ کر چلنا سیکھایا، اچھے بُرے کی تمیز سیکھائی ، جن کی بیماری میں رات رات بھر جاگ کر گزاری ۔اسی لئے اکثر مائیں اپنے بچّو ں کو اُس وقت تک ٹوکتی رہتی ہےجب کہ وہ زندگی کے سرد و گرم لمحات میں جینا سیکھ چکے ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ  خود والدین بن چکے ہوتے ہیں۔ ماں ہمیشہ اپنی اولاد کی تکلیف سے خوفزدہ ہ رہتی ہے اور چاہتی ہے کہ اُس کی اولاد کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ۔اکثر بچّے ایسی روک ٹوک سے خفا ہوتے ہیں وہ اُس وقت تک اس محبت کو نہیں سمجھ پاتے ہیں جب تک وہ خود والدین نہ بن جائے اور اپنی اولاد کی  محبت میں خود  اسقدر مبتلا نہ ہوجائے۔
ہر بچّے کی طرح میرا تعلق بھی میری ماں سے بہت گہرا تھا۔ ہم تین بھائی بہن ہیں جن میں میں سب سے بڑی ہونے کے ناطے والدین کے بہت قریب رہی اور نہ صرف قریب بلکہ زندگی کے اچھے بُرے تمام معاملات میں اُن کی ہمراز اور مددگار بھی رہی۔ مجھ سے چھوٹی ایک بہن اور اُس سے چھوٹا ایک بھائی ہے۔ اُن دونوں نے بھی  وقت پرنے پر اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائی اور والدین کا سہارا بنے۔ ہم تینوں بھائی بہنوں میں سے کبھی کسی کو یہ نہ لگا کہ ماں ،بابا کسی ایک سے زیادہ محبت کرتے ہیں یا کسی ایک کو زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ ہمارے والدین نے سب کو اپنی جگہ اہمیت دی اور ایک سی محبت اور شفقت سے نوازا۔ ہم سب بھائی بہن ماں کے زیادہ قریب رہے اور یہ ایک فطری عمل ہے جس کا ذکرمیں اوپر کر چکی ہوں۔ماں کی زندگی میں مجھے کبھی بھی کسی دوست کی ضرورت نہ محسوس ہوئی وہ میری سب سے پہلی اور بہترین دوست تھی۔ زندگی میں کبھی امّی سے کچھ نہیں چھپایا اس کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ وہی تو تھی جس سے سب کچھ شئیر کرنا اچھا لگتا تھا اور ہر مشکل گھڑی میں وہی راہ دکھاتی اور ہر خوشی میں وہی سب سے زیادہ خوش ہوتی تھی۔  جیسا کہ میں اپنے بلاگ..کوئی تنہا نہیں ہوتا...              میں تحریر کر چکی ہوں :

"میری بہترین دوست صرف میری ماں تھی اور وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ بیٹا میں تمہارے  ساتھ ہوں، تم خود کو کبھی تنہا نہیں سمجھنا اور ایسا ہی تھا امی کے ہوتے ہوئے مجھے کبھی کسی دوست کی تمنا نہیں رہی کیونکہ وہ واحد ہستی تھیں جن سے میں نے ہمیشہ بچپن سے لے کر اُس وقت تک جب تک میں خود ماں نہ بن گئی سب کچھ بِلا جھجھک شیئر کیا۔ کوئی دُکھ کوئی خوشی، کوئی پریشانی ایسی نہ تھی جو مجھے امّی سے شیئر کرنے میں جھجھک محسوس ہوتی اور جب امّی کا انتقال ہوا تو اس کے بعد بھی جب میں خود کو تنہا محسوس کرتی تو امی سے باتیں کرتی، گھنٹوں آنکھیں بند کر کے بیٹھی رہتی اور مجھے محسوس ہوتا کہ وہ اب بھی میرے پاس ہیں اور میری ساری باتیں سُن رہی ہیں، مجھے ہمیشہ تسلی رہی کہ میں اکیلی نہیں ہوں۔ اکثر سوچتی ایسا کیوں ہوتا ہے، وہ ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ میرے ساتھ کیوں ہوتی ہیں۔ آج میری بیٹیاں بھی مجھ سے اتنی ہی قریب ہیں، اور کہتی ہیں 'امی آپ ہماری بیسٹ فرینڈ ہیں۔' تو خیال کی پرواز اس بات کو چھوتی ہے کہ ماں ہی ایسی ہستی ہے جو ہم سے سب سے ذیادہ محبت کرتی ہے شاید اِسی لئے وہ ہماری سب سے اچھی دوست ہوتی ہے اور ہمیشہ اُسکی دعاؤں کا سایہ ہم پر رہتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ ظاہر میں بھی ہمارے ساتھ ہوں۔"

میری ماں ایک عظیم ہستی تھی اور صرف میری ہی نہیں ساری مائیں ہی ایسی ہوتی ہیں۔ میری شادی کے فوراً  بعد باباکو کینسر جیسے موزی مرض نے آگھیرا مگر یہ میری ماں کی ہی ہمت اور حوصلہ تھا کہ اُس نہ صرف میرے بابا کی ہمت بندھائے رکھی بلکہ ہم سب بھائی بہنوں کے لئے بھی ایک مضبوط سہارا بن کر رہی۔والد کی وفات کےوقت بھائی بہن بہت چھوٹے ہونے کے باوجود کام کرنے پر مجبور تھے مگر ماں نےکسی لمحے ساتھ نہ چھوڑا  معاشی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی وہ ہمیشہ ایک مضبوط سہارے کی صورت سب کے ساتھ کھڑی رہی ۔ سب کو سہارا دیتے اس نے کبھی بھی اپنا کوئی دُکھ درد ہم سےنہ بانٹا ہمیشہ یہی کہتی کہ میں خوش ہوں تم سب کو خوش دیکھ کر۔ میری بیٹیوں میں تو جیسے اُن کی جان تھی۔ بہت لاڈ اور پیار سے رکھا۔ ہمیں خوشیاں بانٹتی ہوئی وہ نہ جانے کب اور کیسے کینسر کا شکار ہو گئی اور بابا کے انتقال کے چار سال بعد ہی ہم سب کو ڈھیر سارے غم دے کر ہم سے جُدا ہوگئی۔
جب وہ بیمار تھی تو ہم سب اُن کے پاس تھے یہ بھی اللہ کا ہم پر کرم رہا کہ اُس نے ہمیں اپنے والدین کی خدمت کا موقع عطا کیا۔ماں سے جدا ہونا ایک عزاب ہی تو لگتا ہے۔ اس کو یقین میں لانا بہت ہی مشکل ہے کہ اب وہ ہستی ہمارے ساتھ نہیں ہے جس کے وجود کا ہم حصہ رہ چکے ہیں اور جو ہماری رگوں میں زندگی بن کر رہتی تھی۔بابا کی وفات کے بعد ماں کا ساتھ تھا ، جب کبھی بابا کی کمی محسوس ہوتی تو ماں کی مسکراہٹ اور اُس کی محبت اطمینانِ قلب کا باعث بنتی۔ لیکن ماں کے بعد صرف ہم تین بہن بھائی ہی ایکدوسرے کے ساتھ رہے۔کبھی کبھی تو یوں لگتا کہ شفقت اور محبت کا تمام تر کوٹا اللہ نے صرف ماں کی ہستی سے جوڑے رکھا تھا جس کے بعد ہمارے سروں سے دعاؤں کا سایہ اُٹھ گیا۔ لیکن جب جب زندگی میں اچھا وقت دیکھا،اپنے بھائی بہنوں کی خوشیاں دیکھی اور پھر اپنے بچّوں کی ترقی اور خوشی دیکھی تو اس کا یقین پختہ ہوگیا کہ ماں کا سایہ دُعاؤں کی صورت ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ وہ چاہے ہمارے درمیاں ظاہری طور پر موجود ہو یا نہ ہو ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتی ہے اور اسی کی دُعاؤں کی بدولت ہم اس دینا میں سرخرو ہوتے ہیں۔اس طرح ماں کا وجود خُدا کے قریب لانے میں بھی مدگار بن گیا۔ خدا پر یقین بھی اُس یقین سے جُڑا تھا جو ماں کو خُدا پر تھا اور اسی یقین نے ہم تینوں کو بھی ایک دوسرے سےبھی  جُڑے  رہنے پر مجبور کیا۔ ہم میں سے کسی کی زندگی میں کوئی خوشی کا لمحہ ہو یا دُکھ کا ہم ہمیشہ ساتھ ہوتے ہیں ۔ دنیا داری اور مصروفیت ہمارے دلوں کو جُدا کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے اور اس کی وجہ صرف امّی کی محبت ہے جس نے ہم سب کو اپنی دعاؤں کے حصار میں  باندھ رکھا ہے۔
آج ہماری امّی کو ہم سے جُدا ہوئے  ۲۲ سال بیت چُکے ہے لیکن اُن کے ساتھ بیتا ہر لمحہ نظروں میں سمایا ہوا ہے۔ جب کبھی پریشان ہوتی ہوں تو اُن کی خوشبواپنے اردگرد محسوس ہونے لگتی ہے اور آنکھ میں آئے آنسو مسکراہٹ میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ آج بھی اکشر رات کو نیند میں اپنے ماتھے پر اُن کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے آنکھ کھل جاتی ہے اور پھر گھنٹوں میں اُن سے باتیں کرتی ہوں۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اس کیفیت میں اگر کوئی مجھے دیکھے تو شاید پاگل ہی سمجھے مگر میرے سب اپنےجانتے ہیں کہ میری ماں جسمانی طور سے میرے ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی میرے پاس ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
دعا:
رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا ۾ (بنی اسرائیل۔۲۴)
ترجمہ: اے میرے پروردگار! جس طرح میرے والدین نے مجھے چھوٹے سے کو پالا ہے اور (میرے حال پر رحم کرتے رہے ہیں) اس طرح تو بھی ان پر (اپنا) رحم کر۔ آمین!
بلاگ پڑھنے والے تمام لوگوں سے  اپنےوالدین کی مغفرت کے لئے دعاؤں کی طلبگار
 ثمینہ طارق

جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔




4 تبصرے:

  1. "ماں" محض ایک رشتہ ہی نہیں ایک مکمل احساس ہے جس کی آپ نے لفظ کی صورت بہت خوبی سے ترجمانی کی۔
    ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اور ہماری آنے والی نسلوں کو ہمارے لیے قابل فخر بنائے۔
    (اس سے زیادہ کچھ کہنے کی تاب نہیں۔ آنسو لفظ میں کسی صورت ڈھل نہیں سکتے چاہے جتنی مرضی کوشش کر لیں۔) نماز کی دعا آپ کے لیے ہم سب کے لیے۔۔۔

    رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ
    اے رب میرے کر مجھ کو کہ قائم رکھوں نماز اور میری اولاد میں سے بھی اے رب میرے اور قبول کر میری دعا ۔
    اے ہمارے رب بخش مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور سب ایمان والوں کو جس دن قائم ہو حساب۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت خوبصورت تحریر . . . یہ تعلق ہی ایسا ہے کہ الفاظ قاصر رہتے ہیں اس کو بیان کرنے میں

    جواب دیںحذف کریں