Translate

اتوار، 5 اکتوبر، 2014

آپ کیسے لکھتے ہیں؟


جی جناب آپ کیسے لکھتے ہیں؟ یہ سوال ہے  اُن تمام لکھاریوں سے جو لفظوں کے کھلاڑی ہیں اور اس کھیل میں مہارت رکھتے ہیں۔ نہیں جی ہم نے یہ بلکل نہیں پوچھا کہ اپ دائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں یا بائیں سے، کاپی میں لکھتے ہیں یا کاغذ کے ٹکڑوں پر، قلم کونسا استعمال کرتے ہیں اور کسطرح یعنی کہ آپ قلم کو قلم کی طرح استعمال کرتے ہیں یا چھُڑی کانٹوں کی طرح پکڑتے ہیں۔ صفحات کو کالا کرتے ہیں یا  نیلا ، پیلا، ہرا، سرخ  یا پھر کوئی اور منفرد رنگ دیتے ہیں اپنی تحریر کو جو اسے منفرد بنادے۔

سوال پھر اپنی جگہ کھڑا ہے کہ آپ کیسے لکھتے ہیں؟ کہیں آپ کاغذ  اور قلم کےروایتی انداز کو ترک کرکے آگےتو نہیں  نکل چکے ہیں کہ شائد اب لفظوں کے اس کھیل میں ان کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ کہیں آپ اپنی تحریروں کے لئے کی بورڈ اور کمپوٹر اسکرین کا استعمال تو نہیں کرتے ہیں؟ چلے یوں ہی سہی کہ یہ نیا دور ہے اور اب پرانی چیزوں کی وقعت نہیں رہی مگر کیا آپ اپنی عزیز ترین تحریروں  کے پرنٹ آؤٹ نکال کر اپنے پاس سنبھال کر رکھتے ہیں یا  صرف ٹیکنالوجی پر بھروسہ کئے بیٹھے ہیں؟ جناب اگر ایسا ہے تو کہیں کسی دن آپ کی یہ مشین آپ کے ساتھ ویسا ہی دھوکا نہ کرے جیسا ہمارے ساتھ کر چکی ہے اور  آپ کی تمام جان سے پیاری تخلیقات کا ماتم نہ کروالیں  آپ سے۔ تو سوچئے زرا !

تو جناب آپ کیسے لکھتے ؟ ہیں کیونکہ ہمارے خیال میں لفظوں  کو جملوں میں ڈھال کر تحریر  کی صورت دینا ایک تخلیقی عمل ہے اور ایک لکھاری چاہے وہ  لفظوں کا کھلاڑی ہی کیوں نہ ہو اپنی ہر تخلیق کو اپنے وجود کا حصّہ سمجھتا ہے اور اُس کو وجود میں لاتے ہوئے اُسی کرب سے گزرتا ہے جس سے ایک ماں اپنے بچّے کو جنم دیتے ہوئے گزرتی ہے۔ (کچھ اپنا تجربہ بھی رہا اور کچھ آج کل پڑھے جانے والے افسانوں کا بھی اثر رہا )  J
تو جناب اس تخلیق کو وجود میں لانے کے لئے آپ کیا انتظام کرتے ہیں ؟ آپ کسطرح لکھتے ہیں؟

چلئے اپنا طریقہ آپ کے گوش گزار کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی کسی بھی موضوع کو باقاعدہ سوچ کر کبھی لکھنے کی کوشش نہیں کی  بلکہ جب کبھی کوئی خیال ذہن میں وارد ہوا  اُسے قلم کی مدد سے کاغذکے سپرد کر دیا ۔ بیشک وہ کاغذ کا کوئی فالتو سا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو یا اخبار کا کوئی ٹکڑا جس میں تھوری سی جگہ مل جائے لکھنے کی۔ قلم کی تلاش کبھی دشواری نہ بنی کیونکہ اکثر وہ ہمیں اپنے بالوں ہی میں دستیاب ہو جاتا ہے ۔ ایک اُستاد جو ٹہرے۔ تو جناب جب کبھی فرصت میسر آتی ان ٹکڑوں میں لکھی تحریروں کو ڈائری کی نظر کر دیا جاتا  مگر وہ کبھی جوں کا توں نہ اُترا۔ کبھی ہاتھ لمبے ہوگئے تو کبھی پاؤں چھوٹے ، کبھی ناک کٹ گئی تو کبھی کان غائب ہو گئے۔خیر یہ طریقہ اسکول اور کالج کے زمانےمیں تو بہت کام آیا تقریری اور تحریری مقابلوں میں حصّہ لیتے تو ان تحریروں میں سے اچھا خاصہ مواد حاصل ہو جاتا اور ہم با آسانی اپنا مضمون مکمل کر لیتے۔

خیر یہ تو طالبِ علمی کا دور تھا لیکن جیسے ہی عملی زندگی میں قدم رکھا تو  ہمیں خیر خبر ہوگئی کہ کچن میں کام کرتے ہوئے ، روتے ہوئے بچّوں کو مناتے ہوئے ، کپڑے دھوتے یا جھاڑ پونچھ کرتے ہوئے  جو  خیالات بلا اجازت وارد ہوتے رہتے ہیں اُنہیں کاغذ کے سپرد کرنا آسان کام نہیں اور جب تک ہم کاغذاور قلم کی تلاش میں کامیاب ہوتے تب تک وہ نوادرات ہماری بے رخی پا کر  یکلخت  ایسے غائب ہوتے جیسے گدھے کے سر سے سنگھ اور پھر کتنی ہی زور آزمائی کیوں نہ کر لیں  وہ مان کر ہی نہ دیتے۔ آخر کار ہم نے ایک رف پیڈ اور ایک قلم اپنے ساتھ رکھنا شروع کردی جہاں  جاتے ساتھ لے جاتے اور پھر لوگوں کی قہر آلود نگاہوں کا نشانہ بنتے رہتے اور ایک وقت ایسا بھی آیا سب چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ گئے اب ہماری بے رخی کے باعث لفظوں نے ہمارے خیالات کا ساتھ دینا  ترک کردیا تھا۔

تو جناب یہ تو تھا ہمارا لکھنے لکھانےکا طریقہ جس نےہمیں اکثر رسوا کیا کیونکہ ادب کی کئی اصناف میں مسلسل مشق ایک لازمی جزو ہے جس سے ہم  جی چراتے رہے مثلاً شاعری کی تو غزل لکھنے کا شوق چرایا ، لکھی بھی اور اصلاح بھی کروائی لیکن جاری نہ رکھ سکے اور آخر کار نظم لکھنے پر ہی اکتفا کیا۔ اسی طرح  آج کل افسانہ لکھنے کا شوق چرایا ہے لیکن اس کے اسلوب سے بھی نا واقف ٹہرے سو شائد یہ بھی چند روزہ شوق ہے اور ہم پھر سے اپنے مضامین کی طر ف راغب ہو جائے گے۔ ہمیں تو فقط اپنے اردگرد بکھرے درد کو تحریر کرنا ہے اور اس کے لئے ہماری کہانیاں ، مضامین اور بلاگ ہی بھلے۔ فقط اپنے حصّے کا کاغذ تو بھرتے چلے۔

جی جناب ہمارےخیال میں ہر وہ شخص جسے خدا نے قلم کی طاقت عطا کی ہے اُسے اس کا حق ادا کرنا چاہئے اور اپنے خیالات کو  لفظوں کی ڈور میں ضرور باندھنا چاہئے ۔ کچھ بھی لکھئے اپنے اردگرد بکھرے واقعات لکھئے ، درد لکھئے، آنسو لکھئے، خوشی لکھئے، خوشبو لکھئے ۔ کچھ نہیں تو اپنی ڈائری لکھئے جس میں دفتر کا کام لکھے یا کچن کا کام مگر لکھئے ضرور۔ لکھے اور لکھتے رہئے اور نہ صرف لکھئے بلکہ لوگوں سے شیئر بھی کیجئے لکھنے کو کوئی فورم میسر نہیں تو اپنا بلاگ بنایئے اور اس پر وہ سب لکھئے جو آپ کا دل کرے لیکن خیال رہے کہ ایسا کچھ نہ لکھے کہ دلوں میں قدورتیں اور نفرتیں جنم لیں۔ محبت لکھئے ، محبت بانٹیں اور محبت کیجئے۔ پہلے اپنے آپ سے اور پھر اپنے اطراف میں رہنے والوں سے اور دیکھے یہ محبّت آپ کے لئے ایک ایسا در کھول دے گی جس میں داخل ہو کروہ کچھ مل جاتا ہے کہ پھر کسی کی تلاش نہیں رہتی ہے۔ جی جناب یہ در ہے ربِّ کریم کی محبّت کا در ۔ اُسے دوست بنا لیں پھر کسی دوست کی ضرورت نہیں رہتی۔
تو جناب! اب تو بتایئے آپ کیسے لکھتے ہیں ؟  J

ثمینہ طارق


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں