صفحات

منگل، 30 دسمبر، 2014

دوست حصّہ سوئم : مخلص دوست بنئے

محبت کی اس مہک سے فضاء کو معطر کرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اپنی ذات سے باہر نکل کر بھی دوستی کی جائے۔ اپنے آپ سے محبت اور دوستی کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اپنی ذات  میں قید ہوجائے۔ اپنے آپ پر اعتماد قائم کرتے ہوئے جب ہم اپنی خامیوں اور خوبیوں کا ادراک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اپنے لئے دوست منتخب کرنا آسان ہوتا ہے اور جب یہ دوستی پھول بن کر کھلتی ہے تو اس کی خوشبو سے فضاء معطر ہو جاتی ہے اور اپنے اطراف کے تمام لوگوں کودوستی کے رشتے میں مقید کر لیتی ہے ۔

دوست بنانے کا عمل تو بہت چھوٹی سی عمر سے ہی شروع ہو جاتا ہے جیسے کہ پہلے تحریر کر چکی ہوں کہ انسان کا پہلا دوست اُس کے گھر کا ہی کوئی فرد ہوتا ہے۔ ماں، باپ، بہن  بھائی یا پھر کوئی کزن وغیرہ۔ لیکن جیسے ہی بچّہ اسکول میں داخل ہوتا ہے وہ بہت سے دوست بناتا ہے لیکن اُس وقت دوستی کے اس عمل پر نہ ہی اُس کا اختیار ہوتا ہے اور نہ ہی اُسے اس سے کی کوئی غرض وابستہ ہوتی ہے۔ یہ ایک غیر اختیاری عمل ہوتا ہے جو کہ بس عمل پزیر ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ دور معصومیت اور شفافیت لئے ہوئے ایک بے غرض دوستی قائم کرتا ہے جو عموماً ً وقتی ہوتی ہے لیکن اکژلمبی اور پائدار دوستی کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے جس کا احساس ہمیں کافی عرصے بعد ہوتا ہے۔

پھر جیسے جیسے عمر کے گوشوارے میں برس آگے بڑھتےہیں یا کم ہوتے ہیں ہمارے لئے دوستوں کا انتخاب اکژ ہمارے والدین یا بزرگ کرتے ہیں۔ "اس سے دوستی رکھو یہ اچھا ہے۔ اس سے بات نہ کرو ، اُس کے ساتھ نہ جاؤ وہ اچھا بچّہ نہیں ہے۔" ایسے کئی جملے ہماری سماعت سے نہ صرف ٹکراتے ہیں بلکہ ہم ان پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں یہی تربیت دی جاتی ہے کہ بڑے ہمارا بھلا ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ ایسے وقت میں دوستی میں مفادات شامل ہونا شروع ہوجاتے ہیں  اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اُن لوگوں کے قریب ہوتے جاتے ہیں جو ہمیں کسی نہ کسی طرح مددگار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بچّے کو مجبور کی جاتا ہے کہ اپنے ایک ایسے ہم جماعت سے دوستی رکھی جائے جو گھر سے قریب رہتا ہے تاکہ اسکول کی چھُٹی کرنے پر اُس سے گھر کا کام لیا جاسکے پھر چاہے اُس کا مزاج ہم سے ملتا ہو یا نہ ملتا ہو ، ہم میں اور اُس میں چاہے کوئی بھی قدر مشترک نہ ہو اور بے شک ہمیں اُس سے بات کرنے میں بھی کوفت محسوس ہوتی ہو لیکن اُس سے دوستی بنائے رکھنے پر مجبور ہونا ہمارے لئے اہم قرار پاتا ہے اور یہیں سے ایک بچّہ دوستی میں مفاد تلاش کرنے کی ابتداء کرتا ہے جو کہ آئندہ زندگی میں یا تو شعور کی منزل پر پہنچ کر تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے یا پھر  اُسے مفاد پرست بنانےمیں بنیادی ستون بن جاتا ہے۔

عمر کا ایک دور ایسا بھی آتا ہے جب ہم دوستی صرف اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور اس میں صرف اور صرف ہمارے جزبات کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اپنے ساتھ چلنے والا ہر شخص مخلص محسوس ہوتا ہے اور ہم اُس پر اپنی محبتوں کو نچھاور کرتے جاتے ہیں۔ اس دور میں ہم اپنے دوستوں کو اپنا بہترین رازداں سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو ان پر اس طرح منکشف کر دیتے ہیں کہ وہ جب کبھی چاہے ہمارے راز کو ہتھیار بنا کر ہم سے اپنا کوئی بھی مفاد حاصل کر لیتے ہیں جس کے باعث لوگوں پر اور دوستی پر سے ہمارا اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر تو ہمیں اس دور میں واقع کوئی مخلص دوست میسر آجائے تو پھر ہم سا خوش قسمت کوئی نہیں ہو سکتا ہے اور ایسی دوستی پھر تاحیات قائم رہتی ہیں اور وفا، محبت اور قدردانی کے ایسی مثال قائم ہوتی ہے کہ کوئی اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتا ہے۔

دوستی کے یہ تمام ادوار زیادہ تر ہماری طالبِ علمی کے دور کےہوتے ہیں اور اس دور میں یا تو ہم کچھ ایسے دوست حاصل کر لیتے ہیں جو ہماری پیشہ ورانہ زندگی میں بھی ہمارے ساتھی ہوتے ہیں اور ہم اُن پر مکمل اعتبار کر سکتے ہیں یا پھر دوستی سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے اور پھر ہم دوست بنانے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ جیسے ہی ہم پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہوتے ہیں ہمارے اردگرد بہت سے انجان لوگوں کا جھمگٹا سا بن جاتا ہے اور ہم اُن میں اپنے ہم مزاج لوگوں سے قریب ہوتے جاتے ہیں۔ اکثر ہم اپنے روز مرّہ کے ملنے جلنے والے لوگوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتے ہیں اور اُن سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں یہ جانے بغیر کے کیا اُن کی زندگی میں بھی ہماری وہی اہمیت یا مقام ہے جو ہمارے دل یا زندگی میں اُن کے لئے ہے یا پھر ہم اُن کے لئے فقط ساتھ کام  کرنے والے کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے وہ ہم سے مخلص ہے اور اُس کا رویّہ ہمارے لئے محبت لئے ہوئے ہیں۔ ایسے وقت میں نہ صرف ہم اپنی ذات کو نقصان پہنچاتے ہیں اور تکلیف اور درد سے گزرتے ہیں بلکہ اُس مخلص شخص پر شک کر کے اس کی حیات کو بھی پریشان کُن بنا دیتے ہیں۔
غرض ہم اپنی زندگی میں بے شمار دوست بناتے ہیں چاہے پھر وہ ہماری کسی مجبوری یا مفاد کے باعث بنے ہو یا پھر ہماری محبت اور ایمانداری سے دوستی ہوئی ہو۔ چاہے وہ ہماری زندگی میں کچھ روز، ماہ یا چند سال کے لئے ٹہرے ہو یا پھر مسلسل ہماری حیات کا حصّہ بن چکے ہو۔ چاہے وہ ہماری طالبِ علمی کے دور سے تعلق رکھتے ہو یا پھر پیشہ ورانہ زندگی سے۔چاہے وہ ہمارے لئے صرف ایک دوست ہو یا پھر ہمارے عزیز ترین رشتوں کی طرح ہمارے لئےاہم ہو یعنی ہمارے بھائی ،بہن یا اولاد  کی طرح ہمیں عزیز ہو۔ وہ ہماری زندگی سے اس قدر قریب ہو کہ اُن کی زندگی میں آنا والا ہر دکھ اور سکھ ہمارے لئے اپنے دکھ اور سکھ کے برابر ہو یا پھر وہ اُن لوگوں میں شامل ہو جن کی زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہمیں کوئی غرض نہ ہو۔
اگر تو ہم اپنے آپ کے دوست ہے تو پھر ان دوستوں کا زندگی میں آنا اور جانا  ہماری زندگیوں کو کبھی بھی اسطرح متاثر نہ کر سکے گا کہ ہم اپنے آپ کو تکلیف اور دُکھ میں ڈال دے بلکہ ہم اپنی ذات کو ہمیشہ ہر قدم پر سب سے زیادہ اہمیت دے گے اور اس بات کا یقین رکھے گے کہ لوگوں کا ہماری زندگی میں آنا اور جانا کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہوتا ہے اور ان کے آنے اور جانے کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اس لئے اسے کھُلے دل سے قبول کرنا چاہے اور اپنی ذات کی نفی کر کے اُن کےبچھڑنے کے دکھ میں  مبتلا نہ ہونا چاہے۔ اگر تو ہم خوش ہیں تو ہمارے آس پاس کا سارا ماحول خوشگوار ہوگا اور ہم اپنی خوشی سے اپنے اطراف میں رہنے والوں کے دلوں کو بھی خوشی سے منور کر سکے گے۔
کوئی بھی انسان کامل نہیں ہو سکتا ہے اس  لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ سے دوستی کرتے ہوئے لوگوں سے دوستی کے بندھن میں بندھا جائے اور کسی سے  ایسی توقعات وابستہ نہ کی جائے جس کا پورا نہ ہونے کی صورت میں ہم اپنے آپ کو ہی کھو بیٹھے۔کوشش کی جائے کے اپنی جانب سے لوگوں کو ایک ایسا دوست میسر کیا جائے جس کی ہمیں خود اپنے لئے تلاش یا ضرورت ہے۔جو ہمارے لئے اہم ہو۔ اگر تو خود اپنی ذات کو مفادات سے بالا تر کر کے دوستی کے رشتے میں باندھا جائے تو یقیناً ہمیں بھی ایسے ہی دوست ضرور میسر آئے گے جو مفادات سے بالاتر ہوکر ہم سے دوستی نبھائے گے۔

ثمینہ طارق

 (جاری ہے)

حصّہ اوّل
حصّہ دوئم
حصّہ چہارم



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

جمعرات، 11 دسمبر، 2014

یادیں ـــــ میرے بابا کے نام


مجھے بلاگ لکھتے تقریباً دیڑھ سال ہونے آئے لیکن شائد یہ میرا پہلا بلاگ ہے جو میں کسی کاپی پیسٹ کے بغیر دائریکٹ بلاگ پر لکھ رہی ہوں اور اپنے پڑھنے والوں سے مخاطب ہو کر لکھ رہی ہوں لیکن پھر بھی اسے آج کی تاریخ میں پوسٹ نہ کر سکوں گی۔ کیونکہ اسے لکھنے کا وقت اُس وقت میسر آیا جب کہ آج کا دن بس گزرا جاتا ہے۔ آج یعنی ۱۰ دسمبر ۲۰۱۴ کو میرے والد کی ۲۶ ویں برسی ہے۔ سارا دن اس قدر مصروفیت میں گزرا کہ لیپ ٹاپ کھولنے کا وقت ہی نہ مل سکا۔ وقت لگتا ہے جیسے پر لگا کر اُڑ جاتا ہے ہم کتنی ہی کوشش کر لے اسے ہاتھ میں نہیں تھام سکتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بھول بھی جاتے ہیں لیکن والدین کبھی نہیں بھولتے۔ جتنی بھی مصروفیت رہی لمحہ بھر بھی اُن کا خیال دل سے جُدا نہ ہوا اور مسلسل اُنہیں یاد کرتی رہی بہت کچھ یاد آیا کچھ یادیں میرے لفظوں کو پڑھنے والوں کی نظر۔
بچپن ہی سے والدہ کے زیادہ قریب رہی لیکن پہلی اولاد ہونے کے ناطے والد کا لاڈ اور پیار بھی اسقدر ملا کہ ممکن ہی نہیں کی اُن لمحات کو بھولا جا سکے۔اپنی حیشیت کے مطابق اُنہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مجھے کبھی کسی کمی کا سامنا نہ کرنا پرے۔ کوشش کرتے کے نہ صرف میری بلکہ ہم تینوں بھائی بہنوں کی خواہشات کو پورا کرتے اس کے لئے  مسلسل اوور ٹائم کرتے لیکن جب رات گئے گھر آتے تو ہماری چھوٹی چھوٹی فرمائشوں کو کبھی نہ بھولتے اور جس نے جو مانگا ہوتا وہ ضرور لاتے۔پھر وہ ہمارا پسندیدہ بسکٹ ہو یا ٹافی یا کھیل کے لئے کوئی بال ہو یا لٹو۔
کھیل سے یاد آیا وہ ہمارے ساتھ ہر کھیل میں شریک ہوتے۔ چھوٹے سے اپارٹمنٹ کا چھوٹا سا برامدہ ہمارے کھیل کا میدان ہوتا اور وہاں ہم ہر قسم کے کھیل کھیلتے اور اکشر تو سارا گھر ہی کھیل کا میدان بنا ہوتا جس میں ماں بابا دونوں شامل ہوتے۔ کرکٹ، بیڈمنٹن، لٹو چلانا،  رسی کودنا، چھپن چھپائی ہمارے ہفتہ وار کھیل میں شامل تھے جو چھُٹی کے دن کھیلے جاتے تھے جبکہ لُڈو، چوڑ پولیس اور نام چیز جگہ ہمارے معمول کے کھیل ہوا کرتے تھے جو تقریباً ہر روز رات کو کھانا کھانے کے بعد کھیلے جاتے تھے۔ ایک اور کھیل جو مجھے بہت خوب یاد ہے جب میں اور میری بہن بہت چھوٹے ہوا کرتے تھے تو وہ دونوں کو ایک ساتھ اپنے کندھوں پر بٹھا کر گھومتے تھے تاکہ ہم امّی کو روٹی بناتے ہوئے تنگ نہ کریں اور وہ جلد فارغ ہو جائے۔ اس وقت راشن میں گھی اور تیل ملا کرتا تھا اور بہت لمبی لائنوں میں کھڑا رہنا پرتا تھا۔ ایک دن ایسے ہی کسی کو ڈبہ کندھے پر اُٹھائے دیکھا تو پھر جب بھی بابا ہم میں سے کسی کو کندھے پر بٹھاتے تو میں فوراً شور مچاتی گھی لے لو بھائی گھی لے لو۔ وہ شانا نہیں بھولتا ۔ اُٗس کا لمس نہیں بھولتا ۔ والدین کا پیار کبھی نہیں بھلایا جا سکتا ممکن ہی نہیں۔
کتابیں پڑھنے کا شوق چڑھا تو کتابیں خریدنے کی تو سکت نہ تھی لیکن پھر بھی جب اتوار کو اوور ٹائم کے لئے جاتے تو پُرانی کتابوں کی نہ جانے کونسی مارکیٹ سے ڈھیر ساری کتابیں جن میں نونہال، بچّوں کی دنیا اور تعلیم و تربیت کے علاوہ میگزین بھی ہوا کرتے تھے جنہیں میں اگلے اتوار تک ختم کرنے کی کوشش کرتی۔ پھر اپنے دوست کے بک شاپ سے رات کو اشتیاق احمد کا ناول لاتے جو ہر ویک اینڈ پر آتا اور صبح سویرے اُنہیں واپس کرنا ہوتا اور میں اور اُن کے دوست کی بیٹی جو میری بہت ہی گہری دوست تھی، مل کر رات بھر میں پڑھتے۔ روزانہ رات کو ریڈیو پر چترہال لگا کر بابا کے ساتھ بیٹھ کر کھیلتے ہوئے گانے سننا اور پھر جب ریڈیو گرام آیا تو ریکارڈ لگا کر اس کو سوئی کے نیچے مسلسل چلتے ہوئے حیرت سے تکتے ہوئے اپنی بے سُری آوازوں میں گانا بھی ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
کبھی کھانے کے معاملے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی امّی کو وہ ہر وہ چیز شوق سے کھاتے جو امّی پکاتی۔یہی وجہ تھی کہ ہم تینوں بھائی بہنوں کو بھی سب کچھ کھانے کی عادت پر گئی اور کوئی بھی چیز کھانے میں کوئی پریشانی نہ ہوئی دال، سبزی ہو یا گوشت۔ ہر ممکن کوشش کرتے کے کم از کم اتوار کا ناشتہ سب کا اپنی پسند کا ہو۔ میرےاور بھائی کے لئے خاص کر کے انڈے اور ڈبل روٹی آتے جب کہ بہن کو مکھن اور سلائس پسند تھا تو اُس کے مکھن سلائس ضرور آتا اور ماں بابا وہی گھر کی روٹی اور چائی کا ناشتہ کرتے۔ اُس وقت تو شائد ہمیں کبھی اس کا احساس نہ ہوا لیکن اب جیسے جیسے یاد آتا ہےتو محسوس ہوتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں پھر وہ چاہے بابا کا مسلسل اوور ٹائم کرنا ہو یا امّی کا سارا دن مشین چلانا، کپڑے سینا۔
کیا کیا یاد کیا جائے۔ بیٹیاں تو یوں بھی بہت جلد جدا ہو جاتی ہے والدین سے تو ہم بھی ہوئے اور اپنی رخصتی پر بابا کی آنکھوں کے آنسو تاحیات ساتھ رہے گے۔جب  اپنی بیٹی کو رخصت کر رہی تھی اور اپنے شوہر کی آنکھوں میں آئے آنسو دیکھے تو ایک چہرہ میری نگاہوں میں گھوم گیا اور وہ چہرہ کوئی اور نہیں بابا کا تھا۔ بیشک وہ دینا میں موجود نہیں مگر ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں۔ بیٹی کو جنم دیا تو بہت خوشی تھی ۔ پہلی اولاد تھی لیکن مجھ سے زیادہ خوشی بابا کو تھی اور وہ شائد اُسے دیکھنے کے لئے ہی زندہ تھے کیونکہ ڈاکٹر اُن کی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے۔ اُنہیں کینسر تھا۔ میری بیٹی کو سارا وقت اپنے پاس لٹائے رکھتے ۔ بول نہیں سکتے تھے لیکن اُن کی آنکھوں سے اُن کی خوشی جھلکتی تھی اور جب بیٹی ۲۵ دن کی تھی تو وہ ہمیں ہمیشہ کےلئے چھوڑ کر چلے گئے ۔ مگر ان ۲۵ دنوں میں لمحہ بھر بھی اُسے اپنے سے جُدا نہ ہونے دیا۔

آج اُن کے انتقال کو ۲۶ برس گزر چکے ہیں ۔ یادیں تو کبھی ختم نہ ہوگی۔ وقت گزر جاتا ہے اور زندگی بھی۔ شائد کسی روز ہم بھی ایسے ہی گزر جائے گے۔مگر یادیں رہ جائے گی۔ ہمیشہ کے لئے۔ دو سال قبل لکھی ایک نظم بابا کے نام۔
یادیں
دسمبر جب بھی آتا ہے
بہت تڑپاتا ہے
مجھ کو میرا بچپن
بہت یاد آتا ہے
جب کبھی مجھ کو
 میرا بچپن یاد آتا ہے
 جی بھر کے رونے کو پھر
 میرا دل چاہتا ہے
 جس کی چھاؤں میں
 بسر ہوئی زندگی میری
 اُس درخت کا مضبوط تنّا
 بہت یاد آتا ہے
 جب بھی مجھ کو
 میرا بچپن یاد آتا ہے
 مجھ کو میرے بابا کا
 مضبوط شانا
 بہت یاد آتا ہے
 دسمبر جب بھی آتا ہے
 بہت تڑپاتا ہے



دعا:
رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا ۾ (بنی اسرائیل۔۲۴)
ترجمہ: اے میرے پروردگار! جس طرح میرے والدین نے مجھے چھوٹے سے کو پالا ہے اور (میرے حال پر رحم کرتے رہے ہیں) اس طرح تو بھی ان پر (اپنا) رحم کر۔ آمین!
بلاگ پڑھنے والے تمام لوگوں سے  اپنےوالدین کی مغفرت کے لئے دعاؤں کی طلبگار

ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

پیر، 8 دسمبر، 2014

دوست حصّہ دوئم : اپنے آپ سے دوستی و محبت




سب سے پہلے اپنے آپ سے دوستی کیجئے کیونکہ اپنے آپ سے دوستی نہ صرف  آپ کے دل میں زندگی سے محبت  پیدا کرتی ہے بلکہ آپ کو اپنی زندگی کا مقصد بھی فراہم کرتی ہیں اور اپنے آپ پر اعتماد بھی قائم ہوتا ہے۔  شک کسی سے بھی نفرت کی پہلی وجہ ہے جو دکھ کا باعث بنتا ہے جب کہ اعتماد محبت کی طرف پہلا قدم ہے جو کسی کو بھی خوشی کشیدنے میں مدد کرتا ہے۔

۱۹۵۶ میں ایک ماہر نفسیات اور سماجی مفکر ایرک فروم  نے اپنے آپ سے محبت کے مفہوم کو اس طرح واضح کیا کہ " اپنے آپ سے محبت کرنا مغرور، متکبر یا انا پرست ہونے سے بلکل مختلف ہے۔ اپنے آپ سے محبت کرنے کے معنی ہیں کہ انسان جسمانی اور زہنی دونوں لحاظ سےاپنا خیال رکھے، اپنی ذمّہ داریوں سے بہتر انداز میں عہدہ برا ہو، اپنی عزت آپ کرنا سیکھے، اپنے آپ کو جانے مثلاً اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کو سچائی اور ایمانداری سے قبول کرے۔ ایک انسان کا کسی دوسرے انسان سے محبت کرنے کے لئے پہلے اپنے آپ سےاُسی شدت اور انداز میں  محبت کرنا نہایت ضروری ہے۔"

اپنے آپ سے دوستی کرنے کے معنی ہے اپنے آپ سے محبت کرنا۔ اپنے آپ سے محبت کرنے کے معنی ہرگز یہ نہیں کہ انسان صرف اپنی ذات سے متعلق مفاد سے وابستہ رہے۔ اپنے آپ سے دوستی کے معنی ہے کہ اپنے جسم، جان ، ضروریات اور صحت کا خاص خیال رکھا جائے۔ اگر تو ہم اس قابل ہی نہ رہے کہ اپنی ضروریات کو وقت پر پورا کر سکے یا اپنی صحت کا خیال نہ رکھے اور ہمیشہ بیمار رہے ، یا اپنی جسمانی ضروریات کو پسِ پُشت ڈال کر اپنی صحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دنیا کے کاموں میں مصروف رہے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنے تمام کاموں کو بخوبی نباہ پائے گے کیونکہ اگر تو اپنی جسمانی ضروریات کا خیال نہ رکھا جائے تو ہماری صحت خراب ہو گی اور ہم اکثر و بیشتر بیمار رہے گے جس کے باعث ہم کسی طور اپنی معاشرتی ذمّہ داریوں کو بہتر ین انداز میں نبھانے کے قابل نہ ہوپائے گے۔

اگر تو ہم اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام نہ دے پائے تو پھر ہمارا اپنے آپ پر سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے اور ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہم اس قابل نہیں ہے کہ کسی کے کام آسکے یا کسی کے لئے کچھ کر سکے۔ اس طرح ہم  اپنے اندر ایک خلا پیدا کرتے چلے جاتے ہیں اور اُس کے اندر مسلسل اُترے چلے جاتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو کوسنے لگتے ہیں اور خود اپنی ذات سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اپنی عزت اپنی ہی نگاہوں میں گنوا بیٹھتے ہیں۔ ایک بار اگر نفرت کا بیج بو دیا جائے تو پھر اسے تناور درخت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے اور ہم نا محسوس طریقے سے اپنی ذات سے بددل ہو کر اپنے  ہی خلاف  اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

جب انسان اپنے آپ سے نفرت میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پھر اُسے اپنےاندر چھپی اچھائیاں بھی نظر نہیں آتی ہیں اور نہ ہی وہ اپنی خامیوں کو پہچان سکتا ہے۔ اُس وقت وہ صرف اس زعم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ میں جو کر رہا ہوں وہی دُرست ہے اور اس طرح وہ  نہ صرف بہت سے غلط فیصلے کر بیٹھتا ہے بلکہ بہت سے لوگوں کے دل تور کر اُنہیں ناراض بھی کر دیتا ہے۔ جب تک ہم اپنی خوبیوں سے واقف نہ ہو ہم نہ ہی اپنے لئے کوئی مفید کام سر انجام دے سکتے ہیں اور نہ ہی اپنوں اور اپنے اردگرد بسنے والوں کے لئے کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ جب کبھی کچھ کرنے کا موقع آئے تو ہم یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ ہم میں یہ صلاحیت نہیں ہے اور ہم اس کام کو سر انجام نہ دے سکے گے۔ اسی طرح تو اگر ہم اپنی خامیوں سے آشنا نہ ہوتو پھر اپنے اردگرد انجانے میں کئی دشمن پال لیتے ہیں کیونکہ نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے لوگوں کا دل توڑ کر اُنہیں تکلیف پہنچا دیتے ہیں اور بہت سی ناراضگیاں مول لیتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اپنی خوبیوں اور خامیوں کا سہی اور درست تجزیہ کیا جائے اور انہیں پوری ایمانداری سے قبول کر کے استعمال میں لایا جائے یا دور کیا جائے۔

اپنے آپ سے محبت کرنا ہرگز خود پسندی  نہیں ہیں ۔خود پسند لوگ مغرور و متکبر ہوتے ہیں اور اُنہیں اپنے سوائے دنیا میں کوئی نظر نہیں آتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی درست ہیں اور باقی سب غلط ہیں۔  کچھ لوگ اپنے آپ سے محبت کرنے والوں کو انا پرست کے ذمرے میں بھی ڈال دیتے ہیں جس کی اہم وجہ یہ ہوتی ہیں کہ اپنی ذات سے محبت کرنے والے لوگ اپنا خیال رکھتے ہیں اور کسی بھی کام  کے کرنے سے پہلے یا کسی محفل میں شامل ہونے یا کسی بھی قسم کی تفریح  میں شامل ہونے سے پہلے  اپنی خوبی اور خامی کا اندازہ لگاتے ہیں اور یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ اُن سے یہ کام ممکن ہوگا یا نہیں یا پھر اپنے وقت کا احساس رکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس محفل میں شریک ہونا  یا تفریح کے لئے جانے سے اُن کے دوسرے کام نظر انداز  تو نہیں ہو رہے ہیں ۔ وہ لوگ اپنی ترجیحات کا بلخصوص خیال رکھتے ہیں جس کے باعث لوگ اُنہیں اکثر مغرور و متکبر اور انا پرست خیال کرتے ہیں کہ یہ لوگ میل ملاپ نہیں پسند کرتے ہیں لیکن ایسے لوگ ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں جو اپنی زندگی کے کسی بھی فیصلےکو کرنے سے پہلے اپنے بارے میں ضرور سوچے کیونکہ اگر تو ہم اپنے آپ کو خوش نہیں رکھ سکتے ہیں تو پھر کسی کو بھی کوئی خوشی نہیں دے سکتے ہیں ۔ اگر انسان کا اپنا دل ہی مطمئن نہ ہو تو پھر وہ کسی اور کو پرسکون کیسے رکھ سکتا ہے۔

اپنے آپ سے دوستی کرنے کے لئے اپنا خیال رکھے جس سے آپ میں خود اعتمادی  پیدا ہوگی اور آپ اپنی تمام تر معاشرتی ذمّہ داریوں کو بخوبی سرانجام دے پائے گے جس کے باعث لوگوں سے تعلقات میں بہتری آئے گی اور آپ معاشرے کے ایک فعال کردار کی حیثیت سے پہچانے جائے گے۔اپنے آپ پر اعتماد رکھنے والے لوگ شک و شبے سے بالاتر ہوکر نہ صرف فیصلے کرتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد بھی اعتماد کی ایسی لہر پھیلا دیتے ہیں جس سے ساری فضاء پُر اعتماد ہو جاتی ہیں۔ یہ اعتماد ہی ہے جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر کے ایک دوسرے سے محبت کے راستے کو کھولتا ہے اور نفرتوں کو ختم کرنے میں  مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ نفرتوں سے صرف دکھ ہی دکھ ہاتھ آتے ہیں جبکہ محبت کرنے والے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں سےخوشی کشیدنے کے قابل ہوتے ہیں اور ان خوشیوں کو دوسروں میں بانٹنے سے اس دائرے کو پھیلانے میں مدد ملتی ہیں۔

ہر شخص محبت کا دعویٰ تو ضرور کرتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ کسی سے بھی محبت کرنے سے پہلے اپنے آپ سے محبت کرنا کتنا اہم ہے۔ اپنے آپ سے محبت کیجئے ، اپنا خیال رکھئے ، اپنی خوبیوں اور خامیوں کو پہچانئے ، اپنے آپ پر اعتماد کیجئے پھر دیکھئے کہ یہ محبت کی مہک آپ کے اردگرد کی فضاء کو کیسے معطر کرتی ہیں۔
(جاری ہے) ثمینہ طارق

حصّہ اوّل
حصّہ سوئم
حصّہ چہارم


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

اتوار، 30 نومبر، 2014

دوست حصّہ اوّل


آجکل اگر کسی سے پوچھ لیا جائے کہ دوست کون ہوتا ہے تو فوراً سے کچھ ایسے جملے سماعت سے ٹکڑاتے ہیں کہ دوست کے تصور سے بھی اُلجھن محسوس ہونے لگتی ہیں۔ مثلاً  
اس زمانے میں کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا سب مطلب کے ساتھی ہیں۔  
ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا۔
 کون دوست اور کیسی دوستی وقت پرا تو اپنا بنا لیا اور پھر بھول بھال گئے۔
 دوستی کا زمانہ نہیں رہا اب تو لوگ صرف وقت گزاری کے لئے دوست بناتے ہیں۔
 ہاں دوست ہیں نہ میرے بہت سارے ہیں فیس بک پر ہیں،  کالج میں ہیں ، آفس میں ہیں اور محلّے میں بھی تو ہیں ، سب ہی اچھے ہیں۔
 کہیں تو دوستوں کی بھر مار ہیں اور پھر بھی لوگ اپنے آپ کو اُن کے درمیان تنہا محسوس کرتے ہیں اور کہیں دوست ہوتے تو ہیں مگر اُن کے خلوص پر یقین  نہیں ہوتا کہ وہ سچّے دوست ہیں اور ہمیشہ کام آئے گے۔ غرض  جتنے لوگ اتنی باتیں۔ یہ انسانی فطرت ہیں کہ وہ دنیا میں اکیلا نہیں رہ سکتا ہے اُسے ہر لمحہ کسی نہ کسی کے ساتھ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے  اور اس تنہائی سے نکلنے کے لئے وہ غیر محسوس طریقے سے نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے لوگوں  کو اپنی زندگی میں شامل کرتا چلا جاتا ہے۔ کتنا ہی تنہائی پسند کیوں نہ ہو کبھی نہ کبھی اُسے کسی ایسے ساتھ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس سے وہ اپنے دُکھ درد اور خوشیاں بانٹ سکے۔ جسے وہ اپنے تمام رازوں میں شامل کر سکے ۔
دوستی دو یا دو سے زیادہ  لوگوں کے مابین  باہمی رفاقت کا نام ہے جو کسی بھی جزبے کے تحت وقوع پزیر ہوتی ہیں مثلاً محبت، ہمدردی، رحمدلی، شفقت، تجسس،  وفاداری، ایثار،  دردمندی، باہمی افہام و تفہیم، اعتماد  وغیرہ وغیرہ۔  دوستی لوگوں کے درمیان ان تمام جزبات  کی عکاسی کرتی ہیں ۔ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو سب سے پہلے اپنے گھر والوں سے متعارف ہوتا ہے اور اپنے ارد گرد کے ماحول میں وہ اپنوں کا ساتھ پاتا ہے۔ پہلے والدین ، بھائی بہن  اور پھر جیسے جیسے بچّہ بڑا ہوتا جاتا ہے اس کی زندگی میں رشتہ دار بھی شامل ہوتے ہیں۔ بچّہ سب سے پہلا دوست اپنے گھر میں ہی بناتا ہے اگر تو والدین بچّوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کے قائل ہو تو اُن کو پہلا دوست والدین کی صورت میں ہی میسر آتا ہے پھر بھائی بہن ایک دوسرے کے اچھے دوست ہوتے ہیں اور یہ دوستی تاحیات قائم رہتی ہے۔ساتھ ساتھ رشتہ کے بھائی بہنوں سے بھی اچھی دوستی قائم ہوتی ہے۔ لیکن جیسے ہی بچّہ گھر سے نکل کر اسکول میں جاتا ہے وہ اپنے اردگرد نئے لوگوں کو پاتا ہے اور اُن سے متاثر ہوتا  ہے۔ وہ اپنے ہم عمر بچّوں میں زیادہ خوش رہتا ہے اور اُن سے نامحسوس طریقے سے دوستی کرتا چلا جاتا ہے۔ اس عمر میں صرف ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا اچھا محسوس ہوتا ہے اور یہ بے غرض اور بے مقصد دوستی ہوتی ہے جو انسان کی نمو میں  نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے ذریعے بچّہ زندگی کے بہت سے آداب سیکھتا ہے جس میں سب سے اہم برداشت اور شراکت ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ انسان کے دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ اُس کا حلقہء احباب بڑھتا جاتا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے حلقے میں انسان  لوگوں سے اپنے تعلقات میں تفریق کرنا سیکھتا ہے ۔ کون دوست ہے اور کون وقتی اور ضرورتی ساتھی مثلاً  رشتہ دار، پروسی،  اسکول اور کالج کے ساتھی،  آفس میں کام کرنے والے لوگ ،  زندگی میں آنے والے بے شمار لوگ جو کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی ضرورت کے تحت ہمارے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور جن کی ہمیں اور جن کو ہماری ضرورت پرتی ہے۔ ایسے وقت میں ہم اپنی زندگی میں آنے والے لوگوں کو دوستی اور ساتھی کے ذمرے میں تقسیم کرتے ہیں۔ جو ہمارے بہت قریب ہوتے ہیں اور جن سے ہم اپنے دل کی ہر بات کہہ سکتے ہیں، جو ہمارے اچھے بُرے وقت میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں اور جن کی تکلیف ہمیں تکلیف اور خوشی ہمیں خوشی مہیّا کرتی ہے ، جو ہمارے ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی  ہمیں اپنے ساتھ اور قریب محسوس ہوتے ہیں  وہ ہمارے دوستوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور باقی لوگ اچھے ساتھی ہوتے ہیں جو وقتی طور پر ہمارے ساتھ تو ہوتے ہیں لیکن جن کے لئے ہمارے دل بے چین نہیں ہوتے ہیں اور ہم اکثر اُن کو بھول بھی جاتے ہیں ۔
دوستوں میں کبھی کوئی ایک ایسا دوست ضرور ہوتا ہے جس کے لئے آپ کا دل مچلتا رہتا ہے اور جس کی جدائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ لیکن دوری  کبھی بھی فاصلہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی ہیں اور آپ جب کبھی اس سے ملتے ہیں تو اُسی محبت اور خلوص کے ساتھ ملتے ہیں اور اگر تو ملاقات نہ بھی ہو تو وہ ہمیشہ دل میں دعاؤں کے ساتھ شامل رہتے ہیں۔کچھ لوگ ایسےبھی ہوتے ہیں جو بہت سے دوست بناتے ہیں لیکن کبھی بھی کسی بھی رشتے میں مطمئن نہیں ہوتے ہیں اور دوستوں کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی اُن کے لئے کچھ بھی کر لے انہیں ان کی سچائی کا یقین نہیں آتا اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ سے بھی بدگماں ہوتے ہیں اور یہی بدگمانی اُنہیں کبھی سکون اور چین کا سانس نہیں لینے دیتی۔ وہ مسلسل دوست بناتے ہیں اور اپنی اس فطرت کے باعث اکثر اپنے بہترین دوستوں کو کھو دیتے ہیں۔جبکہ کچھ لوگ دوست تو بڑی مشکل سے بناتے ہیں لیکن اپنی زندگی میں آنے والے تمام لوگوں سے مخلص ہوتے ہیں اور اپنی فطرت کے باعث بہت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگ تنہائی میں بھی کبھی تنہا نہیں ہوتے کیونکہ وہ ہر وقت اپنے اطراف میں موجود لوگوں کےلئے فکر مند رہتے ہیں اور کوشش کرتے ہے کہ اُن کی مدد اور دل جوئی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ خوش رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ پر اعتماد کرتے ہیں اور اپنی ذات سے محبت کرتے ہیں اور یہی محبت اپنی زندگی میں آنے والے ہر فرد کے لئے محبت اور نرمی کا جزبہ دیتی ہے۔
سب سے پہلے اپنے آپ سے دوستی کیجئے کیونکہ اپنے آپ سے دوستی نہ صرف  آپ کے دل میں زندگی سے محبت  پیدا کرتی ہے بلکہ آپ کو اپنی زندگی کا مقصد بھی فراہم کرتی ہیں اور اپنے آپ پر اعتماد بھی قائم ہوتا ہے۔  شک کسی سے بھی نفرت کی پہلی وجہ ہے جو دکھ کا باعث بنتا ہے جب کہ اعتماد محبت کی طرف پہلا قدم ہے جو کسی کو بھی خوشی کشیدنے میں مدد کرتا ہے۔

(جاری ہے)

حصّہ دوئم
حصّہ سوئم
حصّہ چہارم

ثمینہ طارق

جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے



منگل، 11 نومبر، 2014

ماں

بنیادی طور پر ماں کا لفط ایک ایسی ہستی کے لئے استعمال ہوتا ہے جو ہمیں جنم دیتی ہے۔ ماں کا لفظ چاہےکسی بھی زبان میں کسی بھی طرح ادا کیا جائے اُس میں قدرتی مٹھاس اور محبت کا لمس محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جیسےماں ، امّاں ، امّی ، ماما، ممّا ، اُمّی وغیرہ۔ ہر لفط میں شیرینی قدرتی طور پر موجود ہے اور تمام ہی الفاط اسقدر آسانی سے ادا کئے جاسکتے ہیں کہ ایک بچّہ جب بولنا شروع کرتا ہے تو پہلے ماں کو ہی پُکارتا ہے ۔یہ شائد  اس لئے کہ' مم'  صرف ہونٹوں کے جُڑنے سے ہی ادا ہو جاتا ہے اور یہی لفظ بچّے کی ز بان پر سب سے پہلے آتا ہے جو بلآخرممّی یا امّی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
انسان اس دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے جس وجود میں سانس لیتا ہے اور جہاں اُس کی جسمانی اور زہنی تشکیل مکمل ہوتی ہے وہ وجود اُس کی ماں کا ہے۔ایک بچّہ اپنی ماں کے شکم سے اسطرح جُڑا ہوتا ہے کہ اُس کے وجود کی گواہی سب سے پہلے اُس کی ماں ہی دیتی ہے اور وہ ہی ایک ایسی ہستی ہے جو اپنے بچّے کو اُس وقت سے ہی محسوس کرتی ہیں جب وہ صرف ایک خلئے کی صورت اُس کے شکم میں ٹہرتا ہے۔ ماں اور بچّے کے وجود ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں اس لئے جب بچّہ اس دُنیا میں آجاتا ہےتب بھی ماں ہی سب سے پہلے اُس کی تکلیف اور خوشی  کو محسوس کر سکتی ہے۔
یوں تو دونوں ہی والدین اپنی جانب سے بچّوں کی پرورش میں مکمل کردار ادا کرتے ہیں لیکن پھر بھی بچّہ قدرتی طور پر ماں کے قریب ہوتا ہے۔آج کے دور میں بے شک بچّوں کو  آیاؤں اورنرسریوں کے حوالے کر دیا جاتا ہو لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کے بچّہ ماں کے دل سے جدا ہوتا ہے۔ اس دور کی مشکلات کے باعث اکثر مائیں مجبور ہوتی ہے کہ اپنی اولاد کو کسی اور کے حوالے کر کے کام پر جائے مگر وہ ہر لمحہ  اُن کےلئے متفکر رہتی ہیں۔یہ ممکن ہی نہیں کہ ماں اپنے بّچے کی تکلیف کو محسوس نہ کر سکے۔ بچّے چاہے کتنے ہی  بڑے ہو جائے ماں کو وہ ویسے ہی ننھے منے لگتے ہیں جن کو اُنگلی پکڑ کر چلنا سیکھایا، اچھے بُرے کی تمیز سیکھائی ، جن کی بیماری میں رات رات بھر جاگ کر گزاری ۔اسی لئے اکثر مائیں اپنے بچّو ں کو اُس وقت تک ٹوکتی رہتی ہےجب کہ وہ زندگی کے سرد و گرم لمحات میں جینا سیکھ چکے ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ  خود والدین بن چکے ہوتے ہیں۔ ماں ہمیشہ اپنی اولاد کی تکلیف سے خوفزدہ ہ رہتی ہے اور چاہتی ہے کہ اُس کی اولاد کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ۔اکثر بچّے ایسی روک ٹوک سے خفا ہوتے ہیں وہ اُس وقت تک اس محبت کو نہیں سمجھ پاتے ہیں جب تک وہ خود والدین نہ بن جائے اور اپنی اولاد کی  محبت میں خود  اسقدر مبتلا نہ ہوجائے۔
ہر بچّے کی طرح میرا تعلق بھی میری ماں سے بہت گہرا تھا۔ ہم تین بھائی بہن ہیں جن میں میں سب سے بڑی ہونے کے ناطے والدین کے بہت قریب رہی اور نہ صرف قریب بلکہ زندگی کے اچھے بُرے تمام معاملات میں اُن کی ہمراز اور مددگار بھی رہی۔ مجھ سے چھوٹی ایک بہن اور اُس سے چھوٹا ایک بھائی ہے۔ اُن دونوں نے بھی  وقت پرنے پر اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائی اور والدین کا سہارا بنے۔ ہم تینوں بھائی بہنوں میں سے کبھی کسی کو یہ نہ لگا کہ ماں ،بابا کسی ایک سے زیادہ محبت کرتے ہیں یا کسی ایک کو زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ ہمارے والدین نے سب کو اپنی جگہ اہمیت دی اور ایک سی محبت اور شفقت سے نوازا۔ ہم سب بھائی بہن ماں کے زیادہ قریب رہے اور یہ ایک فطری عمل ہے جس کا ذکرمیں اوپر کر چکی ہوں۔ماں کی زندگی میں مجھے کبھی بھی کسی دوست کی ضرورت نہ محسوس ہوئی وہ میری سب سے پہلی اور بہترین دوست تھی۔ زندگی میں کبھی امّی سے کچھ نہیں چھپایا اس کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ وہی تو تھی جس سے سب کچھ شئیر کرنا اچھا لگتا تھا اور ہر مشکل گھڑی میں وہی راہ دکھاتی اور ہر خوشی میں وہی سب سے زیادہ خوش ہوتی تھی۔  جیسا کہ میں اپنے بلاگ..کوئی تنہا نہیں ہوتا...              میں تحریر کر چکی ہوں :

"میری بہترین دوست صرف میری ماں تھی اور وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ بیٹا میں تمہارے  ساتھ ہوں، تم خود کو کبھی تنہا نہیں سمجھنا اور ایسا ہی تھا امی کے ہوتے ہوئے مجھے کبھی کسی دوست کی تمنا نہیں رہی کیونکہ وہ واحد ہستی تھیں جن سے میں نے ہمیشہ بچپن سے لے کر اُس وقت تک جب تک میں خود ماں نہ بن گئی سب کچھ بِلا جھجھک شیئر کیا۔ کوئی دُکھ کوئی خوشی، کوئی پریشانی ایسی نہ تھی جو مجھے امّی سے شیئر کرنے میں جھجھک محسوس ہوتی اور جب امّی کا انتقال ہوا تو اس کے بعد بھی جب میں خود کو تنہا محسوس کرتی تو امی سے باتیں کرتی، گھنٹوں آنکھیں بند کر کے بیٹھی رہتی اور مجھے محسوس ہوتا کہ وہ اب بھی میرے پاس ہیں اور میری ساری باتیں سُن رہی ہیں، مجھے ہمیشہ تسلی رہی کہ میں اکیلی نہیں ہوں۔ اکثر سوچتی ایسا کیوں ہوتا ہے، وہ ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ میرے ساتھ کیوں ہوتی ہیں۔ آج میری بیٹیاں بھی مجھ سے اتنی ہی قریب ہیں، اور کہتی ہیں 'امی آپ ہماری بیسٹ فرینڈ ہیں۔' تو خیال کی پرواز اس بات کو چھوتی ہے کہ ماں ہی ایسی ہستی ہے جو ہم سے سب سے ذیادہ محبت کرتی ہے شاید اِسی لئے وہ ہماری سب سے اچھی دوست ہوتی ہے اور ہمیشہ اُسکی دعاؤں کا سایہ ہم پر رہتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ ظاہر میں بھی ہمارے ساتھ ہوں۔"

میری ماں ایک عظیم ہستی تھی اور صرف میری ہی نہیں ساری مائیں ہی ایسی ہوتی ہیں۔ میری شادی کے فوراً  بعد باباکو کینسر جیسے موزی مرض نے آگھیرا مگر یہ میری ماں کی ہی ہمت اور حوصلہ تھا کہ اُس نہ صرف میرے بابا کی ہمت بندھائے رکھی بلکہ ہم سب بھائی بہنوں کے لئے بھی ایک مضبوط سہارا بن کر رہی۔والد کی وفات کےوقت بھائی بہن بہت چھوٹے ہونے کے باوجود کام کرنے پر مجبور تھے مگر ماں نےکسی لمحے ساتھ نہ چھوڑا  معاشی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی وہ ہمیشہ ایک مضبوط سہارے کی صورت سب کے ساتھ کھڑی رہی ۔ سب کو سہارا دیتے اس نے کبھی بھی اپنا کوئی دُکھ درد ہم سےنہ بانٹا ہمیشہ یہی کہتی کہ میں خوش ہوں تم سب کو خوش دیکھ کر۔ میری بیٹیوں میں تو جیسے اُن کی جان تھی۔ بہت لاڈ اور پیار سے رکھا۔ ہمیں خوشیاں بانٹتی ہوئی وہ نہ جانے کب اور کیسے کینسر کا شکار ہو گئی اور بابا کے انتقال کے چار سال بعد ہی ہم سب کو ڈھیر سارے غم دے کر ہم سے جُدا ہوگئی۔
جب وہ بیمار تھی تو ہم سب اُن کے پاس تھے یہ بھی اللہ کا ہم پر کرم رہا کہ اُس نے ہمیں اپنے والدین کی خدمت کا موقع عطا کیا۔ماں سے جدا ہونا ایک عزاب ہی تو لگتا ہے۔ اس کو یقین میں لانا بہت ہی مشکل ہے کہ اب وہ ہستی ہمارے ساتھ نہیں ہے جس کے وجود کا ہم حصہ رہ چکے ہیں اور جو ہماری رگوں میں زندگی بن کر رہتی تھی۔بابا کی وفات کے بعد ماں کا ساتھ تھا ، جب کبھی بابا کی کمی محسوس ہوتی تو ماں کی مسکراہٹ اور اُس کی محبت اطمینانِ قلب کا باعث بنتی۔ لیکن ماں کے بعد صرف ہم تین بہن بھائی ہی ایکدوسرے کے ساتھ رہے۔کبھی کبھی تو یوں لگتا کہ شفقت اور محبت کا تمام تر کوٹا اللہ نے صرف ماں کی ہستی سے جوڑے رکھا تھا جس کے بعد ہمارے سروں سے دعاؤں کا سایہ اُٹھ گیا۔ لیکن جب جب زندگی میں اچھا وقت دیکھا،اپنے بھائی بہنوں کی خوشیاں دیکھی اور پھر اپنے بچّوں کی ترقی اور خوشی دیکھی تو اس کا یقین پختہ ہوگیا کہ ماں کا سایہ دُعاؤں کی صورت ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ وہ چاہے ہمارے درمیاں ظاہری طور پر موجود ہو یا نہ ہو ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتی ہے اور اسی کی دُعاؤں کی بدولت ہم اس دینا میں سرخرو ہوتے ہیں۔اس طرح ماں کا وجود خُدا کے قریب لانے میں بھی مدگار بن گیا۔ خدا پر یقین بھی اُس یقین سے جُڑا تھا جو ماں کو خُدا پر تھا اور اسی یقین نے ہم تینوں کو بھی ایک دوسرے سےبھی  جُڑے  رہنے پر مجبور کیا۔ ہم میں سے کسی کی زندگی میں کوئی خوشی کا لمحہ ہو یا دُکھ کا ہم ہمیشہ ساتھ ہوتے ہیں ۔ دنیا داری اور مصروفیت ہمارے دلوں کو جُدا کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے اور اس کی وجہ صرف امّی کی محبت ہے جس نے ہم سب کو اپنی دعاؤں کے حصار میں  باندھ رکھا ہے۔
آج ہماری امّی کو ہم سے جُدا ہوئے  ۲۲ سال بیت چُکے ہے لیکن اُن کے ساتھ بیتا ہر لمحہ نظروں میں سمایا ہوا ہے۔ جب کبھی پریشان ہوتی ہوں تو اُن کی خوشبواپنے اردگرد محسوس ہونے لگتی ہے اور آنکھ میں آئے آنسو مسکراہٹ میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ آج بھی اکشر رات کو نیند میں اپنے ماتھے پر اُن کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے آنکھ کھل جاتی ہے اور پھر گھنٹوں میں اُن سے باتیں کرتی ہوں۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اس کیفیت میں اگر کوئی مجھے دیکھے تو شاید پاگل ہی سمجھے مگر میرے سب اپنےجانتے ہیں کہ میری ماں جسمانی طور سے میرے ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی میرے پاس ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
دعا:
رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا ۾ (بنی اسرائیل۔۲۴)
ترجمہ: اے میرے پروردگار! جس طرح میرے والدین نے مجھے چھوٹے سے کو پالا ہے اور (میرے حال پر رحم کرتے رہے ہیں) اس طرح تو بھی ان پر (اپنا) رحم کر۔ آمین!
بلاگ پڑھنے والے تمام لوگوں سے  اپنےوالدین کی مغفرت کے لئے دعاؤں کی طلبگار
 ثمینہ طارق

جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔


جمعہ، 7 نومبر، 2014

زندگی (نظم)


کہیں تو!

جزبات سے لبریز لفظ بھی

ان سنے کر دیئے جاتے ہیں

اور کہیں!

ان کہے لفظ سُنائی دے جاتے ہیں


 کہیں تو!

برسوں تک سینچے خواب بھی

بے ثمر قرار پاتے ہیں

اور کہیں!

ان دیکھے خواب تعبیر پا جاتے ہیں



کہیں تو!

میلوں کا سفر طے کرنےپر بھی

راستہ نہیں کٹتا فاصلہ نہیں گھٹتا

اور کہیں!

لمحہ بھر میں لوگ اپنے بن جاتے ہیں
 ثمینہ طارق

جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔


بدھ، 29 اکتوبر، 2014

پردہ

زندگی پردہ کرتی ہے 
اور موت    
ہر پردہ اتار پھینکتی ہے 
چاہے وہ اپنے چہرے پر ہو 
     یا اپنوں کے !! 


ثمینہ طارق

جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

تمھارے کہے لفظ


(مستنصر حسین تارڑ صاحب کے نام نزرانہ عقیدت)


تمھارے کہے لفظ

منظر بنتے ہیں
آنکھوں کے رستے
دل میں اُترتے ہیں
اور پھر 
وہیں بس جاتے ہیں 
ان منظروں کی تلاش میں
نہ جانےکتنے قلب 
مضطرب رہتے ہیں
اورنہ جانے کتنی روحیں 
بے چین رہتی ہیں
ہر لفظ قدم قدم پر 
اپنا اک نشان چھوڑ جاتا ہے
جس کی کھوج میں
بے شُمار لوگ
سفر پر نکل کھڑے ہوتے ہیں
ان لفظوں سے پھوٹتی روشنی میں
اپنی منزلوں کا تعین کرتے ہیں 
اور جب یہ منطر
اُن کی نگاہوں کو چھوتے ہیں
تو یہ مضطرب قلب اور
یہ بے چین روحیں 
وہیں سر بسجود ہو جاتی ہیں
دل شاد ہوتے ہیں اور
اور دعاؤں کے پھول کھلتے ہیں
یارب!
ان لفظوں کو تراشنے والےمحسن کو
عمرِ دراز عطا کر اور
اپنی امان میں رکھ
 (آمین)

ثمینہ طارق


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

جمعرات، 23 اکتوبر، 2014

طویل سفر کے بعد ایک خوشبو بھری ملاقات، مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ساتھ


طویل سفر ؟ جی جناب میں نے ایک طویل سفر طے کیا ہے اُس شخصیت کے ساتھ جس سے ملاقات کا شرف حال ہی میں میسر آیا اور وہ شخصیت ہے ہمارے ملک کے مایہ ناز مصنف سفرنامہ نگار، کالمنسٹ، ناول نگار، ڈرامہ نویس، اداکار اور مارننگ شو کے بانی اور اینکر پرسن اور ٹریکر۔ ارے ارے یہ نہ سمجھئے گا کہ میں نے اتنے سارے لوگوں کا ذکر کر دیا ہے ۔ یہ تمام صفات ایک ہی شخصیت سے جُڑی ہیں اور وہ ہیں مستنصر حسین تارڑ۔

تارڑ صاحب کو ایک مصنف کی حیثیت میں تو بہت بعد میں جانا لیکن میرا اور مجھ جیسے بہت سے لوگوں کا سفر اُن کے ساتھ ٹی وی سے جڑا ہے۔  میرا یہ سفر' ایک حقیقت ایک فسانہ' سے شروع ہوا اور امجد کا کردار ایک آئیدیل کی صورت احتیار کر گیا۔ اُن دنوں والدین کی بھر پور ڈانٹ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے رات گئے تک اس سلسلے کو دیکھنے کے لئے جاگنا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا اور اس کی وجہ صرف امجد کی باتیں سننا تھا۔ آہستہ آہستہ اس سفر میں وہ تمام ڈرامے شامل ہوئے جو  تارڑ صاحب نے لکھے یا جن میں انہوں نے کردار ادا کئے۔  اُن میں سے کچھ تو اتوار کی صبح کی نشریات میں نشرِ مکرر کی صورت دیکھے۔ ۱۹۸۸ میں جب تارڑ صاحب نے صبح کی نشریات کی میزبانی کا آغاز کیا تو میں روزانہ اسکول جانے سے پہلے  اُن کی مسکراہٹ  دیکھ کر اور اُن  کی آواز سن کر نکلتی تھی ۔ ارے یہ نہ سمجھئے گا کہ اُس وقت میں اسکول  میں پڑھنے والی ایک بچّی تھی۔  نہیں جناب اُس وقت میں  ۲۱ سال کی  ضرور تھی مگر ایک  شادی  شدہ  خاتون اور ایک بیٹی کی ماں  ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اُستانی بھی تھی  اس لئے صبح کی نشریات دیکھ کر اسکول جانا  میرا معمول تھا اور اس نشریات کے ذریعے تارڑ صاحب کا ساتھ   اُس وقت   تک  رہا جب تک انہوں نے اس نشریات کی میزبانی کی تقریباً سات سال تک  ۔  پہلے اکیلے دیکھا کرتی تھی اور پھر بیٹی کے ساتھ۔ٹی وی کا ساتھ شادی آن لائن کے وقت بھی رہا جس کو دیکھنے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پرتے اور بمشکل ہی ریمورٹ ہاتھ آتا۔ خیر یہ تو تھا ٹی      وی کا  سفر لیکن  اخبارِ جہاں میں اُن کے کالم باقائدگی سے پڑھنے شروع کئے۔ کوشش کے باوجود کتابوں تک رسائی ممکن نہ ہوئی ۔ میرا تعلق کسی بھی طرح  کے ادبی یا تعلیم یافتہ  گھرانے سے نہ تھا۔ والدہ کوکتابیں پڑھنے کا بے حد شوق تھا لیکن وہ بھی لائبریری سے لے کر پڑھنے کی حد تک اور جس لائبریری تک میری پہنچ تھی وہاں سب کچھ پڑھنے کو ملا مگر تارڑ صاحب کی کوئی کتاب میسر نہ آئی ۔عرصہ دراز تک اُن کی تصانیف سے محروم رہی۔آخر کار تارڑ صاحب کو   انٹرنیٹ  پر پڑھنا شروع کیا اور  سب سے پہلے ' پیار کا پہلا شہر' پڑھی جسے مسلسل تین بار پڑھا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور میں نے کئی کتابیں پڑھ ڈالی ۔  جن میں قربتِ مرگ میں محبت، غارِ حرا میں ایک رات، شمشال بے مشال، سفر شمال کے اور بہت کچھ اور اس وقت راکھ زیرِ مطالعہ ہے اور ساتھ ساتھ لاہور سے یارقند بھی۔

تارڑ صاحب کی کوئی بھی کتاب ہو وہ ناول ہو یا سفر نامہ  اس میں یہ خاصیت موجود ہے کہ وہ قاری کو اپنے سے باندھے رکھتی ہیں۔ جب تک مکمل نہ پڑھ لی جائےچین نہیں آتا ۔ اُن کے سفر نامے کی منظر کشی ایسی ہے کہ قاری کتاب ہاتھ میں لے کر اُن تمام جگہوں کی سیر کر لیتا ہے جس کے بارے میں تارڑ صاحب نے تحریر کیا ہے اور مدت تک اُن لفظوں کے سحر سے نہیں نکل پاتا ہے جو منظروں کی صورت نگاہوں میں گردش کرتے ہیں۔ ان سفر ناموں کو پڑھکر  لوگ اُن جگہوں کو دیکھنے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ایک نئی لذت سے آشنا ہوتے  ہیں  اور جن کے لئے سفر  کرنا ممکن نہیں ہوتا  وہ ان لفظوں میں خود کو ڈبو کر اس سفر کی لذت پا لیتے ہیں۔ابھی بھی تارڑ صاحب کو بہت کم پڑھا ہے لیکن سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا ۔ انشاءاللہ

اسی دوران میں  فیس بک پر تارڑ صاحب کےگروپ میں شامل ہوئی جو 'مستنصر حسین تارڑ ریڈرز ورلد 'کے نام سے موجود ہیں اور پھر ایک نئی دنیا سے روشناس ہوئی۔ریڈرز ورلڈ کے بانی  محمد عاطف فرید ہیں اور ایڈمینز میں تہمینہ صابر ، سمیرا انجم ،جمیل عباسی ، نسرین غوری شامل ہیں ۔ یہی نہیں اس  گروپ کی خاص بات یہ ہےکہ اس میں تارڑ صاحب کی بیگم محترمہ میمونہ تارڑ  صاحبہ اور اُن کے بھائی مبشر حسین تارڑ صاحب  نہ صرف شامل ہے بلکہ تمام سرگرمیوں میں فعال کردار بھی ادا کرتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس  نے تارڑ صاحب سے عشق رکھنے والوں کا ملاپ کروایا اور نہ صرف یہ بلکہ تارڑ صاحب سے ملاقات کے سلسلہ کی بھی ابتداء کی۔ ہمارے معاشرے میں  عام لوگوں کے لئے کسی بھی سیلیبریٹی سےملاقات کا تصور یا تو ممکن ہی نہیں ہو پاتا ہے یا پھر اس کے لئے پاپڑ بیلنے پرتے ہیں ۔ عموماسیلیبریٹیز صرف بڑی بڑی تقریبات میں ہی جانا پسند کرتے ہیں اور عام لوگوں سے اُن کا رویہ کچھ قابلِ ذکر نہیں ہوتا ہے ۔ لیکن مستنصر حسین تارڑ  ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جن کو غرور چھو کر نہیں گزرا۔ وہ تمام پاکستا ن کے لوگوں کے چاچا جی ہے جو صبح کی نشریات میں اُن کو دیکھ کر بڑے ہوئے ہیں اور اس نام سے پکارے جانے میں اُنہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔
ریڈرز ورلڈ کی جانب سے پہلی ملاقات کا انتظام ۲۲ ستمبر ۲۰۱۲ کو لاہور جیمخانہ میں کیا گیا۔جس میں لوگوں کی بھر پور شرکت نے  تارڑ صاحب سے ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت دیا وہیں تارڑ صاحب کی مہربان  شخصیت نے لوگوں کے دلوں میں اُن کی قدر اور مقام کو اور بلند کردیا۔ اس کے بعد بھی ریڈرز ورلڈ کی جانب سے کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں تقریبات کا انعقاد  کیا گیا۔ لیکن کچھ ذاتی وجوہات کی بناء پر میں اس میں سے کسی میں بھی شرکت نہ کرپائی۔ان  تقریبات میں شریک نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں اپنے آپ کو اُس وقت تک تارڑ صاحب کی فین  تصور نہ کرتی تھی جب تک میرے بک شیلف میں انکی کتابیں موجود نہ تھی  اور میں اُن لوگوں کے سامنے اپنے آپ بہت ہی کمتر محسوس کرتی تھی جو تارڑ صاحب سےنہ صرف  نہایت عقیدت رکھتے ہیں اور اُن کی ہر کتاب خرید کر پڑھتے ہیں بلکہ اُنہیں اپنا مرشد مانتے ہیں۔ لیکن الحمداللہ آج میرے بک شیلف میں ان کی بہت سی کتابیں موجود ہیں اور اس میں روزبرو اضافہ ہو رہا ہے۔
 یکم مارچ ۲۰۱۴  کو یومِ مستنصر قرار دیا گیا اور اس سال تارڑ صاحب کی ۷۵  ویں سالگرہ کی تقریب کا بھی انعقاد ہوا۔سال ۲۰۱۴  کو تارڑ صاحب کا سال قرار دیا گیا ہے اور اس سال میں مختلف تقریبات اور سرگرمیوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے ۔ بروز اتوار ۱۹ اکتوبر ۲۰۱۴ کو کراچی میں ایک تقریب منعقد کی گئی جو تارڑ صاحب کی نئی کتاب ' لاہور سے یارقند ' کی تقریبِ رونمائی تھی ایسی ہی ایک تقریب لا ہور میں بھی منعقد ہو چکی تھی ۔ اس تقریب میں شرکت کے لئے میں نے اپنے تمام کاموں کو پسِ پشت ڈال رکھا تھا  تاکہ اس میں شرکت ممکن ہو اور آخر کار میرا یہ خواب پورا ہوا اور مجھے تارڑصاحب سے ملنے کا موقع فراہم ہوا بلکہ بلمشافہ بات چیت کرنے اور کتاب پر دستخط کروانے کا موقع بھی فراہم ہوا جس کے لئے میں ریڈرز ورلڈ کی نہایت ممنون ہوں۔
یہ چونکہ میری تارڑ صاحب سے پہلی ملاقات تھی اور کسی ایسی تقریب میں شرکت کئے کافی عرصہ گزر چکا تھا اس لئے تھوڑی بہت گھبراہٹ بھی تھی ۔ شدید خواہش کے باوجود مائک لے کر وہ نظم جو میں نے تارڑ صاحب کے لئے لکھی تھی اُن کے سامنے پڑھنے کی ہمت نہ جُتا پائی ۔ حالانکہ تارڑ صاحب کا انداز نہایت مشفقانہ اور مہربان تھا اور وہ سب نہایت شگفتہ انداز میں بات چیت کر رہے تھے تقریب کا ماحول بلکل  گھر کی کسی تقریب جیسا تھا ۔ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو تارڑ صاحب کی کتابوں کو پڑھ کر سفر کے لئے نکل کھڑے ہوئے تھے  اور اُن کے قدموں کے نشانات پر چلتے ہوئےاُن مقامات تک پہنچ چکے تھے جہاں ہم نے صرف تارڑ صاحب کے لفظوں کی صورت سفر کیا ہے۔ نہایت عقیدت اور احترام کے ساتھ دوستانہ ماحول میں تقریب  کا انعقاد  ریڈرز ورلڈ کی کامیابی اور تارڑ صاحب کی محبت کا واضح ثبوت پیش کرتی ہیں۔
بُک سائننگ کے وقت تک میں اپنی ہمت مجتمع کر چکی تھی اور اُس وقت تارڑ صاحب سے اچھے سے بات کرنے کا موقع ملا اور میں نے اُنہیں بتایا کہ میرا سفر آپ  کے ساتھ  'ایک حقیقت ایک فسانہ ' سے ہے ۔ میں نے آپ کی بہت زیادہ کتابیں نہیں پڑھی لیکن جو بھی پڑھی وہ کم از کم تین بار ضرور پڑھی۔ایک بات جو میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ جب کبھی زندگی میں تارڑ صاحب سے ملاقات کا موقع نصیب ہوا تو اُن سے ضرور کہوں گی اللہ کے فضل سے وہ کہہ پائی کہ " سر آپ کے سفر ناموں کو پڑھ کر، آپ کے لفظوں کی روشنی میں بہت سے لوگ سفر کرتے ہیں اور اُن منزلوں تک پہنچ کر سر شار ہوتے ہیں لیکن غارِ حرا میں ایک رات پڑھنے کے بعد سے میں محسوس کر رہی ہوں کہ ایسا سفر تو ممکن ہے مگر  وہاں  ایسا وقت گزارنا پھر شائد کسی کے لئے ممکن نہ ہو اس لئے یہ سفر تو صرف آپ کی اس کتاب کو پڑھ کر ہی کیا جاسکتا ہے ۔" اس پر تارڑ صاحب نے بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ کہا ہاں یہ تو درست ہے  اور یہ ایک مسکراہٹ میرے لئے زندگی بھر کا سرمایہ بن گئی  کیونکہ اتنا طویل سفر میں نے صرف اس مسکراہٹ کے لئے ہی طے کیا تھا جسے میں نے صرف ٹی وی کے شیشے کے پیچھے سے یا بھر تصویروں میں ہی دیکھا تھا۔ یہ ملاقات میری زندگی کا ایک اہم پڑاؤ ہے جس کی یادیں تاحیات میرے ساتھ رہے گی  مگر اس میں ایک کمی سی رہ گئی جو کبھی نہ کبھی ضرور پوری ہوگی اور وہ ہے تارڑ صاحب کی بیگم میمونہ جی سے ملاقات۔کیونکہ تارڑ صاحب کی مسکراہٹ میمونہ جی کی مسکراہٹ کےبغیر ادھوری رہتی ہے۔ میں نے تارڑ صاحب سے اپنی زندگی میں دو نہایت اہم چیزیں سیکھی جس کا ذکر نہ کرنا کسی امانت میں خیانت کی طرح ہوگا۔
۱-چاہے وقت اور حالات کیسے بھی ہو ہمیشہ اس کا مقابلہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہوئے یقین  اور مسکراہٹ کے ساتھ کرنا اور اس بات پر یقین رکھنا کہ آپ کے نصیب میں جو کچھ لکھا ہے وہ ضرور ملے گا۔
۲-ہر چھوٹی یا بڑی خوشی  اور کامیابی کے لئے اپنے رب کا شکر گزار رہنا کبھی بھی کسی مقام پر غرور نہ کرنا اور اسے اپنے رب کا تحفہ سمجھنا نہ کہ اپنا حق اور اپنی خصوصیت۔
حرفِ آخر!
یہ تحریر خوشبو کے سفر کی زینت اس لئے بنی کہ میرا یہ سفر واقع ایک خوشبو کا سفر تھا جس کی منزل  ایسی خوشبوؤں میں رچی بسی تھی کہ اس کی مہک تاحیات میری ہمسفر رہے گی ۔
 ثمینہ طارق










جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔




اتوار، 5 اکتوبر، 2014

عید

تو چلو پھر سے عید کرتے ہیں
      مگر سنو!
   اب کی بار اپنی 
  بیتابیوں، پریشانیوں اور حسرتوں 
   کو قربان کرتے ہیں
اور ساتھ نفرتوں کو قربان کرکے
کچھ محبتوں کے بیج بوتے ہیں
  کہ شاید اگلی بار
کوئی چہرہ غمگین نہ رہے
کوئی آنکھ پُر نم نہ رہے
تو چلو پھر سے عید کرتے ہیں 
     مگر سنو! 
  اب کی بار
دنیا کی محبت قربان کرتے ہیں
اور اپنے رب سے
محبت کی تجدید کرتے ہیں
اب کی بار اپنے نفس کو 
   قربان کرکے
اُس کی اُمت سے محبت کرتے ہیں
تو چلو پھر سے عید کرتے ہیں!!

ثمینہ طارق


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔