صفحات

پیر، 8 دسمبر، 2014

دوست حصّہ دوئم : اپنے آپ سے دوستی و محبت




سب سے پہلے اپنے آپ سے دوستی کیجئے کیونکہ اپنے آپ سے دوستی نہ صرف  آپ کے دل میں زندگی سے محبت  پیدا کرتی ہے بلکہ آپ کو اپنی زندگی کا مقصد بھی فراہم کرتی ہیں اور اپنے آپ پر اعتماد بھی قائم ہوتا ہے۔  شک کسی سے بھی نفرت کی پہلی وجہ ہے جو دکھ کا باعث بنتا ہے جب کہ اعتماد محبت کی طرف پہلا قدم ہے جو کسی کو بھی خوشی کشیدنے میں مدد کرتا ہے۔

۱۹۵۶ میں ایک ماہر نفسیات اور سماجی مفکر ایرک فروم  نے اپنے آپ سے محبت کے مفہوم کو اس طرح واضح کیا کہ " اپنے آپ سے محبت کرنا مغرور، متکبر یا انا پرست ہونے سے بلکل مختلف ہے۔ اپنے آپ سے محبت کرنے کے معنی ہیں کہ انسان جسمانی اور زہنی دونوں لحاظ سےاپنا خیال رکھے، اپنی ذمّہ داریوں سے بہتر انداز میں عہدہ برا ہو، اپنی عزت آپ کرنا سیکھے، اپنے آپ کو جانے مثلاً اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کو سچائی اور ایمانداری سے قبول کرے۔ ایک انسان کا کسی دوسرے انسان سے محبت کرنے کے لئے پہلے اپنے آپ سےاُسی شدت اور انداز میں  محبت کرنا نہایت ضروری ہے۔"

اپنے آپ سے دوستی کرنے کے معنی ہے اپنے آپ سے محبت کرنا۔ اپنے آپ سے محبت کرنے کے معنی ہرگز یہ نہیں کہ انسان صرف اپنی ذات سے متعلق مفاد سے وابستہ رہے۔ اپنے آپ سے دوستی کے معنی ہے کہ اپنے جسم، جان ، ضروریات اور صحت کا خاص خیال رکھا جائے۔ اگر تو ہم اس قابل ہی نہ رہے کہ اپنی ضروریات کو وقت پر پورا کر سکے یا اپنی صحت کا خیال نہ رکھے اور ہمیشہ بیمار رہے ، یا اپنی جسمانی ضروریات کو پسِ پُشت ڈال کر اپنی صحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دنیا کے کاموں میں مصروف رہے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنے تمام کاموں کو بخوبی نباہ پائے گے کیونکہ اگر تو اپنی جسمانی ضروریات کا خیال نہ رکھا جائے تو ہماری صحت خراب ہو گی اور ہم اکثر و بیشتر بیمار رہے گے جس کے باعث ہم کسی طور اپنی معاشرتی ذمّہ داریوں کو بہتر ین انداز میں نبھانے کے قابل نہ ہوپائے گے۔

اگر تو ہم اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام نہ دے پائے تو پھر ہمارا اپنے آپ پر سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے اور ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہم اس قابل نہیں ہے کہ کسی کے کام آسکے یا کسی کے لئے کچھ کر سکے۔ اس طرح ہم  اپنے اندر ایک خلا پیدا کرتے چلے جاتے ہیں اور اُس کے اندر مسلسل اُترے چلے جاتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو کوسنے لگتے ہیں اور خود اپنی ذات سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اپنی عزت اپنی ہی نگاہوں میں گنوا بیٹھتے ہیں۔ ایک بار اگر نفرت کا بیج بو دیا جائے تو پھر اسے تناور درخت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے اور ہم نا محسوس طریقے سے اپنی ذات سے بددل ہو کر اپنے  ہی خلاف  اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

جب انسان اپنے آپ سے نفرت میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پھر اُسے اپنےاندر چھپی اچھائیاں بھی نظر نہیں آتی ہیں اور نہ ہی وہ اپنی خامیوں کو پہچان سکتا ہے۔ اُس وقت وہ صرف اس زعم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ میں جو کر رہا ہوں وہی دُرست ہے اور اس طرح وہ  نہ صرف بہت سے غلط فیصلے کر بیٹھتا ہے بلکہ بہت سے لوگوں کے دل تور کر اُنہیں ناراض بھی کر دیتا ہے۔ جب تک ہم اپنی خوبیوں سے واقف نہ ہو ہم نہ ہی اپنے لئے کوئی مفید کام سر انجام دے سکتے ہیں اور نہ ہی اپنوں اور اپنے اردگرد بسنے والوں کے لئے کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ جب کبھی کچھ کرنے کا موقع آئے تو ہم یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ ہم میں یہ صلاحیت نہیں ہے اور ہم اس کام کو سر انجام نہ دے سکے گے۔ اسی طرح تو اگر ہم اپنی خامیوں سے آشنا نہ ہوتو پھر اپنے اردگرد انجانے میں کئی دشمن پال لیتے ہیں کیونکہ نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے لوگوں کا دل توڑ کر اُنہیں تکلیف پہنچا دیتے ہیں اور بہت سی ناراضگیاں مول لیتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اپنی خوبیوں اور خامیوں کا سہی اور درست تجزیہ کیا جائے اور انہیں پوری ایمانداری سے قبول کر کے استعمال میں لایا جائے یا دور کیا جائے۔

اپنے آپ سے محبت کرنا ہرگز خود پسندی  نہیں ہیں ۔خود پسند لوگ مغرور و متکبر ہوتے ہیں اور اُنہیں اپنے سوائے دنیا میں کوئی نظر نہیں آتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی درست ہیں اور باقی سب غلط ہیں۔  کچھ لوگ اپنے آپ سے محبت کرنے والوں کو انا پرست کے ذمرے میں بھی ڈال دیتے ہیں جس کی اہم وجہ یہ ہوتی ہیں کہ اپنی ذات سے محبت کرنے والے لوگ اپنا خیال رکھتے ہیں اور کسی بھی کام  کے کرنے سے پہلے یا کسی محفل میں شامل ہونے یا کسی بھی قسم کی تفریح  میں شامل ہونے سے پہلے  اپنی خوبی اور خامی کا اندازہ لگاتے ہیں اور یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ اُن سے یہ کام ممکن ہوگا یا نہیں یا پھر اپنے وقت کا احساس رکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس محفل میں شریک ہونا  یا تفریح کے لئے جانے سے اُن کے دوسرے کام نظر انداز  تو نہیں ہو رہے ہیں ۔ وہ لوگ اپنی ترجیحات کا بلخصوص خیال رکھتے ہیں جس کے باعث لوگ اُنہیں اکثر مغرور و متکبر اور انا پرست خیال کرتے ہیں کہ یہ لوگ میل ملاپ نہیں پسند کرتے ہیں لیکن ایسے لوگ ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں جو اپنی زندگی کے کسی بھی فیصلےکو کرنے سے پہلے اپنے بارے میں ضرور سوچے کیونکہ اگر تو ہم اپنے آپ کو خوش نہیں رکھ سکتے ہیں تو پھر کسی کو بھی کوئی خوشی نہیں دے سکتے ہیں ۔ اگر انسان کا اپنا دل ہی مطمئن نہ ہو تو پھر وہ کسی اور کو پرسکون کیسے رکھ سکتا ہے۔

اپنے آپ سے دوستی کرنے کے لئے اپنا خیال رکھے جس سے آپ میں خود اعتمادی  پیدا ہوگی اور آپ اپنی تمام تر معاشرتی ذمّہ داریوں کو بخوبی سرانجام دے پائے گے جس کے باعث لوگوں سے تعلقات میں بہتری آئے گی اور آپ معاشرے کے ایک فعال کردار کی حیثیت سے پہچانے جائے گے۔اپنے آپ پر اعتماد رکھنے والے لوگ شک و شبے سے بالاتر ہوکر نہ صرف فیصلے کرتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد بھی اعتماد کی ایسی لہر پھیلا دیتے ہیں جس سے ساری فضاء پُر اعتماد ہو جاتی ہیں۔ یہ اعتماد ہی ہے جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر کے ایک دوسرے سے محبت کے راستے کو کھولتا ہے اور نفرتوں کو ختم کرنے میں  مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ نفرتوں سے صرف دکھ ہی دکھ ہاتھ آتے ہیں جبکہ محبت کرنے والے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں سےخوشی کشیدنے کے قابل ہوتے ہیں اور ان خوشیوں کو دوسروں میں بانٹنے سے اس دائرے کو پھیلانے میں مدد ملتی ہیں۔

ہر شخص محبت کا دعویٰ تو ضرور کرتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ کسی سے بھی محبت کرنے سے پہلے اپنے آپ سے محبت کرنا کتنا اہم ہے۔ اپنے آپ سے محبت کیجئے ، اپنا خیال رکھئے ، اپنی خوبیوں اور خامیوں کو پہچانئے ، اپنے آپ پر اعتماد کیجئے پھر دیکھئے کہ یہ محبت کی مہک آپ کے اردگرد کی فضاء کو کیسے معطر کرتی ہیں۔
(جاری ہے) ثمینہ طارق

حصّہ اوّل
حصّہ سوئم
حصّہ چہارم


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

6 تبصرے:

  1. لفظ لفظ میرے دل کی ترجمانی کرتا ہے۔ جزاک اللہ
    بے شک جسے اپنی پہچان نہیں وہ کسی دوسرے کی پہچان کا دعوٰی کس طرح کر سکتا ہے۔ جو اپنا بھلا نہ کر سکے وہ کسی دوسرے کا بھلا کیسے کر سکتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ نورین! بے شک اپنی پہچان نہ ہو تو کوئی اور دعویٰ ہو نہیں سکتا۔

      حذف کریں
  2. اپنے آپ سے محبت کرو،خود کو پہچانو گے تو اپنے رب کو جان جاؤ گے۔
    http://noureennoor.blogspot.com/2012/12/blog-post_8021.html

    جواب دیںحذف کریں
  3. دوست۔۔۔۔ "اپنے آپ پر اعتماد کرنا۔۔۔اپنے شرف کو پہچاننا " بہت اہم اور ضروری ہے تو دنیا کا سب سے مشکل فیصلہ بھی ہے کہ اس انداز سے سوچنے والےضمیر کی آواز سننے والے چند ہوتے ہیں اور وہ دنیا کے ہجوم میں تنہا رہ جاتے ہیں۔ محض اس لیے کہ وہ ہاتھ پھیلانا نہیں جانتے ۔۔۔اپنی محرومیوں کا رونا نہیں روتے۔ دنیا کبھی اس شخص کو چین سے رہنے نہیں دیتی جو اپنے حال سے راضی ہو ۔ لیکن جو محبت کی ابدی لذت پا لے اس کے لیے یہ فانی زحمت برداشت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ نوریں! آپ کی تحریر پڑھ کر بہت اچھا محسوس ہوا۔

      حذف کریں