القرآن
وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا ۖۚ (۲۵/۷۶)
ترجمہ: "اور تُو اپنے پروردِگار کے
نام کا ذکر صبح اور شام کرتا رہ۔"
ذکر کا مفہوم و معنی:
"ذکر " لفط اذکار یا تزکرہ سےاخز کیا گیا ہے۔جس کے لفظی معنی یاد کرنا ، زبان پر جاری کرنا ، ثنا خوانی ، دعاؤں اور تسبیحاتکا ورد کرنا شامل ہے جبکہ اصطلاحی معنوں میں زہن اور سوچ میں مسلسل اللہ کی یاد کا رہنا اور اللہ کو ہمیشہ اپنے ساتھ محسوس کرنا ہے۔
ذکر
کی اقسام
ذکر کی تین
اقسام ہیں:
۱- ذکرِ لسانی:
وہ
ذکر جو زبان سے کیا جائے۔ یعنی کہ اللہ کے نام کا زبان سے ورد کرنا اور اسے کے قرب کو حاصل کرنے کی کوشش
کرنا۔ اس ذکر میں وقت پر عبادت کرنا مثلاً
نماز پڑھنا، تسبیحات پڑھنا، درود شریف کا ورد کرنا، دعائیں پڑھنا اور اسم اللہ
(اللہ کے ناموں )کی تسبیح کرنا شامل ہے۔
۲-ذکرِقلبی:
وہ ذکر جو دل میں کیا جائے۔ یعنی خدا کی یاد کو
اپنے دل میں مسلسل رکھنا اور اپنے ہر کام کو کرتےہوئے یہ یقین رکھنا کہ ربِ
کریم ہر وقت ہر جگہ ہمارے ساتھ ہے اور وہ
ہمارے دلوں کے حال سے واقف ہے-فرض عبادات کے علاوہ بھی اللہ کا ذکر اور تسبیح کرتے
رہنا اور کبھی بھی اُس کی یاد سے غافل نہ ہونا۔
۳-ذکرِ
عملّی:
وہ ذکر جو افعال سے کیا جائے۔ یعنی کہ اپنے ہر
عمل میں اللہ کی رضا کو شامل کرنا اور اس کو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے
کرنا۔تمام کاموں کو سرانجام دیتے ہوئے
اللہ کی یاد کو دل میں بسائے رکھنا اور یقین رکھنا کہ وہ ہمارے ساتھ
ہے اور ہمارا مددگار ہے ۔
ذکر
کا بنیادی مفہوم یاد کرنا ہی ہے جیسے ہم اپنی تکلیف و پریشانی میں اپنوں کو یاد
کرتے ہیں۔ یا پھر ہمارا کوئی اپنا ہم سے دور ہویا اس دنیائے فانی سے رخصت ہو
جائےتو ہم اکژاُن کو یاد کرتے ہے اور محفلوں میں اُس کا ذکر کرتے رہتے ہیں یا پھر
اکیلے میں اُس کی باتوں کو یاد کر کے اپنے دل کو اطمینان اور سکون پہنچاتے ہیں اسی
طرح اللہ کا ذکر ہم فرض عبادات کی صورت میں کرتے رہتے ہیں نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج وغیرہ۔ غرض ان عبادات کی صورت ذکر کی تمام قسمیں ہماری زندگی میں شامل ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اک مخصوص دائرہ میں
رہ کر ایک ضابطے اور نظام کے تحت کی جانے والی عبادات ہیں ۔ ایک انسان جب صرف ان
عبادات سے سکون نہیں پا سکتا ہےتو پھر وہ درود شریف اور دعاؤں کا ورد، قرانِ پاک
کی تلاوت،اسمِ اللہ کا ورد اور دتسبیحات
کا سہارا لیتا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ اپنی زندگی کو اسوہء حسنہ کے مطابق گزارنے کی
کوشش کرتا ہے اور تمام معا شرتی فرائض کی انجام دہی میں اللہ کے حکم کے مطابق عمل
کرتا ہے۔اگر ان تمام کے باوجود وہ سکونِ قلب سے محروم ہے تو جان لے کہ اُس کی
عبادات میں ابھی وہ مقام نہیں آیا کہ وہ
اپنے رب کو اپنا دوست بنا لے۔
ذکر
ایک خاص قسم کی عبادت ہے جو کہ روحانی ہے اور فرض عبادات سے کچھ آگے کا عمل ہے ۔ جس کی ابتداء ذکرِ لسانی سے ہوتی
ہیں ۔اللہ کا ذکر تما م فرض عبادات کے علاوہ بھی کرتے رہنا، اُٹھتے بیٹھتے، سوتے
جاگتے، دُکھ میں سُکھ میں، گھر میں دفتر میں کسی بھی کام کو سر انجام دیتے ہوئے
اللہ کا ذکر کرنا۔ اسم اللہ میں سے کسی کا
بھی ورد مسلسل یا وقفے وقفے سے دل میں
جاری رکھنا یا پھر صر ف یا اللہ کا ورد کرنا ۔ چونکہ ہم ہر وقت بلند آواز میں ہر
جگہ کام کے دوران یہ ورد نہیں کرپاتے ہیں
اس لیے یہ ذکر دلوں میں کیا جاتا ہےلیکن اگر تو یہ ورد صرف لسانی ہےچاہے و ہ دل میں ہو تو اطمینان کا باعث نہیں بن سکتا ہے
۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کو ہمیشہ اپنے ساتھ حاضر وناظر جان کر اُس کی یاد سے
دل کو منور کیا جائے۔یہ مان لیا جائے کہ وہ ذاتِ پاک ہر وقت ہمارے ساتھ موجود ہے
اور ہم جہاں بھی جس حالت میں بھی اسے پکارے گے وہ ضرور ہماری مدد فرمائے گا۔ جب ہم
زبان سے اس کو پکارتے ہیں اور دل سے اسے اپنے ساتھ محسوس کرتے ہیں تو خودبخود
ہمارا ہر عمل اُس کی رضا کے لئےہوتا جاتا ہے اور ہمارا ہر عمل ، ہمارا ہر عضو اُس
ذاتِ پاک کے ذکر میں شامل ہوجاتا ہے۔
اللہ
کے قرب کا یہ یقین جس ذکر سے پیدا ہوتا ہے
وہ صرف اللہ کے ذکر کو زبان سے ادا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس ذکر سے
زبان میں ایسی مٹھاس کا گھل جاناہے کہ جس
کے بعد انسان کا لہجہ خود بخود شیریں ہو جاتا ہے اور ہو کسی سے بھی تلخ کلامی نہیں
کرتا۔ یہ قرب صرف دل میں اللہ کے نام کا ورد کرنے سے نہیں ملتا ہے بلکہ اللہ کو ہر
وقت اپنےساتھ محسوس کرنے سے ملتا ہے اور جو اللہ کو ہر وقت اپنے ساتھ محسوس کر لے وہ پھر کبھی بھی کسی بھی
قسم کے خوف میں مبتلا نہیں ہوتا ہے کیونکہ اُسے یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ اللہ
اُس کا مددگار ہے۔وہ صبر اور شکرگزاری سے زندگی گزارتا ہے۔ یہ قرب حاصل کرنے کے
لئے صرف اپنے ہر عمل کو اللہ کے احکامات کے مطابق صرف اس لئے گزارنا
کافی نہیں ہے کہ اُس کے آخرت کے
عذاب سے بچا جائے یا جنت کاحصول ممکن ہو بلکہ اپنے دلوں میں اللہ کی محبت کابیج
بونا ضروری ہے اور اپنے ہر عمل میں اُس کے رضا کو اس لئے شامل کیا جائے کہ اُس کی
محبت میسر آجائے اور اس کے لئےہمارا ہر عضو اُس کے ذکر سے منوّر ہو نا ضروری ہے۔ہماری
سوچ اور روح کا محور اللہ کی محبت قرار پائے۔
قرانِ
پاک میں ارشادِ باری تعالٰی ہے
ترجمہ :"سن لو کہ
اللہ کے دوستوں کے لیے کوئی خوف ہے اور نہ کوئی اندیشہ۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان
لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔ان کے لیے خوشخبری ہے ،دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت
میں بھی، اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔" (سورۃ
یونس ۶۲-۶۴)
اطمینانِ
قلب اُن لوگو ں کو حاصل ہوتا ہے جو اللہ کے دوست ہے اور اللہ کا دوست وہی ہے جو
اپنے ایمان کا ثبوت تقوٰی سے دےسکتےہیں اور اللہ کی یا د اُن کی حیات کا احاطہ اس
طرح کر لیتی ہے کہ وہ مشکلات میں صبر اور آسانیوں میں شکر کا دامن تھامے رکھتے ہیں
اور اپنی روحوں کو اپنے محبوب رب کی یاد سے غافل
نہیں ہونے دیتے۔اپنی روحوں کو ذکر اللہ سے آباد کریں نہ صرف جسم، زبان اور
دل کو ۔ انشاءاللہ تعا لٰی اطمینان اور سکون کی کیفیت سے ہمکنار رہیں گے۔
اللہ تبارک تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ!
حذف کریں