Translate

اتوار، 13 ستمبر، 2015

خوشبو والا گھر. (افسانہ)




آنکھ کھُلتے ہی اُس نے اپنے ارد گرد ایک مانوس سی خوشبو محسوس کی اور اُس کے چہر ے پر مُسکان پھیل گئی۔ مگر اُسی لمحے اُسے محسوس ہو ا کہ آج وہ قبل از وقت جاگ گئی ہے۔ عموماً صبح کھڑکیوں کے پردے ہٹنے کے ساتھ ہی سورج کی کرنیں اُس کے لئے آلارم کا  کام انجام دیتی تھی۔ لیکن ابھی تو کافی اندھیرا تھا اور کھڑکیوں سے پردے بھی نہیں ہٹائے گئے تھے۔ اُس کے جاگنے کی وجہ وہ مانوس سی خوشبو تھی جو بستر کے ساتھ رکھی میز پر رکھے گلدستے سے آرہی تھی۔ اُسے گلاب بے انتہا پسند تھے اتنے کہ ایسے  ایک گلاب کے لئے وہ ساری زندگی اس گھر میں رہنے کو تیار تھی اور یہ تو پھر پورا گلدستہ تھا۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر گلدستہ اُٹھا لیا اور  اپنے چہرے تک لا کر اُس کی خوشبو سےمحظوظ ہونے لگی۔ اتنے میں  اُس کی نظر میز پر رکھے ایک خوبصورت کارڈ پر پڑی  جس پر جلّی حرفوں میں  'ہیپی   مدرز ڈے'  لکھا ہوا تھا۔ کارڈ تھامتے ہی اُس کی مُسکان  چند لمحوں کے لئے معدوم ہوگئی مگر پھر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ آج وہ اُس گھر میں تھی جس میں رہنےکی وہ بچپن سے منتظر تھی۔
 چھوٹے چھوٹےٹِن کے چھتوں والے  گھروں پر مشتمل ایک محلّہ جس کی چھتوں کی دراروں سے سورج کی کرنیں چھن چھن کرتی پورے گھر کو چمکاتی رہتی  اور برسات میں کچّی زمین کو جل تھل کرتی تھی ،میں   نچلے درجے کی آبادی اپنی زندگی  گزارنے پر مجبور  تھی۔ شام ہوتے ہی  ہر گھر سے ننگ دھرنگ بچّے نکل کر گلی میں کھیلتے نظر آتے تھے اور اُن کے ساتھ ماریا بھی نکل آتی تھی ۔ماریا  اس  محلّے کی سب سے صاف ستھری اور سلجھی ہوئی بچّی تھی۔ اُس کے والد ایک اسکول میں چپراسی  تھے  اور اُن کی کوششوں سے ماریا کو بھی ان ہی کے اسکول میں بغیر فیس کے داخلہ مل  گیا تھا اس لئے وہ  ایک اچھے  اسکول میں  تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ اس کے برعکس محلّے کے زیادہ تر لوگ سڑکوں کی صفائی یا  پھر  مزدوری کرتے تھے اور اس قابل نہ تھے کہ اپنے بچّوں کو تعلیم دلوا سکے۔تعلیم نے  ماریا کو  محلّے کے دوسرے بچّوں سے ممتازکردیا تھا۔چونکہ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اس لئے اُسے محلّے کےبچّوں کے ساتھ ہی کھیلنا پرتا تھا۔ گلی میں کھیلتے ہوئے بھی وہ بچّوں کے درمیان نمایاں  نظر آتی ۔اس میں اُس کی والدہ کی سُلجھی طبیعت کا بھی ہاتھ تھا ۔ وہ محلّے کی دوسری خواتین کی طرح لوگوں کے گھروں میں کام کرنے نہ جاتی تھی بلکہ کپڑے سینے کا ہنر جانتی تھی اس لئے ماریا کے والد کے اسکول کے اساتزہ   اُنھیں کپڑےسینے  بھجوا دیتے  تھے ۔ اکژ بچے ہوئے کپڑوں  کو جوڑ کروہ  ماریا کے لئے خوبصورت فراک سی دیتی تھی۔ جس سے ماریا    محلّے کے تمام بچّوں میں منفرد نظر آتی تھی۔
چھوٹے چھوٹے گھروں پر مشتمل اس گلی کے  اختتام  پر ایک دو منزلہ پکّی چھت والی   عمارت بھی موجود تھی۔ جہاں سے کبھی کوئی بچّہ باہر نکلتے نہیں دیکھا گیا تھا لیکن ہر اتوار کو گلی میں کھیلنے والے تمام بچّے اس گھر کے دروازے کے آگے جمع ہو جاتے تھے کیونکہ اس گھر سے تھیلیوں میں بھر کر کھانے کی چیزیں بانٹی جاتی تھی اور محلّے کے تمام گھروں میں پہنچائی جاتی تھی اور یہ کام گلی میں کھیلنے والے بچّے ہی انجام دیتے تھے۔ ماریا بھی ان بچّوں میں شامل ہوتی تھی  اور اچھے اچھے کھانے لیتے ہوئے اُس کا جی چاہتا کہ وہ اس گھر میں رہنے چلی جائے  کیونکہ اُس  گھر میں  گلاب کے بہت سے پودے لگے ہوئے تھے جن کی خوشبو سے سارا محلّہ مہکتا تھا اور گلاب ماریا  کو بے انتہا پسند تھے۔ ماریا نے  اپنی اس خواہش کا ذکر کئی بار اپنی ماں سے کیا تھا اور خوب ڈانٹ کھائی تھی۔ 
اس محلّے میں کھیلتے ہوئے ماریا کا بچپن تمام ہوا اور اُس نےتعلیم مکمل کر کے اپنے ہی اسکول میں ملازمت حاصل کر لی۔ اب ان کا گھر بھی محلّے کے باقی گھروں سے بہت بہتر ہوگیا تھا مگر گلی کے آخر میں بنےہوئے اُس گھرمیں جانے کی خواہش اُس کے دل میں اب بھی تھی جسے اُس نے بچپن سے ہی خوشبو والا گھر کہنا شروع کر دیا تھا ۔ حالانکہ اب کئی سالوں سے اُس گھر سے کھانا نہیں بانٹا جاتا تھا بلکہ محلّے کے گھروں میں جو کچھ بھی پکتا وہ اُس گھر میں رہنے والوں کے لئے لے جاتے تھے۔ وہ گھر تو ویسا ہی تھا مگر اُس کے مکین بدل گئے تھے اور اب جو وہاں رہتے تھے وہ محلّے کے لوگوں سے بھی زیادہ ضرورت مند تھے۔ پہلے پہل تو ماریا کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ایسا کیوں ہوا لیکن بڑھتی عمر کے ساتھ اُس نے جان لیا کہ مکان وہیں رہ جاتے ہیں لیکن مکین جہان سے گزر جاتے ہیں۔جیسے اُس کے والد اُسے اکیلا چھوڑ کر چل بسے تھے۔
والد کی وفات کےبعد ماریا کی والدہ نے بہت کوشش کی کہ ماریا شادی کرلے لیکن ماریا اپنی ماں کو اکیلا چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس بات کو لے کر آئے دن دونوں میں بحث ہوتی رہتی۔جوزف کا رشتہ ماریا کے لئے آیا تو اُس کی ماں کی اُمید جاگ اُٹھی کیونکہ وہ ماریا کے بہترین دوستوں میں سے تھا اور ماریا اُسے پسند بھی کرتی تھی۔ماں نے بڑی اُمید سے ماریا سے کہا!
"ماریا   جوزف بہت اچھا لڑکا ہے ۔پڑھا لکھا بھی ہے اور اچھی ملازمت بھی ہے۔ ہم جیسے  غریب لوگوں کو  ایسے رشتے مقدر سے ملتے ہیں انھیں کھونا نہیں چاہئے۔"
"نہیں ماں!آپ نے یہ سوچا بھی کیسے کہ میں آپ کو چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔ آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ جوزف نوکری کے لئے   ملک سے باہر  جا رہا ہے۔ مجھے بھی اُس کے ساتھ جانا پرے گا پھر آپ اکیلے کیسے رہے گی۔ " ماریا  اپنی ضد پر قائم تھی۔
" تو ایسا کرو مجھے اُس خوشبو  والے گھر میں چھوڑ آؤ میں وہاں آرام سے رہوں گی۔" یہ سنتے ہی ماریا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے وہ کبھی خواب میں بھی نہیں  سوچ سکتی  تھی کہ وہ اپنی بیمار ماں کو اُس گھر میں چھوڑ کر شادی کرکے دوسرے مُلک  جا بسے۔
"نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی میں آپ کے ہی پاس رہوں گی اور آپ فکر نہ کریں اگر یہیں کوئی مناسب رشتہ مل گیا تو شادی بھی کر لوں گی۔" ماریا نے اپنے اور اپنی ماں کے آنسو پونچھے اور مسکراتےہوئے اپنی ماں کو دلاسا دیا۔ 
ماں کو بیماری ہی ایسی لگی جو اُس کی جان لے کر گئی اور ماریا اس دنیا میں بلکل  تنہارہ گئی۔ جب تک اسکول میں پڑھاتی رہی اُس کا وقت گزرتا رہا لیکن ریٹائر منٹ کےبعد اُسے اس گھر میں اکیلے وقت گزارنا بہت مشکل لگنے لگا۔ ماریا نے  وقت گزاری کے لئے خوشبو  والے گھر میں جانا شروع کردیا  جہاں اُس جیسے تنہائی کے مارے بہت سے لوگ موجود تھے۔وہ اُن کے ساتھ رہتی ، اُن کے کام کرتی ، اُن کے ساتھ تفریح کرتی ،اُن کی باتیں سنتی اور پھر رات گئے گھر لوٹ آتی۔ ماریا کو وہاں رہنے والوں کی حالت  دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا تھا۔ وہ تنہائی کے کرب سے واقف تھی لیکن اُس کے صبر کے لئے یہی کافی تھا کہ اُس کا کوئی اپنا اس دنیا میں موجود  نہیں ہے مگر وہاں بسنے والے لوگوں کے تواُن کے اپنے اس تنہائی کے اندھیرے غار میں دھکیل گئے تھے۔وہ اُن کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتی تھی مگر اُس کی پینشن  صرف اُس کی ضرورتوں کو پورا کر پاتی  تھی  وہ اتنی نہ تھی کہ وہ  اس سے کسی کی مدد کر سکتی۔
 ماریا کا دل اب گھر میں بلکل نہیں لگتا تھا۔ دن میں تو اُس کا وقت  خوشبو والے  گھر میں اچھا خاصا گزر جاتا تھا  مگر رات ہوتے ہی  گھر کی ہر چیز اُسے ماں کی یاد دلاتی تھی۔ رات کو سوتے میں اُسے ماں کی آواز سُنائی دیتی جیسے وہ پکار رہی ہو ۔ آخر کار اُس نے ایک اہم فیصلہ کیا اور اپنا گھر کرائے پر دے کر خود بھی  خوشبو والے گھر میں رہنے چلی گئی۔
گلاب کے پودوں کے درمیان بسے اس گھر میں ہر طرف خوشبو ہی خوشبو تھی جو صرف پھولوں کی خوشبو نہ تھی بلکہ اُس محبت اور احساس کی خوشبو بھی  تھی جو وہاں رہنے والوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے تھا۔ پھولوں کا گلدستہ ہاتھ میں لئے ماریا نے  کارڈ کو ایک بار پھر سے دیکھا اور اُن حسین لمحوں کا انتظار کرنے لگی جب نہ صرف محلّے کے بلکہ شہر کے بہت سے بچّے آج اس گھر میں بہت سے تحائف کے ساتھ آئے گے اور اُسے ماں نہ ہوتے ہوئے بھی ماں ہونے کاحسیں  احساس بخشے گے۔ وہ ایک دارلسکون میں موجود تھی، دارالسکون یعنی ایسا گھر جہاں سکون میسر ہو،  جو اُس کی گلی کے  اختتام پر بنے اُس گھر میں بنایا گیا تھا جسے وہ خوشبو والا گھر کہتی تھی اور   جس کے مکیں بے اولاد تھے اور موت  کے بعد اس گھر کو دارلسکون کے لئے وقف کر گئے تھے۔

نوٹ: یہ افسانہ فیس بُک کے اُردو افسانہ گروپ کے ایک ایوینٹ 'اکیسویں صدی کے افسانے' میں شامل ہوا جس کا لنک ذیل میں درج ہے۔


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔