القرآن:
ألا بِذِكْرِ اللهِ تَطمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعہ ۲۸)
ترجمہ: بے شک اللہ کے ذکر سے ہی قلوب کو
اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔
انسان کی خواہشات لامحدود ہیں۔ ایک کے بعد ایک ایسے سر
اُٹھاتی ہیں کہ انسان کو خبر ہی نہیں ہوتی اور وہ اس کو پوری کرنے کی تگ و دو میں
لگ جاتا ہیں۔ اکثر اوقات انسان کو ان خواہشات کو پورا کرنےمیں بہت سی دشواریوں کا
سامنا کرنا پرتا ہے اور اس وقت وہ صرف یہ
محسوس کرتا ہے کہ اُس کے آس پاس کے لوگ ، اقرباء ا ور دوست ان خواہشات کو بہت
آسانی سے پورا کر لیتے ہیں لیکن ان کی
تکمیل کے لئے صرف اُسے ہی تگ و دو کرنی پرتی ہیں ۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی وہ اپنی
تمام تر قوتِ ارادی اپنی ایک معمولی سی خواہش کو پورا کرنے میں صرف کر دیتا ہیں
لیکن وہ اس عمل میں ناکام رہتا ہیں جس کی
اہم وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے سے اوپر والوں
کو دیکھ کر اپنا موازنہ اُن سے کرنے کی کوشش میں جُتے رہتے ہیں جس کے باعث اپنے آپ
کو تکلیف میں مبتلا کئےرہتے ہیں ۔ اور پھر صرف ایک ہی راستہ باقی رہتا ہے کہ اپنی
اس خواہش یا آرزو کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنے رب کے آگے سر بسجود ہوجائے۔
ہم اکثر چھوٹی چھوٹی خواہشات کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں جن کا پورا ہونا یا نہ ہونا ہماری زندگی میں وقتی
طور پر تو اہمیت کا حامل تو ہوتا ہے لیکن اس
کے دُور رس مفادات کچھ نہیں ہوتے ہیں اور اس کے پورا نہ ہونے سے ہمیں کوئی نقصان نہیں
پہنچتا ہے ۔ چونکہ ہم اپنی خواہش اور ضرورت میں فرق نہیں کر پاتے ہیں اس لئے ان
وقتی خواہشات کو اپنی ضرورت سمجھ کر اس کے پیچھے اسطرح بھاگتے چلے جاتے ہیں کہ
ہمیں پھر اچھے برے کی تمیز ہی نہیں رہتی۔ ان میں کچھ خواہشات تو بہت معمولی سی
ہوتی ہے جنہیں ہم اپنا جینا مرنا سمجھ بیٹھتے ہیں مثلاً کوئی چیز خریدنا، کہیں آنا
جانا یا کسی کو اپنا بنانا جیسی خواہشات
شامل ہیں۔ اگرتو خواہش پوری نہ ہو تو ہم
رب کی جانب رجوع کرتے ہیں اور اگر پھر بھی پوری نہ ہو تو رب سے ناراض ہونا جیسے ہم
اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں اور پھر شکوے شکایت کا دفتر کھول کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن
اگر تو خواہش پوری ہوجائے تو ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہتی اور ایسے وقت میں
ہم اپنے رب کا شکر ادا کرنا بھول جاتے ہیں
۔ اگر تو ہم اپنے سے اُوپر دیکھنے کے بجائے تھوڑا نیچے کی جانب دیکھنا شروع کر دیں
تو اُن کی تکالیف اور پریشانیاں دیکھ کر
شائد اپنے آپ کو بہت بہترین حالت میں پائے گے۔
انسان چونکہ لاتعداد
خواہشات کے گھیرے میں ہوتا ہے اگر تو وہ ان خواہشات کو اپنا تابع کر لے تو کسی بھی
قسم کی مشکل اور پریشانی سے بچ جاتا ہے اور اپنی زندگی کوشکر، صبرا ور سکون سے
گزارتا ہے لیکن اگر وہ خود ان خواہشات کا تابع ہو جائے اور انھیں پورا
نہ کر پائے تو پھراس کی زندگی میں صرف رنج باقی رہ جاتا ہے اور اُس کا دل مضطرب
رہتا ہےجس کےباعث وہ جھنجلاہٹ اور پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اس جھنجھلاہٹ اور بے چینی کا سب سے مؤثرعلاج ذکر ہے اور اگر
اس ذکر کے دوران ہماری آنکھ پُرنم ہوجائے تو ہم سکون کی ایسی لذت سے
آشنا ہو جاتےہیں
جس کا کوئی نعم البدل نہیں کیونکہ رب سے بہترین دوست کوئی ہو نہیں سکتا اور جس کو
یہ دوست میسر آجائے اُسےکسی دوسرے کی تلاش نہیں رہتی۔
( جاری ہے)
( جاری ہے)
آپا عمدہ تحریر۔ مطالعہ جاری ہے
جواب دیںحذف کریںShukriya
حذف کریں