القرآن:
"بیشک آسمانوں اور
زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لئے
نشانیاں ہیں۔جو کھڑے اور بیٹھے اور
لیٹے اور ہر حال میں خدا کو یاد کرتےاورآسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے
(اور کہتے) ہیں کہ اے پروردِگار تو نے اس مخلوق کوبےفائدہ نہیں پیدا کیا۔ تو پاک
ہے تو قیامت کےدن ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچانا۔
(سورۃ آلِ عمران (۳)،۱۹۱ ۱۹۰)
"کیا تم نے غور نہیں
کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ تعالیٰ نے تھمارے لیے تابع
کر رکھا ہے اور اُس نے تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں کر رکھی ہیں-" (سورۃ لقمٰن(31 )آیت 20)
یہ کائنات خدا کی تخلیق کردہ ہے اور خدا نے
اسے بڑی خوبصورتی اور ترتیب سے تخلیق کیا ہے۔ اتنا حسن عطا کیا ہےکہ آنکھیں حیراں
ہو جاتی ہے۔ بلندو بالا پہاڑ، بہتے دریا، سر سبز و شاداب وادیاں، صحرا، شمس و
قمر،کہکشاں،پھول ، پودے، درخت، جانور اور
انسان۔ سب کچھ خدا کا تخلیق کردہ ہے ،جہاں خدا نے کائنات کو بے پناہ حُسن سے نوازا
وہی انسان کو حُسن پرست بنایا اور وہ خدا کی تخلیقات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ
سکتا ۔ ان تخلیقات میں سب سے اونچا مرتبہ انسان کو دیا گیا اور اسے اشرف المخلوقات
بنایا گیا کیونکہ انسان کو
اللہ نےاپنے رنگ میں رنگا ہے۔اسں میں اپنی روح پھونکی اور اسےعقل و شعور سے نوازا
اور احساسات کی دولت عطا کی۔ باقی تمام کائنات کو اللہ تبارک و تعالٰی نے انسان کا
تابع کر رکھا ہے وہ اللہ کی مرضی سے جب چاہے اس تسخیر کر سکتا ہے۔دنیا کی تمام
اشیاء کو انسان کے لئے نعمت بنا کر اُتارا گیا اور انسان کو اس سے مستفید ہونے کی
تلقین کی گئی ہے۔ساتھ ہی کائنات پر غور و فکر کرنے کی تلقین کی گئی اور یہ بات
واضح کی گئی کہ انسان کو اس کائنات میں خدا کا نمائندہ بنا کر بھیجا گیا ہے اور اس
کا مقصد اُس ذاتِ پاک کو اپنے اندر تلاش کرنا اور اُس کے احکامات کے مطابق زندگی
گزارنا ہے۔
سیّدنا پیر شمس تبریز
فرماتے ہیں
"انسان کو خدا کی مخلوق کے درمیان ایک منفرد
مقام حاصل ہے۔ خدا فرماتا ہے " میں نے اس میں اپنی روح پھونکی ہے۔" کسی
استثناء کے بغیر ہم میں سے ہر ایک کو زمیں پر خدا کا مندوب بنایا گیا ہے۔ آپ اپنے
آپ سے پوچھیں کہ آپ کب اور کس حد تک مندوب سا برتاؤ کرتے ہیں؟ یاد رکھیں ، یہ روحِ
الٰہی ہم سب میں موجود ہے اورہم سب پر اس کو اپنے اندر سے دریافت کرنا اور اس کے
مطابق زندگی گزارنا فرض ہے۔"
خدانے ہر انسان میں اپنی روح پھونکتے ہوئے
اُسے تخلیق کے کسی نہ کسی جوہر سے ضرور نوازا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ اس
جوہر کو اپنے اندر سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ اس سے نا آشنا رہتے
ہیں۔جو لوگ اپنے اس جوہر سے آشنا ہوجاتے ہیں وہ اللہ کی تخلیقات کو اپنے انداز میں
پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کبھی اپنے کیمرے کی قید میں لا کر تو کبھی اپنے برش
اور رنگوں سے سجا کر تو کوئی اسے اپنے لفظوں کے موتیوں کی مالا میں پروکر تحریر
کرنا چاہتا ہے اور کوئی ان کی تعریف میں گیت بُنتا اور گاتا ہے تو کوئی سُر میں
ڈھالتا ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کتنی ہی کوشش کرلے لیکن وہ خدا کے
تخلیق کردہ اس حُسن کو اُس طرح بیان کرنے میں ناکام ہی رہتا ہے جیسا کہ اُس کی
آنکھ اُس منظر کو دیکھ پاتی ہیں یا دل اُسے محسوس کر پاتا ہے۔
مستنصرحسین تارڑ ایک مشہورمصنف
جناب اور سیّاح اپنی کتاب یاک سرائے میں لکھتے ہیں:
"تو نیلے پہاڑوں
میں...برف کے جو انبار تھے....دریا سرسبز ڈھلوانوں کے اندر اتنے چکاچوند سفید بہاؤ
کے ساتھ بہتا تھا کہ برف کا دریا لگتا تھا اور جہاں بلندی کم ہوتی تھی وہاں اس کے
کناروں تک آتی وسیع چراگاہیں جن میں کہیں دھوپ آتی تھی اور کہیں بادلوں کے سائے
...کہیں جانور تھے جو گھاس پر جھکے ہوئے تھے اور دوری کی وجہ سے ساکت ماڈل لگتے
تھے...نہیں .... میں دراصل اس منظر کو بیان کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا
ہوں...حسن کی ایک جھلک اس پوری کتاب پر بھاری ہوتی ہے جو اس حسن کو بیان کرنے کے
لیے لکھی جاتی ہے۔"
قدرت سے متاثر
ہونا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ انسان چاہے اپنی معاشی زندگی میں کتنا ہی مصروف
کیوں نہ ہو وہ کتنی ہی میکانکی زندگی گزار رہا ہو،
کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں قدرت
کے کسی نہ کسی عمل سے متاثر ضرور ہوتا ہے۔ کبھی بادل کی گرج سےتو کبھی بارش کی
بوندو ں کی ٹِپ ٹِپ سے ، کبھی گر می کی شدت سے تو کبھی جاڑے اور کہر سے ۔کبھی چاند
کے بڑھنے اور گھٹنے سے تو کبھی تاروں کی جھلمل سے۔ کبھی کسی کسی پرندے کی آواز سے
تو کبھی کسی جانور کی غراہٹ سے۔ غرض انسان کبھی نہ کبھی تو قدرت سے متاثر ہوتا ہی
ہے۔
انسان جس قدر قدرت سے قریب تر ہوتا چلا جاتا
ہے اسقدر وہ اس کے عشق میں گرفتار ہوتا جاتاہے۔ انسان کو االلّہ نے فطرطاً حسن
پرست اور روماویت پسند بنایا ہے جس کے باعث وہ خدا کی تخلیقات کو نہ صرف محسوس
کرتا ہے بلکہ اُس سے محبت اور لگاوٹ کے جزبات سے بھی دوچار ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس
روماویت پسندی کو ترویج دیتے ہیں اورقدرت
کے بارے میں صرف جاننے اور انہیں دیکھنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے ہیں بلکہ
اُن کی تحقیق اور مشاہدہ کرتے ہیں اور جو لوگ یہ کر پاتے ہیں وہ قدرت کے پے پناہ
حسن سے نہ صرف محظوظ ہوتے ہیں بلکہ اس کے خالق تک پہنچے کی راہ بھی ہموار کرتے
ہیں۔ ان لوگوں کی محبت جنون بن کر انہیں اس کا عاشق بنا دیتی ہے۔
دانیال شاہ ایک نوجوان
ٹریول جرنلسٹ اور فوٹوگرافر اپنی ایک تصویر کے کیپشن میں لکھتے ہیں
"میں قدرت کا معترف صرف اس کے بارے میں بات کرکے نہیں ہوا بلکہ اس کا
مشاہدہ کرکے ہوا ہوں۔ یہ مجھ پراُس خالق
کے وجود کو منکشف کرتے ہیں جس نے اس خوبصورتی اور رنگوں کو بنایا اور جو دن اور
رات کے آنے جانے کو ، سورج ،روشنی، پہاڑ اور تمام نظام پر تسلط رکھتا ہے۔ یہ ممکن
ہی نہیں ہے کہ قدرت کا مشاہدہ کیا جائے اوراُس کے خالق اللہ کی شان و شوکت سے
انکار کیا جائے۔ میں جتنا زیادہ مشاہدہ کرتا ہوں اتنا ہی میں اپنے خالق سے قریب تر
ہوتا جاتا ہوں۔ "
یہ انسانی فطرت ہے کہ جب بھی وہ کوئی خوبصورت
تخلیق دیکھتا ہے تو اُس کے خالق سے ملنے اور اُسے جاننے کی کوشش کرتا ہے۔اگر ہم
کوئی تصویر دیکھے اور وہ ہمیں پسند آجائے تو ہم یہ ضرور چاہے گے کہ اُس کے خالق کے
متعلق جانے یا کوئی تحریر یا کتاب پڑھےاور وہ ہمارے دل کو چھو جائے تو ہم ہر حال میں اُس کے مصنف کے بارے
میں معلومات حاصل کرنا چاہے گے۔ جب انسان کو کوئی تخلیق پسند آجائے اور وہ اُس کے
خالق کے متعلق جان لے تو وہ اُس کےخالق سے بھی اسقدر محبت کرنے لگتا ہے جتنی اُسے
اُس کی تخلیق سے ہوتی ہے پھر چاہے وہ شخص کتنی ہی دور کیوں نہ بستا ہو، اُس سے
باہمی ربط کا ساماں میسر ہو یا نہ ہو، اُس سے کبھی بات کرنا ممکن ہو یا نہ ہو
پھر بھی دل میں اُس کے لئے محبت اور احترام کا جزبہ کارفرما رہتا ہے۔تو پھر یہ
کیسے ممکن ہے کہ اس خوبصورت کائنات کے ہر رنگ سے متاثر ہونے کے بعد بھی ہم اس کے
خالق کی طرف متوجّہ نہ ہو؟ جسے خدا کی تخلیقات سے محبت ہو جائے وہ ہر صورت اُس کی
تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے اور ہر اُس راستے کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے جو اُسے
اپنے رب کی جانب رواں کردے۔
حق کے راستے پر چلنے میں سب سے بڑی سختی یہ
ہے کہ انسان تنہا رہ جاتا ہے- لیکن یہی راستہ اُس قرب کی جانب لے جاتا ہے جس کو
پانے کے بعد تنہائی کا تصوّر باقی نہیں رہتا-اس راستے پر چلتے ہوئے انسان کاخدا کی
تخلیقات سے خدا کی جانب مُڑ جانا اُس کے عشق کی پہچان ہے۔ لوگ اُس کے عشق کو
دیوانگی اور پاگل پن کا نام دیتے ہیں لیکن وہ ان منازل کو رفتہ رفتہ طے کرتے ہوئے
اپنی پہچان پا ہی لیتا ہے۔جب انسان رب سے قربت محسوس کر لے تو پھر وہ اس بات پر
یقین کر لیتا ہے کہ کوئی تنہا نہیں ہوتا۔ خدا ہر وقت ہر جگہ اس کے ساتھ موجود ہے ۔
پھر وہ اپنا ہر دُکھ اپنے رب کے سامنے ظاہر کرتے ہوئے نہیں گھبراتا ہے اور اللہ سے
دوستی کرنے والے شخص کو کبھی بھی خوشی کی تلاش میں سرگرداں نہیں ہونا پرتا
ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں خوشی کو ڈھونڈ لیتا ہے۔اُسے اس سفر کی دشواریوں
سے خوف محسوس نہیں ہوتا ہے اور وہ یہ سفر بخوبی طے کرتا چلا جاتا ہے اور آخر
کار ایک دن ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے واپسی کاراستہ ممکن نہیں ہوتا۔
محترمہ بانو قدسیہ صاحبہ
اپنی کتاب راجہ گدھ میں تحریر فرماتی ہیں:
"دیوانگی دو طرح کی
ہوتی ہے ۔ایک دیوانہ پن وہ ہوتا ہے جس کی مختلف وجوہات یہاں بیان کی گئیں ۔ جن کی
وجہ سے حواس مختل ہو جاتے ہیں اور انسان کائنات کی ارزل ترین مخلوق بن جاتا ہے
۔لیکن ایک دیوانگی وہ بھی ہے جو انسان کو ارفع و اعلٰی بلندیوں کی طرف کھینچتی ہے
، جیسے آندھی میں تنکا اوپر اٹھتا ہے ۔پھر وہ عام لوگوں سے کٹتا ہے ۔دیکھنے والے
اسے دیوانہ سمجھتے ہیں ، لیکن وہ اوپر اور اوپر چلتا جاتا ہے ۔حتی کہ وہ عرفان کی
آخری منزلیں طے کرتا ہے۔ عام لوگ اسے پاگل بھی سمجھتے ہیں لیکن انسان جب ترقی کرتا
ہے پاگل ہی ہوتا ہے۔"
جیسا کہ کسی بھی منزل کا تعین کرتے وقت ہم سفر پر جانے کے لئے
ضروری سامان کا بندوبست کرتے ہیں اور خاص خیال رکھتے ہیں کہ کوئی چیز غلطی سے بھی
نہ بھول جائے ورنہ سفر میں مشکلات سے ہمکنار
ہونا پڑے گا اور ہم سفر کی
لذتوں سے محظوظ ہونے سے رہ جائے گے اور منزل پر پہنچ کر مطمئن نہ ہوگے۔ اسی طرح
روح کے اس سفر پر نکلنے سے پہلے بھی ہمیں زادِ راہ تیّار کرنا پرتا ہے۔ اپنے دلوں کی مٹی کو نم کرنا پرتا ہے،
صبر ، محبت ، رحمدلی اور حلیمی کا چولا اوڑھنا پرتا ہے۔ اپنے آپ کو اُس ذاتِ پاک کی
تخلیقات کے ساتھ ساتھ اُس کی مخلوق کے عشق میں بھی ڈبونا پرتا ہے۔ جب کہیں جا کر
منزل پر روح کو تسکین میسر آتی ہے۔لیکن اس تسکین سے مستفید ہونے کے لئے بھی سفر
شرط ہے!!
ثمینہ طارق
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں