"محبت تو پتوں کی سائیں سائیں کی طرح ہوتی ہے، نہ دکھائی دیتی ہے، نہ پکڑ میں آتی ہے بس اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔"
~ مستنصر حسین تارڑمورخہ 10 جنوری 2020 کو ہمدرد یونیورسٹی کی جانب سے محترم مستنصر حسین تارڑ صاحب کو 'لائف ٹائم ایچویمنٹ ایوارڈ' سے نوازا گیا۔ اس ایوارڈ کے ملنے کی خوشی کو منانے کے لئے MHT Readers World کی جانب سے 11 جنوری 2020 کو کراچی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں تارڑ صاحب اور ان کی بیگم میمونہ صاحبہ نے بطور چیف گیسٹ شرکت کی۔
ایک لمبے وقفے کے بعد مجھے بھی اس محفل میں تارڑ صاحب سے دوبارہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ساتھ ہی اس محفل میں موجود تمام شرکاء سے بھی جن میں کچھ پرانے دوست اور شناسا شامل تھے تو کچھ نئے چہروں سے بھی ملاقات رہی۔
تارڑ صاحب سے پہلی ملاقات 2014 میں ان کی کتاب لاہور سے یارقند کی تقریب رونمائی میں ہوئی تھی جس کی تفصیل میں اپنے بلاگ طویل سفر کے بعد ایک خوشبو بھری ملاقات، مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ساتھ ' میں تحریر کر چکی ہوں اور اس کے بعد بھی تارڑ صاحب کے نام میرے بہت سے بلاگ رہے جن میں 'تمہارے کیے لفظ'، 'سالگرہ مبارک' اور 'تکیہ تارڑ' شامل ہیں۔ لیکن عرصہ دراز سے کچھ ذاتی وجوہات کی بناء پر بلاگ لکھنا ترک کر دیا اور آج دوبارہ سے یہ لفظ صرف تارڑ صاحب اور میمونہ صاحبہ کی بدولت تحریر ہو رہے ہیں جس کے لئے میں ان کی نہایت ممنون ہوں۔
اوپر دئے ہوئے اقتباس کو جب جب پڑھا اس کا ہر لفظ دل میں اترتا ہوا محسوس ہوا اور کل کی ملاقات کے بعد تو ان لفظوں پر ٹوٹ کر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے۔ تارڑ صاحب سے اور ان کے چاہنے والوں سے محبت کا جو جذبہ دل میں رہا کبھی اس پر غور نہ کیا۔ لیکن جب کل تارڑ صاحب کے ساتھ تمام شرکاء سے ملاقات ہوئی تو محسوس ہوا کہ یہ محبت تو بہت شدید ہے جو دکھائی تو نہیں دیتی مگر ہمیں اپنے حصار میں لئے رکھتی ہے اور عرصہ دراز تک ملاقات نہ ہونے کے باوجود اس میں کمی کا امکاں موجود نہیں۔
تارڑ صاحب سے پہلی ملاقات کے بعد شدت سے خواہش رہی کی میمونہ صاحبہ سے ملاقات ہو پائے اور اپنی اس خواہش کا ذکر میں نے اپنے بلاگ خوشبو بھری ملاقات میں ان الفاظ میں کیا تھا 'یہ ملاقات میری زندگی کا ایک اہم پڑاؤ ہے جس کی یادیں تاحیات میرے ساتھ رہے گی مگر اس میں ایک کمی سی رہ گئی جو کبھی نہ کبھی ضرور پوری ہوگی اور وہ ہے تارڑ صاحب کی بیگم میمونہ جی سے ملاقات کیونکہ تارڑ صاحب کی مسکراہٹ میمونہ جی کی مسکراہٹ کےبغیر ادھوری رہتی ہے۔' اور کل یہ خواہش بھی پوری ہوئی۔
تارڑ صاحب کی محبت اپنے چاہنے والوں کے لیے بے پنہاں ہے کہ وہ ناسازگیء طبعیت اور تھکاوٹ کے باوجود ان کو ملاقات کا شرف بخشنے ہیں اور ساتھ میمونہ صاحبہ کا ظرف کمال کا ہے وہ بھی سب پر اپنی محبتوں کو نچھاور کرتی ہیں۔ کل جب اقبال خورشید صاحب نے ان سے سوال کیا کہ تارڑ صاحب کی زندگی میں تو اتنی محبتیں آئیں تو آپ کو ان کی محبت میں کمی محسوس ہوئی؟ اس کے جواب میں میمونہ جی کا کہا ایک چھوٹا سا جملا وسیع معنی رکھتا ہے اور ان کی اعلی ظرفی کی مثال ہے انھوں نے کہا "سب کو اپنے اپنے حصے کی محبت ملی" ۔
حرف آخر
کل کی اس محفل میں بھی سب نے اپنے اپنے حصے کی محبتیں سمیٹیں اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے اس محفل میں شرکت کر کے اپنے حصے کی محبت کو اپنی جھولی میں سمیٹا۔ تارڑ صاحب اور میمونہ صاحبہ اور اس محفل میں شامل تمام شرکاء کے ساتھ ساتھ عاطف فرید صاحب کی تہہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے اس محفل میں شرکت کا موقع دے کر دوبارہ ان محبتوں کی جانب مائل کیا۔
ثمینہ طارق
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں