Daughter: "One shouldn't say 'stupid', right?"
Father: "That's right."
Daughter: "If you say 'stupid', God will punish you?"
Father: "I think God will be disappointed, actually."
Daughter: "Oh, if God is disappointed then He'll not be happy. He'll be sad, right?"
Father: "Uhhh, right..."
Daughter (getting teary-eyed): "I don't want Him to be sad. I won't say 'stupid' ever!"
Father (in his mind): Wow, isn't Love a better incentive than the fear of punishment?
Father: "That's right."
Daughter: "If you say 'stupid', God will punish you?"
Father: "I think God will be disappointed, actually."
Daughter: "Oh, if God is disappointed then He'll not be happy. He'll be sad, right?"
Father: "Uhhh, right..."
Daughter (getting teary-eyed): "I don't want Him to be sad. I won't say 'stupid' ever!"
Father (in his mind): Wow, isn't Love a better incentive than the fear of punishment?
بیٹی: "کسی کو 'احمق'، نہیں کہنا چاہیے ٹھیک؟"
باپ: "ٹھیک ہے"
بیٹی: "اگر آپ 'احمق' کہے گےتو خدا آپ کو سزا دے گا؟"
باپ: "میرا خیال ہےکہ
اصل میں خدا مایوس ہو گا"
بیٹی: "اوہ ! اگر خدا
مایوس ہو گا تو وہ خوش نہیں ہو گا ۔ وہ اداس ہو گا، ٹھیک ؟"
باپ: "ہمم، ٹھیک..."
بیٹی (آنسوؤں کے ساتھ):
"میں اُسے اداس نہیں کرنا چاہتی۔ میں کبھی'احمق' نہیں کہوں گی!"
باپ (میں اپنے دماغ میں): واہ، کیا محبت سزا
کے خوف سے بہتر ترغیب نہیں ہے؟
کچھ عرصہ قبل فیس بک پر ایک فرینڈ کی وال پر یہ پوسٹ انگریزی
میں لکھی دیکھی جس کا اردو میں ترجمہ بھی اوپر درج ہے ۔یہ دونوں باپ بیٹی کے
درمیان مکالمات تھے جن میں سے نام کو ہٹا کر میں نے باپ اور بیٹی لکھ دیا ہے۔اس
پوسٹ نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا اور
میں نے ایک تجربے سے گزرنے کے لئے اپنے چند طالب علموں (جن میں ہر عمر کے بچّے
شامل تھےجماعت اوّل سے لے کر پنجم تک)سے کچھ سوالات کئے ۔
٭سوال
نمبر ۱ " کیا ایک دوسرے کو غلط ناموں سے پکارنا چاہئے؟ مثلاً پاگل، احمق، بے
وقوف، نکمہ، گدھا یا کوئی اور نام جو ہم چڑ بنا کر رکھ لیتے ہیں۔ جوابات کے ساتھ
ایک وجہ بھی بتانی تھی ۔
جوابات:
۱- نہیں ،کیونکہ اللہ ناراض ہوتا ہے اور ہم
کو سزا دیتا ہے۔
۲- نہیں ،کیونکہ اس سے اُن لوگوں کو بُرا لگتا ہے اور وہ ناراض ہو جاتے ہیں اور
ہم سے بات نہیں کرتے۔
۳-نہیں، کیونکہ یہ بُرا کام ہے اور بُرا کام کرنے والا
دوزخ میں جائے گا۔
۴-نہیں، کیونکہ کسی کو بُرا کہنے والا خود
بُرا ہوتا ہے اور بُرے لوگوں کو اللہ سزا دیتا ہے۔
۵-نہیں، کیونکہ یہ بُرا کام ہے اور بُرے کام
کرنے والے کو اللہ پسند نہیں کرتا اور دوزخ میں ڈال دیتا ہے۔
۶-نہیں کیونکہ کسی کو بُرا کہنے سے اللہ
ناراض ہوتا ہے اور ہم کو اس کی سزا ملتی ہے۔
٭سوال نمبر ۲-ہم سب کو کس نے پیدا کیا ہے؟
جواب: تمام بچّوں کا جواب یکساں تھا "
اللہ تعالیٰ نے۔
٭سوال نمبر ۳-آپ کو سب سے اچھا کون لگتا ہے؟
جواب: ۹۰٪امّی ابّو اور ۱۰٪بھائی یا بہن
٭سوال نمبر۴۔ آپ کو وہ کیوں اچّھے لگتے ہیں ؟
جواب: یکساں " کیونکہ وہ ہم سے پیار
کرتے ہیں۔
٭سوال نمبر ۵- آپ کس سے پیار کرتے ہیں؟
جواب: یکساں "امّی یا ابّو"
٭سوال نمبر ۶- کیا آپ اپنے امّی ابّو کا کہا
مانتے ہیں اور کیوں اور اگر نہیں مانتے تو کیا ہوتا ہے؟
جوابات:
۱- جی ہاں ہمیشہ کیونکہ وہ ہم سے پیار
کرتے ہیں۔
۲-جی ہاں! کیونکہ نہیں مانتے تو وہ ہم کو
ڈانٹتے ہیں۔
۳-کبھی مانتے ہیں کبھی نہیں کیونکہ ہم کو
اپنی مرضی کا کام اچھا لگتاہے۔ نہیں مانتے ہیں تو ڈانٹ پرتی ہے اور کبھی کبھی مار
بھی۔
۴-مانتے ہیں کیونکہ نہیں مانتے تو وہ ناراض
ہوتے ہیں اور پھر ہماری بات بھی نہیں مانتے۔
۵-جی ہاں ! کیونکہ نہیں مانتے تو وہ ہم سے
ناراض ہو جاتے ہیں اور دکھی بھی۔
۶-امّی کا کہنا مانتا ہوں کیونکہ مجھے امّی بہت پیار کرتی ہے۔
بچّوں
سے ان تمام سوالات کے جوابات سُن کر ایک بات تو ثابت ہوئی کہ ہر بچّہ یہ جانتا ہے
کہ اُس کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ اُس کے والدین
اُس سے بے انتہا پیار کرتے ہیں اور وہ بھی سب سے زیادہ اپنے والدین سے ہی پیار
کرتا ہے لیکن پھر بھی اُن کا کہنا صرف اس لیئے مانا جاتا ہے کہ یا تو نہ ماننے پر
ڈانٹ یا مار پرے گی یا پھر اُن کی خواہشات پوری نہ کی جائے گی یعنی گھومنا پھرنا،
کھلونے خریدنا وغیرہ۔ کچھ بچّوں نے ہی اپنے والدین سے محبت کا حوالہ دیا کہ وہ اُن
کا کہا اس لئے مانتے ہیں کے وہ اُن سے پیار کرتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ
بہ آسانی اخز کیا جاسکتا ہے کہ ہم والدین بچّوں کو لالچ دے کر یا پھر ڈر ا دھمکا
کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچّہ نفسیاتی طور پر اسی رویے
کا عادی ہو جاتا ہے اور اُسے یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ والدین ہم سے پیار کرتے ہیں
اس لئے ہمیں اُن کا کہنا ماننا چاہئے۔وہ ہر کام صرف سزا کے خوف کے تحت کرتا ہے
یعنی خوف محبت پر حاوی ہوجاتا ہے۔
اسی
طرح ہر بچّہ یہ ضرور جانتا ہے کہ کسی کو بُرے نام سے پکارنا بُرا عمل ہے اور اس سے
اللہ ناراض ہوتا ہے لیکن وہ یہ بُراکام اس لئے کرنے سے کتراتا ہیں کہ وہ اللہ سے
ڈرتا ہیں کہ وہ انہیں سزا دے گا اور جیسا کہ ہربچّہ پری پرائمری سے ہی اپنی دینیات
کی کتاب میں یہ جملا رٹتا رہتا ہے کہ
"اچھا کام کرنے والا جنّت میں جائے گا اور بُرا کام کرنے والا دوزخ
میں جائے گا " تو وہ صرف دوزخ کے ڈر سے اپنے آپ کو روکنے کی کوشش کرتا ہے نہ کہ اس لئےاس سے اللہ ناراض ہوگا۔ اللہ کی
ناراضگی کا احساس بھی سزا کے خوف کے تحت ہی اثر انداز ہوتا ہے نہ کہ اس لئے کہ
اللہ ہم سے محبت کرتا ہے اس لئے اُس کا کہا ماننا چاہئے۔
ہم
اپنے بچّوں میں سزا اور دوزخ کا خوف اور جنّت کی لالچ کو تو پروان چڑھاتے ہے ہیں
لیکن اُن میں اللہ سے محبت کا احساس نہیں پیدا کر پاتے ہیں۔ ہم اُنہیں یہ کیوں
نہیں بتاتے کہ جب امّی تم سے اتنا پیار کرتی ہے تو اللہ تم سے اُس سے ۷۰ گنا زیادہ
پیار کرتا ہے اور اس کے بدلے میں تم سے
کچھ نہیں چاہتا۔ امّی ابّو تو تمھیں کھلونے صرف لا کر دیتےہیں، اچھے کھانے کھلاتے
ہیں لیکن رزق تو وہی عطا کرتا ہے۔اُس نے تو تمام کائنات کو انسان کے لئے پیدا کر
دیا ہے پھل پھول، پیر پودے ، درخت باغات، پہاڑ دریا یہ سب تمھارے لئے اللہ نے دئے
ہیں اور صرف یہی نہیں وہ والدین جن سے تم پیار کرتے ہو وہ بھی تمھیں اللہ نے عطا
کئے ہیں۔محبت کے لئے کئے جانے والے کام دل
سے کئے جاتے ہیں جبکہ سزا کے خوف سے کئے
جانے والے کام مجبوری میں کئے جاتے ہیں۔
آپ
کیا کہتے ہیں خوف کو محبّت پر حاوی ہونا چاہئے یا محبت کو خوف پر؟ کیا محبّت سزا
کے خوف سے بہتر ترغیب ہے؟
بہت عمدہ اور فکر انگیز تحریر۔
جواب دیںحذف کریںآپ کے سوال کا جواب تو ظاہر و باہر ہے۔ محبت جو معجزے کر اور کروا سکتی ہیں وہ خوف کے بس کی بات نہیں۔ توجہ دلانے کا شکریہ۔
خوش رہیے۔ لکھتی رہیے۔
شکریہ!!
حذف کریں