Translate

جمعرات، 11 دسمبر، 2014

یادیں ـــــ میرے بابا کے نام


مجھے بلاگ لکھتے تقریباً دیڑھ سال ہونے آئے لیکن شائد یہ میرا پہلا بلاگ ہے جو میں کسی کاپی پیسٹ کے بغیر دائریکٹ بلاگ پر لکھ رہی ہوں اور اپنے پڑھنے والوں سے مخاطب ہو کر لکھ رہی ہوں لیکن پھر بھی اسے آج کی تاریخ میں پوسٹ نہ کر سکوں گی۔ کیونکہ اسے لکھنے کا وقت اُس وقت میسر آیا جب کہ آج کا دن بس گزرا جاتا ہے۔ آج یعنی ۱۰ دسمبر ۲۰۱۴ کو میرے والد کی ۲۶ ویں برسی ہے۔ سارا دن اس قدر مصروفیت میں گزرا کہ لیپ ٹاپ کھولنے کا وقت ہی نہ مل سکا۔ وقت لگتا ہے جیسے پر لگا کر اُڑ جاتا ہے ہم کتنی ہی کوشش کر لے اسے ہاتھ میں نہیں تھام سکتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بھول بھی جاتے ہیں لیکن والدین کبھی نہیں بھولتے۔ جتنی بھی مصروفیت رہی لمحہ بھر بھی اُن کا خیال دل سے جُدا نہ ہوا اور مسلسل اُنہیں یاد کرتی رہی بہت کچھ یاد آیا کچھ یادیں میرے لفظوں کو پڑھنے والوں کی نظر۔
بچپن ہی سے والدہ کے زیادہ قریب رہی لیکن پہلی اولاد ہونے کے ناطے والد کا لاڈ اور پیار بھی اسقدر ملا کہ ممکن ہی نہیں کی اُن لمحات کو بھولا جا سکے۔اپنی حیشیت کے مطابق اُنہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مجھے کبھی کسی کمی کا سامنا نہ کرنا پرے۔ کوشش کرتے کے نہ صرف میری بلکہ ہم تینوں بھائی بہنوں کی خواہشات کو پورا کرتے اس کے لئے  مسلسل اوور ٹائم کرتے لیکن جب رات گئے گھر آتے تو ہماری چھوٹی چھوٹی فرمائشوں کو کبھی نہ بھولتے اور جس نے جو مانگا ہوتا وہ ضرور لاتے۔پھر وہ ہمارا پسندیدہ بسکٹ ہو یا ٹافی یا کھیل کے لئے کوئی بال ہو یا لٹو۔
کھیل سے یاد آیا وہ ہمارے ساتھ ہر کھیل میں شریک ہوتے۔ چھوٹے سے اپارٹمنٹ کا چھوٹا سا برامدہ ہمارے کھیل کا میدان ہوتا اور وہاں ہم ہر قسم کے کھیل کھیلتے اور اکشر تو سارا گھر ہی کھیل کا میدان بنا ہوتا جس میں ماں بابا دونوں شامل ہوتے۔ کرکٹ، بیڈمنٹن، لٹو چلانا،  رسی کودنا، چھپن چھپائی ہمارے ہفتہ وار کھیل میں شامل تھے جو چھُٹی کے دن کھیلے جاتے تھے جبکہ لُڈو، چوڑ پولیس اور نام چیز جگہ ہمارے معمول کے کھیل ہوا کرتے تھے جو تقریباً ہر روز رات کو کھانا کھانے کے بعد کھیلے جاتے تھے۔ ایک اور کھیل جو مجھے بہت خوب یاد ہے جب میں اور میری بہن بہت چھوٹے ہوا کرتے تھے تو وہ دونوں کو ایک ساتھ اپنے کندھوں پر بٹھا کر گھومتے تھے تاکہ ہم امّی کو روٹی بناتے ہوئے تنگ نہ کریں اور وہ جلد فارغ ہو جائے۔ اس وقت راشن میں گھی اور تیل ملا کرتا تھا اور بہت لمبی لائنوں میں کھڑا رہنا پرتا تھا۔ ایک دن ایسے ہی کسی کو ڈبہ کندھے پر اُٹھائے دیکھا تو پھر جب بھی بابا ہم میں سے کسی کو کندھے پر بٹھاتے تو میں فوراً شور مچاتی گھی لے لو بھائی گھی لے لو۔ وہ شانا نہیں بھولتا ۔ اُٗس کا لمس نہیں بھولتا ۔ والدین کا پیار کبھی نہیں بھلایا جا سکتا ممکن ہی نہیں۔
کتابیں پڑھنے کا شوق چڑھا تو کتابیں خریدنے کی تو سکت نہ تھی لیکن پھر بھی جب اتوار کو اوور ٹائم کے لئے جاتے تو پُرانی کتابوں کی نہ جانے کونسی مارکیٹ سے ڈھیر ساری کتابیں جن میں نونہال، بچّوں کی دنیا اور تعلیم و تربیت کے علاوہ میگزین بھی ہوا کرتے تھے جنہیں میں اگلے اتوار تک ختم کرنے کی کوشش کرتی۔ پھر اپنے دوست کے بک شاپ سے رات کو اشتیاق احمد کا ناول لاتے جو ہر ویک اینڈ پر آتا اور صبح سویرے اُنہیں واپس کرنا ہوتا اور میں اور اُن کے دوست کی بیٹی جو میری بہت ہی گہری دوست تھی، مل کر رات بھر میں پڑھتے۔ روزانہ رات کو ریڈیو پر چترہال لگا کر بابا کے ساتھ بیٹھ کر کھیلتے ہوئے گانے سننا اور پھر جب ریڈیو گرام آیا تو ریکارڈ لگا کر اس کو سوئی کے نیچے مسلسل چلتے ہوئے حیرت سے تکتے ہوئے اپنی بے سُری آوازوں میں گانا بھی ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
کبھی کھانے کے معاملے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی امّی کو وہ ہر وہ چیز شوق سے کھاتے جو امّی پکاتی۔یہی وجہ تھی کہ ہم تینوں بھائی بہنوں کو بھی سب کچھ کھانے کی عادت پر گئی اور کوئی بھی چیز کھانے میں کوئی پریشانی نہ ہوئی دال، سبزی ہو یا گوشت۔ ہر ممکن کوشش کرتے کے کم از کم اتوار کا ناشتہ سب کا اپنی پسند کا ہو۔ میرےاور بھائی کے لئے خاص کر کے انڈے اور ڈبل روٹی آتے جب کہ بہن کو مکھن اور سلائس پسند تھا تو اُس کے مکھن سلائس ضرور آتا اور ماں بابا وہی گھر کی روٹی اور چائی کا ناشتہ کرتے۔ اُس وقت تو شائد ہمیں کبھی اس کا احساس نہ ہوا لیکن اب جیسے جیسے یاد آتا ہےتو محسوس ہوتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں پھر وہ چاہے بابا کا مسلسل اوور ٹائم کرنا ہو یا امّی کا سارا دن مشین چلانا، کپڑے سینا۔
کیا کیا یاد کیا جائے۔ بیٹیاں تو یوں بھی بہت جلد جدا ہو جاتی ہے والدین سے تو ہم بھی ہوئے اور اپنی رخصتی پر بابا کی آنکھوں کے آنسو تاحیات ساتھ رہے گے۔جب  اپنی بیٹی کو رخصت کر رہی تھی اور اپنے شوہر کی آنکھوں میں آئے آنسو دیکھے تو ایک چہرہ میری نگاہوں میں گھوم گیا اور وہ چہرہ کوئی اور نہیں بابا کا تھا۔ بیشک وہ دینا میں موجود نہیں مگر ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں۔ بیٹی کو جنم دیا تو بہت خوشی تھی ۔ پہلی اولاد تھی لیکن مجھ سے زیادہ خوشی بابا کو تھی اور وہ شائد اُسے دیکھنے کے لئے ہی زندہ تھے کیونکہ ڈاکٹر اُن کی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے۔ اُنہیں کینسر تھا۔ میری بیٹی کو سارا وقت اپنے پاس لٹائے رکھتے ۔ بول نہیں سکتے تھے لیکن اُن کی آنکھوں سے اُن کی خوشی جھلکتی تھی اور جب بیٹی ۲۵ دن کی تھی تو وہ ہمیں ہمیشہ کےلئے چھوڑ کر چلے گئے ۔ مگر ان ۲۵ دنوں میں لمحہ بھر بھی اُسے اپنے سے جُدا نہ ہونے دیا۔

آج اُن کے انتقال کو ۲۶ برس گزر چکے ہیں ۔ یادیں تو کبھی ختم نہ ہوگی۔ وقت گزر جاتا ہے اور زندگی بھی۔ شائد کسی روز ہم بھی ایسے ہی گزر جائے گے۔مگر یادیں رہ جائے گی۔ ہمیشہ کے لئے۔ دو سال قبل لکھی ایک نظم بابا کے نام۔
یادیں
دسمبر جب بھی آتا ہے
بہت تڑپاتا ہے
مجھ کو میرا بچپن
بہت یاد آتا ہے
جب کبھی مجھ کو
 میرا بچپن یاد آتا ہے
 جی بھر کے رونے کو پھر
 میرا دل چاہتا ہے
 جس کی چھاؤں میں
 بسر ہوئی زندگی میری
 اُس درخت کا مضبوط تنّا
 بہت یاد آتا ہے
 جب بھی مجھ کو
 میرا بچپن یاد آتا ہے
 مجھ کو میرے بابا کا
 مضبوط شانا
 بہت یاد آتا ہے
 دسمبر جب بھی آتا ہے
 بہت تڑپاتا ہے



دعا:
رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا ۾ (بنی اسرائیل۔۲۴)
ترجمہ: اے میرے پروردگار! جس طرح میرے والدین نے مجھے چھوٹے سے کو پالا ہے اور (میرے حال پر رحم کرتے رہے ہیں) اس طرح تو بھی ان پر (اپنا) رحم کر۔ آمین!
بلاگ پڑھنے والے تمام لوگوں سے  اپنےوالدین کی مغفرت کے لئے دعاؤں کی طلبگار

ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں