وہ بچّہ کیسے معتبر ہوگا
درد سے جس کا سینہ
خوگر ہوگا
پانی پر نقش بنا کر
اپنے ہاتھوں سے مٹاتا ہے
کبھی کاغز پر منظر کھینچ کر
پانی میں اُس کو ڈبوتا ہے
وہ کیوں کر ان نقوش میں
ان مناظر میں
رنگ بھر پائے گا
مفلسی کی چادر تلے
جس کا اپنا چہرہ
بے رنگ ہوگا
اس کی تو آنکھ کا ہر منظر ہی
بدرنگ ہوگا
وہ بچّہ کیسے معتبر ہوگا
درد سے جس کا سینہ خوگر ہوگا
کبھی اپنے جذبوں کو
لفظوں میں پرو کر تولتا ہے
کبھی لفظوں کی گہرائی میں خود اُتر کر
اپنے جذبوں کو ڈبوتا ہے
سارے لفظ مل کر بھی
اس کے اندر کو نہیں کھولتے
اُس درد کو نہیں ٹٹولتے
جو کہ
اُس کی آنکھ کا صرف
ایک آنسو بولتا ہوگا
وہ بچّہ کیسے معتبر ہوگا
درد سے جس کا سینہ خوگر ہوگا
یہ نظم میں نے ۲۰۰۵ میں کشمیر میں آنے والے زلزلے کے بعد لکھی۔ اُن دنوں میں ایک کمیونٹی اسکول سے وابستہ تھی اور بہت سے ایسے بچّے رابطے میں تھے جن کا معیارِ زندگی اسقدر بدتر تھا کہ وہ مفلسی اور محرومی کی انتہا پر تھے۔ ہمارا کمیونٹی سینٹر ایسے بچُوں کی مفت تعلیم و تربیت کے لئے کام کر رہا تھا ۔ اسی سلسلے میں کچھ ورکشاپ منعقد کئے گئے تھے جن میں بچّو ں کو مختلف سرگرمیاں کرواتے ہوئے اُن کا تفصیلی مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم ہوا اور ایک سوچ مسلسل ذہن میں رہی کہ یہ بچّے آخر کس طرح اپنا مستقبل سنوار پائے گے جن کے پاس نہ صرف تعلیمی سہولتوں کا فقدان ہے بلکہ جنہیں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ بہت سے ادارے کوشش تو کر تے ہیں کہ انہیں بہترین تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ اُن کی زندگی کی بنیادی ضروریات کو بھی پورا کیا جائے لیکن ان بچوں کو نفسیاتی مدد کی بھی بے انتہا ضرورت ہوتی ہیں جو صرف محبت اور شفقت سے ہی فراہم کی جاسکتی ہے۔
انہی دنوں ۵ اکتوبر کو رمضان کے مہینے میں ہی پاکستانی تاریخ کاایک بڑا زلزلہ وقوع پزیر ہوا ۔ صبح جیسے ہی ٹی وی کھولا تو خبروں میں یہ سُن کرلرزہ طاری ہو گیا کہ زلزلہ سے بہت سے بچّے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ وہ اسکول میں تھے اور اسکول کی عمارات کچی تھی وہ سب بچّے منوں مٹی تلے دب گئے- اس زلزلے نے جہاں لاکھوں لوگوں کی جانیں لی وہیں پر بے شمار لوگ معزور ہوگئے جن میں بے شمار بچّے شامل تھے۔ ایک سوچ جو اُن بچوں کو دیکھ کر دل میں اُبھری وہ یہی تھی کہ ہم ان بچوں کی مفلسی کو دیکھ کر اسقدر افسردہ ہوتے ہیں اب یہ بچّے جو اتنے بڑے حادثے سے گزرے ہیں اورنہ صرف اپنے ماں باپ اور رشتے داروں کو بلکہ اپنے جسم کے اعضاء تک کھو بیٹھے ہیں آخر کس طرح اس دنیا میں اپنا مقام بنا پائے گے۔ اسی طرح جب ۲۰۱۰ میں سیلاب آیا تو بے شمار بچّے اپنوں سے بچھڑ گئے ، اپنے گھر بار، بہن بھائی اور ماں باپ کو کھوبیٹھے۔ کتنی بیماریوں کا شکار ہوئے اور پھر تھر میں قحط کا شکار ہونے والے بچے جنہیں نہ تو خوراک مہیا تھی اور نہ ہی رہنے کا ٹھکانا۔ ان تمام قدرتی آفات میں تمام لوگ متاثر ہوتے ہیں لیکن اس کا سب سے زیادہ شکار بچّے ہوتے ہیں وہ نہ خود کو سنبھالنے کے قابل ہوتے ہیں نہ ہی ان آفات کو اور ان کے اثرات کو سمجھنے کے۔
آج اپنے اطراف میں نظر گھماؤ تو ہر طرف ایسی آفات موجود ہیں جو کہ بچّوں سے اُن کے جینے کا حق چھین رہی ہے اور افسوس تو یہ ہے کہ وہ صرف قدرتی آفات نہیں ہیں بلکہ انسانوں کے اپنے پیدا کردہ مسائل ہیں جن سے سب سے زیادہ متاثر بچّے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ جنگ ہو یا دہشت گردی ہو بچّے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔شام ہو، عراق ہو یا فلسطین ہر طرف بے شمار بچّے اپنی جانوں کو کھو چکے ہیں اوربے شمار معزور ہو چکے ہیں۔کشمیر ہو یا وزیرستان یا دنیا کا کوئی بھی حصّہ جہاں دہشت گردی ہو رہی ہے وہاں بچّے متاثر ہو رہے ہیں اور ایسے بچّے کس طرح زندگی کی ڈور کو کھینچ کر چل سکتے ہیں۔ جب ہم نے اسکول میں آنے والے غریب بچوں کا تجزیہ کیا تو ہمیں یہ جان کر بے حد دُکھ ہوا تھا کہ کوشش کے باوجود یہ بچّے نفسیاتی طور پر ایک پُر سکون اور پُر آسائش زندگی بسر کرنے والے بچّے کی طرح نہیں ہو سکتے ہیں۔
تو سوچئے یہ جو بچے ان تمام آفات کی نظر ہو رہے ہیں ، جو دھماکوں میں نہ صرف اپنے گھر بار اور خاندان کو کھو بیٹھتے ہیں بلکہ اپنے ہی جسم کے اعضاء کو کھو کر ساری زندگی معذوری میں گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں وہ کسطرح اپنی زندگی کو نارمل رکھ پائے گے۔ ہمیشہ ایک کمی کا شکار رہے گے اور اس کے زمّہ دار ہم بڑے ہیں کیونکہ اس جنگ و جدل کے محرک ہم ہی ہے جنگ بچّے نہیں کرتے مگر متاثر بچّے ہی ہوتے ہیں۔
آج ہمارے ملک کے ایک مایہ ناز مصنف مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ایک انڑویو کا ایک حصْہ دیکھا جس میں اُنہو ں نے ایسے ہی بچّوں کے بارے میں بات کی ہے تو یہ نظم یاد آئی اور یہ سب تحریر ہوا اس لیے اُن کے انٹرویوں کا لنک دے رہی ہوں آپ بلاگ پڑھے تو یہ لنک ضرور دیکھئے گا۔
اچھی تحریر
جواب دیںحذف کریںشکریہ جناب منیر انور صاحب
حذف کریں