Translate

جمعہ، 9 اگست، 2013

خو شی


زندگی کیا ہے ؟؟ یہ سوال اکثر ہم اپنے آپ سے کرتے رہتے ہیں اور اس کے کے مختلف جوابات ہمیں اپنے ذہن سے یا اپنے اس پاس کے لوگوں سے ملتے رہتے ہیں ۔کوئی کہتا ہے زندگی چیلنج ہے ، کوئی کہتا ہے زندگی درد ہے اور کوئی زندگی کو خوشی گردانتا ہے۔غرض کہ ہر شخص کا زندگی سے متعلق ایک الگ نظریہ ہے۔  زندگی چاہے کچھ بھی کیوں ہو، کیسی ہی کیوں نہ ہو ہمیں تو فقط اس سے سکوں اور خوشی کی تلاش رہتی ہے اور اس سکوں اور خوشی کو حاصل کرنے کے لئے نہ جانے ہم کیا کچھ نہیں کر جاتے ہیں۔دولت مند ہے تو اپنی خوشی کے لئے ہر ممکن آسائشات جمع کر کے رکھتے ہیں، اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لئے دنیا کے ہر کونے سے کچھ نہ کچھ خرید کر لے آتے ہیں۔ اپنے بچوں کے لئے بےشمارکھلونے خریدتے ہیں اور ساتھ ساتھ انہیں ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، اور اگر دولت پاس نہیں تو یہی خوشی ہم اپنوں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا اپنے رشتوں میں بے شمار دوست بناتے ہیں اور ان کے ساتھ محفلیں جماتے ہیں کہ ان کے ساتھ وقت گزارنے میں ہمیں خوشی ملتی ہے اور ہم اپنا درد بھول جاتے ہیں۔

 ہم ایک آسان سی بات نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ خوشی تو ہمارے دل میں بستی ہیں. یہ نہ تو دولت و آسائش میں میسر ہے نہ ہی خوبصورت لوگوں کی سنگت میں۔ جب ہم یہ جانتے ہیں کہ الله رب العزت ہی ہمیں دنیا میں سب سے زیادہ چاہنے والا ہے اور وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ہماری زندگی کو صرف درد اور دکھ سے بھر دیں۔ ہر شخص کو اس کی برداشت کے مطابق ہی درد اور تکلیف ملتی ہے اور اسی طرح سے ہر انسان کو اس کی ضرورت کے مطابق خوشی بھی ملتی ہے اور سکون بھی ملتا ہے۔

لیکن ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہم اکثر اوقات دنیا کی آسائشات کو ہی خوشی گردانتے ہیں اور بہت سی ایسی باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو ہمیں بے انتہا خوشی دے سکتی ہے۔ خوشی تو ہر انسان کے دل میں ہی بستی ہے فقط ہمیں اس خوشی کو پہچاننا ہے اور اسی کی تلاش کرنی ہے۔ خوشی کو اپنے اندر تلاش کرے نہ کہ اپنے حالات اور واقعات میں جو لوگ زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوشیاں کشیدنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ اپنے ارد گرد ایک ایسا ہالہ قائم کر لیتے ہیں جس سے خوشیوں کی لہر پھوٹتی رہتی ہیں اور ارد گرد کے جتنے بھی لوگ جب جب اس ہالے سے گزرتے رہتے ہیں وہ اپنے دلوں کو ان خوشیوں سے منور کرتے رہتے ہیں اور اپنے دکھ درد بھول جاتے ہیں۔

ہم اپنے بچپن میں کتنے خوش ہوتے ہیں کیونکہ اس وقت نہ تو ہمارے پیار میں کوئی غرض شامل ہوتی ہے اور نہ ہی ہماری محبتوں میں کوئی بناوٹ ہوتی ہیں۔ہم دوستوں کی مدد کرکے یا اپنی چیزیں ان سے بانٹ کر بھی وہ خوشی حاصل کر لیتے ہیں جو ہمیں اب پر آسائش زندگی میں بھی مہیا نہیں ہوتی ہے۔ اگر تو ہم خوشی کو اپنے اندر سے کشیدنےمیں کامیاب رہتے ہیں تو ہمارا ہر ادا کیا ہوا لفظ اور کیا جانے والا ہر عمل دوسروں کی خوشی کا باعث بنے گا اور ہم ہر دل عزیز شخصیت کے ملک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے بھی سکون کا انتظام کر لے گے۔

خوشی کو اپنے اندر سے کشیدنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے خیالات اور احساسات کی رہگزر پر شک اور نفرت کے گھوڑوں کو سوار کرنے کے بجاے اعتماد اور محبت کی سواری کا خیر مقدم کرے کیونکہ شک کسی سے بھی نفرت کی پہلی وجہ ہے جو دکھ کا باعث بنتا ہے جب کہ اعتماد محبت کی طرف پہلا قدم ہے جو کسی کو بھی خوشی کشیدنے میں مدد کرتا ہے۔

 نفرت انسان اس وقت کرتا ہے جب اس کا دل مردہ ہو جاتا ہے اور وہ کسی کی کوئی بھی تکلیف یا درد محسوس نہیں کر سکتا ہے۔ وہ شخص جس کا دل مردہ ہو چکا ہو وہ ایک روز اپنے آپ سے بھی نفرت کرنے لگتا ہے اور اسے اپنے سے وابستہ ہر شخص اور چیز سے نفرت ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی زندگی کو بھی حقیر جاننے لگتا ہے اور ایسے ہی لوگ نا امید ہو کر خودکشی کے مرتکب ہوتے ہیں جو نہ صرف ان کی زندگی کو ختم کر دیتی ہے بلکہ ان سے وابستہ تمام لوگوں کے لئے زندگی بھر کا غم اور دکھ چھوڑ جاتی ہے۔ اس کے برعکس اپنے آپ پر اور اپنے سے وابستہ تمام لوگوں پر بھرپور اعتماد رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں جا بجا محبت کی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور آہستہ آہستہ یہ پودے تناور درخت بن کر اپنے اطراف پیار اور نرمی ایسا احساس پھیلاتے ہیں۔ جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتا ہے اور یہی احساس ان سب کو آپس میں جوڑ کر رکھتا ہے وہ ایک دوسرے کی خوشی کو بھی اپنی ہی خوشی سمجھتے ہیں اور ان میں خوش ہوتے ہیں اور انہیں اپنی خوشی کی تلاش میں بھٹکنا پڑتا ہے خوشی خود انہیں ڈھونڈ لیتی ہیں. ساتھ ساتھ ایسے لوگ جو بھر پر اعتماد اور محبت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کی تکلیف اور دکھ کو بھی اپنا ہی دکھ جانتے ہوے اس کا مداوا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جس کے باعث ان کے دکھ کی شدت کم ہو جاتی ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم پہلے تو خود اپنے آپ پر اعتماد رکھے کہ ہم زندگی کے جس میدان میں قدم رکھے گے انشاللہ کامیاب ہونگے اور دوسروں کو بھی یہ یقین اور اعتماد دلاے اس سے ان کے دلوں میں ہمت اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور وہ ایسے کام بھی کر جاتے ہیں جو ان کو ناممکن لگتے ہو۔

ہم چاہے زندگی کو کسی بھی پیرائے میں جانچتے ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم زندگی کو سکون سے گزرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم نے خدا کو اپنا دوست سمجھتے ہیں تو اس سے دوستی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس کے احکامات کی پابندی کرے تو پھر ان احکامات میں سے ایک حقوق العباد بھی ہے اور اس کو پورا کرنے کے لئے ہمیں اپنے دلوں کی مٹی کو نم کرنا ہوگا اور اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں سے سچے دل سے محبت کرنی ہو گی نہ کہ صرف اپنا مذہبی فریضہ پورا کرنے کے لئے کوئی عمل کیا جائے۔ اپنے دلوں سے شک اور نفرت کے زہر کو نکال کر اعتماد اور محبت کے چراغ روشن کرے جو ہمارے آنے والی نسل کی راہ میں روشنیاں بکھیر دے اور انہیں ان روشنیوں میں اپنی منزل تلاش کرنی مشکل نہ محسوس ہو۔
 
ثمینہ طارق




جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

 


2 تبصرے:

  1. hmm...Samina Tariq...mein tou waisay he app key fan hon...buhat acha or mukammal likhti hain app...

    جواب دیںحذف کریں