صفحات

جمعہ، 21 جون، 2013

کوئی تنہا نہیں ہوتا...




ہم میں سے اکثر اپنے آپ کو زندگی کے کسی نہ کسی مقام پر تنہا محسوس کرتے ہیں، اور کبھی کبھی تو یہ حال ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کے بے تحاشا ہجوم میں بھی خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں اور اس تنہائی کو دُور کرنے کے لئے نہ جانے کیا کچھ نہیں کرتے رہتے ہیں، کتنے ہی دوُست بناتے ہیں اور اُن کے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں، کبھی اپنے رشتے داروں سے ملنے چلے جاتے ہیں، کبھی دُوستوں کو اپنے گھر بُلاتے ہیں، جب تنہائی محسوس ہوئی فون اُٹھایا اور اپنے دُوستوں رشتے داروں سے بات کرلی اور اب تو انٹرنیٹ ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے باعث تنہائی کا تصور ہی معدوم ہو رہا ہے۔کمپیوٹر کھولا اور  بات کر لی، اور اس کے علاوہ انٹرنیٹ کی دنیا اتنی وسیع ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنی تنہائیوں کو اس میں ڈبونے کی کوشش میں مُبتلا رہتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم اپنے لوگوں میں رہ کر بھی تنہائی کا شکار رہتے ہیں اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی اک شخص بھی ایسا نہیں کہ جو ہمیں سمجھ سکے، ہمارے دل کا حال سُن پائے، محسوس کرے اور ہمارا ہمدم بنے۔ اس کے لئے ہمیشہ ایسے دوست کی تلاش میں رہتے ہیں جو ہمیں اچھی طرح سے سمجھ سکے اور اپنا زیادہ سے زیادہ وقت ہمیں دے پائے، لیکن اس مصروف دُور میں یہ ناممکن ہی لگتا ہے، مگر پھر بھی ہمیں کوئی نہ کوئی ایسا ساتھی ضرور ملتا ہے جس سے بات کر کے، جس سے اپنے دل کا احوال کہہ کر ہمیں سکون ملتا ہے لیکن ایسی دوستی کو قائم رکھنے کے لئے کیا ضروری ہے؟ میرے خیال میں دوستی کے دُو اہم اصول ہیں۔


1. دوستی کا پہلا اہم اصول یہ ہے کی جس سے دوستی کرنا چاہتے ہو اُس سے ذیادہ سے ذیادہ ملاقات رہے ہا اُس سے ذیادہ سے ذیادہ باتیں کریں، کچھ اپنی کہیں کچھ اسکی سُنی جائے۔ اس طرح ایک دوسرے سے میل ملاپ ہمیں قریب کر دیتا ہے۔
2. دوسرا اہم اصول یہ ہے کہ اپنے دوست کا خاص خیال رکھیں۔ یعنی کوئی ایسی بات نہ کریں جو اسے بُری لگے، اسکا دل دُکھے اور وہ ہم سے ناراض ہو جائے۔
جب ہم کسی سے دوستی کرتے ہیں تو ہم کتنے حساس ہو جاتے ہیں اور اسکا بے انتہا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن کب تک آخر کب تک؟ اس مصروف دُور میں کوئی کب تک ساتھ نبھاتا ہے یا نبھا سکتا ہے؟ سب کی اپنی مصروفیت ہوتی ہیں۔ ہماری زندگی میں بہت سے دوست آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر ایسے ہیں جو اپنے ان دوستوں کو کبھی نہیں بُھلا پاتے ہیں اور اپنے آپ کو پھر سے تنہائیوں مین دھکیل دیتے ہیں، اور یہی بات ہمارے لئے مشکل کا باعث بنتی ہے۔ اور دوستی پر سے ہمارا اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ تو کیوں نا ایسا دوست ہو جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے، جس کو ہم سے بے انتہا محبت ہو، جو ہمارا خیال رکھے تو بغیر کسی غرض کے، جس سے ہمیں اپنے دل کی کوئی بات کہنے میں کوئی عار محسوس نہ ہو، جس سے ہم اپنے لئے سب کچھ مانگ سکیں، اور جس کا احساس ہمیں اکیلے پن سے آذاد کر دے۔
میری زندگی کا المیہ ہی سمجھ لیں کہ اپنی کچھ خامیوں ک باعث میرے دوستوں کی تعداد ہمیشہ محدود ہی رہی، وجہ فقط یہی تھی کہ مجھے کبھی دوستی پر اعتبار نہیں رہا اور ہمیشہ لوگوں کو پرکھنے کی عادت رہی جس کے باعث میں نے ہمیشہ ہی بہترین دوستوں کو کھویا ہے اور ان کو کھونے کا احساس ان کے بچھڑنے کے بعد ہی ہوا اور اسے میری ضد یا انا ہی کہا جا سکتا ہے کہ میں نے دوبارہ کبھی مڑ کر ان کی جانب نا دیکھا۔ کسی کو پرکھنے سے صرف درد ہی ملتے ہیں۔ کیونکہ بے غرض دوستیاں شاذ و نادر ہی لوگوں کو میسر آتی ہیں۔ میری بہترین دوست صرف میری ماں تھی اور وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ بیٹا میں تمہارے  ساتھ ہوں، تم خود کو کبھی تنہا نہیں سمجھنا اور ایسا ہی تھا امی کے ہوتے ہوئے مجھے کبھی کسی دوست کی تمنا نہیں رہی کیونکہ وہ واحد ہستی تھیں جن سے میں نے ہمیشہ بچپن سے لے کر اُس وقت تک جب تک میں خود ماں نہ بن گئی سب کچھ بِلا جھجھک شیئر کیا۔ کوئی دُکھ کوئی خوشی، کوئی پریشانی ایسی نہ تھی جو مجھے امی سے شیئر کرنے میں جھجھک محسوس ہوتی اور جب امی کا انتقال ہوا تو اس کے بعد بھی جب میں خود کو تنہا محسوس کرتی تو امی سے باتیں کرتی، گھنٹوں آنکھیں بند کر کے بیٹھی رہتی اور مجھے محسوس ہوتا کہ وہ اب بھی میرے پاس ہیں اور میری ساری باتیں سُن رہی ہیں، مجھے ہمیشہ تسلی رہی کہ میں اکیلی نہیں ہوں۔ اکثر سوچتی ایسا کیوں ہوتا ہے، وہ ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ میرے ساتھ کیوں ہوتی ہیں۔ آج میری بیٹیاں بھی مجھ سے اتنی ہی قریب ہیں، اور کہتی ہیں 'امی آپ ہماری بیسٹ فرینڈ ہیں۔' تو خیال کی پرواز اس بات کو چھوتی ہے کہ ماں ہی ایسی ہستی ہے جو ہم سے سب سے ذیادہ محبت کرتی ہے شاید اِسی لئے وہ ہماری سب سے اچھی دوست ہوتی ہے اور ہمیشہ اُسکی دعاؤں کا سایہ ہم پر رہتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ ظاہر میں بھی ہمارے ساتھ ہوں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ماں جس نے ہمیں جنم دیا اُسے ہم سے اتنی شدید محبت ہے کہ وہ اپنے آپ کو فنا کر کے ہماری خوشیوں کے لئے زندگی گزار دیتی ہے، ہماری ساری تنہائیوں کو بانٹ لیتی ہے، تو پھر خیال اتا ہے کہ وہ ہستی جس نے ہمیں زندگی بخشی اُسے ہم سے کتنی محبت ہوگی؟ تو پھر ہماری تنہائیوں کا ساتھی وہ کیوں نہیں ہے؟ یہی بات اسکی گواہی ہے کہ 'کوئی تنہا نہیں ہوتا' اک ہستی، اک زات ہے جو ہر پل، ہر لمحہ ہمارے ساتھ ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کا اس بات پر  پختہ  یقین ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے، ہمارے پاس،  ہر شئے میں خُدا کی موجودگی کا ہمیں یقین ہے تو پھر اس بات پر بھی یقین ہونا چاہئے کہ خُدا کی ذات ہمارے وُجود میں بھی موجود ہے، وہ ہر پل ہمارے ساتھ ہے، پھر ہم تنہا کیسے ہو سکتے ہیں؟ اگرتو ہم اس بات پر پختہ  یقین رکھتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم خود کو تنہا محسوس کریں، کبھی کسی لمحے میں ہم تنہا ہو ہی نہیں سکتے ہیں۔
جیسا کہ دوستی کا پہلا اصول ہے کہ دوست سے زیادہ سے زیادہ ملاقات رہے یا اس سے زیادہ سے زیادہ باتیں کریں، ہمیں تو فقط اس کے ساتھ کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے، دوستی کرنے کے لئے اس کے قریب ہونا ضروری ہے، اور قریب ہونے کے لئے اس سے باتیں کرنا ضروری ہے۔ خدا سے دوستی کرنے کیلئے، اس سے باتیں کرنے کیلئے ہمیں اپنی عبادتوں میں باقاعدگی رکھنی ہے۔ خدا سے قریب تر ہونے کیلئے اس کا ذکر کرنا ہے، اسے سب کچھ کہنا ہے، اپنے دل کا حال اسکے سامنے بیان کرنا ہے اور اسے اپنا بہترین دوست سمجھنا ہے۔
اللہ کو دوست بنانے کیلئے دُوسرا اصول بھی اپنانا ہے کہ اپنے دوست کا خاص خیال رکھیں، یعنی کوئی ایسی بات نہ کریں جو اسے بُری لگے، ہمیں اپنے ہر کام کو اسکی رضا کیلئے انجام دینا ہے، اپنی ذات سے نکل کر اسکو تلاش کرنا ہے، اس کیلئے اپنا ہر عمل اسکے احکامات کی روشنی میں انجام دینا ہے۔ کوئی ایسا کام نہ کریں جو رَب کو بُرا لگے، اپنے ہر عمل سے رب کی خوشی (رضا) حاصل کرنی ہے۔
جب ہم یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ خدا ہمارے قریب ہے، وہ ہمیں دیکھ رہا ہے، ہمارا کوئی بھی عمل اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اور جب ہم اس کے ذکر سے اپنی تنہائیوں کو آباد کرتے ہیں تو اکیلا پن خود با خود ختم ہو جاتا ہے، ہمارا وقت اس کے ذکر میں گُزرتا ہے اور ہر عمل خود با خود اسکے احکامات کی روشنی میں ہوتا ہے اور ہم انجانے میں کتنی ہی بُرائیوں سے بچ جاتے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم ہر وقت عبادت میں مصروف رہیں، اسلام ہمیں معتدل زندگی کی تاکید کرتا ہے، ہمیں اپنے دُنیاوی کاموں کو سرانجام دیتے ہوئے اپنی عبادت میں باقاعدگی رکھنی ہے۔ ذکر تو دل و زبان سے کرنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو کام کے دوران بھی کیا جا سکتا ہے۔
میرے خیال میں اللہ سے بہترین دوستی کوئی اور نہیں، وہ ہر پل ہر لمحہ ہمارے ساتھ ہے، ہم اسکی موجودگی کا یقین کر کے تنہائی کے احساس سے نجات پاسکتے ہیں۔ وہ ہماری ہر بات سُنتا ہے اور ہر لمحہ ہماری مدد کرتا ہے، فقط اس بات پر یقین رکھا جائے کہ ہم جو دعا کرتے ہیں وہ قبول ہوگی تو یقیناَ، دُعائیں قبول ہوتی ہیں۔
اللہ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہمارے جو قدم اپنی ذات کی تلاش میں اُٹھتے ہیں اس کا رُخ اُسکی تلاش کی جانب مڑ جائے۔ ۔ ۔ ہم اُس ذات کو اپنے ساتھ محسوس کر سکیں، اُس کو اپنا ساتھی بنا سکیں۔ آمین!!

ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔


6 تبصرے:

  1. اللہ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہمارے جو قدم اپنی ذات کی تلاش میں اُٹھتے ہیں اس کا رُخ اُسکی تلاش کی جانب مڑ جائے۔ ۔ ۔ ہم اُس ذات کو اپنے ساتھ محسوس کر سکیں، اُس کو اپنا ساتھی بنا سکیں۔ آمین!!
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہی حقیقت ہے کہ جس کا قلب رب زوالجلال خالق کائنات کی محبت و عشق میں روح کو منور رکھتا ہے اسے جہان میں تنہائی کے سانپ نہیں ڈستے۔
    اللہ تعالی ہر انسان کے قلب کو اپنی محبت کی سرشاری عطا فرمائے آمین !

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آمین! شکریہ محمود الحق بلاگ پڑھنے اور سرہانے کا۔

      حذف کریں
  2. بے شک اللہ ہی بہترین دوست ہے ۔۔ لیکن اللہ سے محبت کے تقاضے انسانوں سے محبت کے تقاضوں سے قدرے مختلف ہیں ۔۔ انسانوں سے محبت براری کی بنیاد پر بھی ممکن ہے اور ہوتی ہے جبکہ اللہ سے محبت کا بنیادی تقاضہ ہی یہ ہے کہ سرنڈر کر دیا جائے ۔۔ اطاعت کی جائے ۔۔ مانگا جائے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جناب منیر انور صاحب بہت شکریہ آپ نے بلاگ کو پڑھا اور سراہا۔ جی بلکل درست اللہ سے محبت کا بنیادی تقاضہ سرینڈر ہی ہےاپنے آپ کو اور اپنی انا کو فنا کر کے اُس کے حکم پر عمل کرنا ہی ہے اور نہ صرف مانگنا بلکہ عاجزی سے مانگنا ضروری ہے اور ساتھ اُس کی مخلوق سے محبت بھی ضروری ہے کیونکہ اُس تک پہنچنے کا یہی راستہ ہے۔ اُمید ہے آپ مزید مضامین بھی پڑھے گے اور اپنے خیالات کا اظہار ضرور فرمائے گے۔ خوشی اور ذکر اسی کے تسلسل میں ہے ضرور پڑھئے گا۔ شکریہ!!

      حذف کریں