ہماری زندگی میں لوگوں کا آنا
جانا کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہوتا ہے- ہماری زندگی میں شامل ہونے والا ہر شخص کسی اہم کام یا کوئی اہم مقصد لےکر ہماری زندگی میں شامل ہوتا ہے- جب یہ مقصد پورا ہو جاتا ہے تو وہ ہماری زندگی
سے نکل جاتا ہے- اس مقصد کو جان لینا ہی
ہمارے رشتے کی بنیاد بنتا ہے-
رشتے جزبات سے وابستہ ہوتے ہیں اور اگر ہم اپنے جزبات پر قابو پانے کا فن سیکھ
لے تو رشتوں کو سنبھالنا آسان ہو جاتا ہے- کسی کے لیے کچھ بھی کرنے کے لئے ہم میں
برداشت اور ہمت کا موجود ہونا ضروری ہے –
لوگوں کی ہم سے وابستگی اس بات کا تقاضا
کرتی ہے کہ ہم اُن کے لئے ہر ممکن بہتری
کی اُمید بن سکے – اپنے اختیار میں رہتے ہوئے جو بھی اُن کے لئے
کرنا ممکن ہو کیا جائے مگر اُن سے کسی بھی قسم کی کوئی اُمید نہ رکھی جائے کیونکہ بدلے کی اُمید سے سوائے درد کے کچھ حاصل
نہیں ہوتا- جو کچھ بھی کیا جائے بے غرض ہو کر کیا جائے اس سے دلی سکون اور خوشی
میسر آتی ہے-
بعض اوقات ہم لوگوں کے لئے بہت کچھ کر جاتے ہیں اور وہ اس سے مستفید بھی ہوتے
ہیں لیکن اس بات کو ماننے سے انکاری ہوتے
کہ یہ سب ہماری وجہ سے ممکن ہوا ہے- بنسبت اس کے کہ ہم اُن پر یہ ظاہر کرے کہ اُن
کی اس کامیابی کی بنیاد ہماری توجہ یا ہمارا کوئی کام بنا ہے خاموشی سے مدد کی جائے اور جب ہمیں محسوس ہو کہ اب اُن کی
زندگی میں ہماری ضرورت باقی نہیں رہی اور وہ اس قدر مضبوط ہو چکے ہے کہ اپنے لئے
خود کامیابی کی راہ تلاش کر سکتے ہیں تو
اسی خاموشی کے ساتھ اُن کی زندگی سے باہر آجائے -
جو لوگ بھی ہماری زندگی میں شامل ہوتے ہے ، طویل یا مختصر عرصے کے لئے ، ہماری اُن سے جزباتی وابستگی ہو جاتی ہے اور
اُن کا ہماری زندگی سے نکل جانا ہمارے لئے
دُکھ کا باعث بنتا ہے- لیکن ہم اگر اس بات کو اپنی گرہ سے باندھ لے کے جو کوئی بھی
ہماری زندگی میں شامل ہوا ہے اُسے ہم سے جُدا ہونا ہی ہے تو ہم اپنے جزبات پر قابو رکھ سکتے ہیں
اور اُن کے زندگی سے نکل جانے کو اک فطری عمل گردانتے ہوئے اُن سے مایوس ہو کر
نفرت کرنے کے بجائے اُنہیں ہمیشہ کے لئے اپنے دل میں بسا لیتے ہیں اور جو لوگ دل
میں بسے ہو وہ چاہے ہم سے کتنے ہی دُور کیوں نہ ہو جائے، ہمارا اُن سے رابطہ ٹوٹ
ہی کیوں نہ جائے اُنہیں ہمیشہ اپنی دُعاوں میں یاد رکھتےہیں کیونکہ یہی دُعائیں ہماری زندگی میں اُن کی کمی کو اور اُن کی زندگی میں ہماری کمی کہ پورا کر سکتی ہیں-
لوگوں کا زندگی میں آنا اور جانا اک فطری عمل ہیں – اک انسان ہماری زندگی سے
باہر جاتا ہے تو کوئی اور ہماری زندگی میں شامل ہو جاتا ہے- کچھ بھی ہو جائے اپنے
حصٌے کی شمع ہمیشہ جالائے رکھے – نہ جانے
اس کی روشنی سے کتنے قدم اپنی منزل پا لے-
اپنے لفظوں سے اور اعمال سے لوگوں کی مدد جاری رکھے مگر کسی کو بے جا خواب نہ
دکھائے اور سچائی کے ساتھ اُن کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اُن پر آشکار کرنے میں اُن کی
مدد کریں-
Bohat khubsurat tehreer!! Zindagi kay kuch haqa’eq, jinhain humein bohat khush-dili kay saath qubool karna chaheay! Kisi say tawaqua’at wabasta keay bina, humesha muhabbat ki “shama jalaey rakhna” – Jisay hum “ghair-mashrut muhabbat” (Un-conditional Love) bhi kehtay hain!! Bohat Khub Samina Tariq!!
جواب دیںحذف کریںbahaut shukriya Sajid Saeed!! itne mufasil aur wazeh tajziye k liye :)
حذف کریںبہت کم انسان زندگی کے اس فلسفہ کی طے تک پہنچتے ہیں کہ زندگی بلا سبب نہیں اور بے سبب بھی نہیں۔ ہر انسان کو اپنے حصے کی شمع جلائے رکھنا ہے۔ تاکہ وہ سفر کی وہ منازل بھی طے کرنے لگے ۔جو اس کی مادی دنیاوی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ روح کی تکمیل کے مراحل کو بھی عبور کر سکے ۔ جو اللہ تبارک تعالی کی خوشنودی و رضا پر ختم ہو۔
جواب دیںحذف کریںدرست کہا آپ نے ہر کوئی نہیں زندگی کے اس فلسفے تک نہیں پہنچتا ہے لیکن جو پہنچ جائے وہ اس راہ کو ترک نہیں کر سکتا ہے کیونکہ وہ بدلے کی خواہش نہیں رکھتا۔ شکراّ محمود الحق
حذف کریں