صفحات

جمعرات، 19 مارچ، 2015

تجزیہ کتاب: بچپن کا دسمبر۔۔۔۔ہاشم ندیم




کتاب: بچپن کا دسمبر
مصنف: ہاشم ندیم
صفحات:۳۲۰

انتساب: عالیہ کے نام۔۔۔جن کی وجہ سے میں آج تک اپنے بچپن کے دسمبر کو جی رہا ہوں۔ 

پچھلے د نوں  میرے زیرِ مطالعہ ہاشم ندیم کی کتاب بچپن کا دسمبر رہی جو کہ پچھلے کئی ماہ سے شدید مصروفیت کے باعث مکمل نہیں ہو پا رہی تھی ۔ وقفوں سے پڑھنے کے باوجود بھی اس کا ربط نہیں ٹوٹتا  تھا، جس کی پہلی وجہ  تو  کتاب  کا بے حد دلچسپ ہونا ہے اور دوسری وجہ اس کی تقسیم ہے۔ اس کتاب کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر دور کو مزید موضوعات میں تقسیم کیا گیا ہے جو بزاتِ خود ایک کہانی کی صورت میں تحریر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں میری دلچسپی وقفوں سے پڑھنے کے بعد بھی کم ہونے نہیں پاتی  تھی۔ جب اور جیسے وقت میسر ہوتا ہے ایک یا دو موضوعات پڑھ لیتی تھی۔

 اس کتاب کا طرزِ بیان آپ بیتی کی صورت ہے  جس کا آغاز  مصنف نے کتاب کے عنوان یعنی دسمبر کے موضوع پر لکھی ایک بہت خوبصورت  نظم سے کیا  ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اپنے کردار عباد خان عرف عادی کی بچپن سے لے کر جوانی کی روداد کو نہایت لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے ۔ عادی کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک اُس کے بچپن کا دور۔۔۔۔دوسرا  دور کیڈٹ کالج میں تعلیم و تربیت کا دور اور تیسرا دور کیڈٹ کالج سے واپسی کا دور۔ ۔۔اس کتاب کی دلچسپی اس کے موضوعات کی وجہ سے قائم رہتی ہے جس میں ابتداء اور انتہا کا عنصر پایا جاتا ہے مثلاً پہلی سہیلی ، پہلا اسکول ، پہلا سجدہ ، پہلا الوداع، آخری نشتر، آخری کفارہ، آخری بھرم ، آخری الوداع   وغیرہ۔ عادی کے علاوہ اس کا اہم کردار 'وجیہ ' کا ہے جسے نازک، حساس ، شفیق اور محبت کرنے والی ہر دل عزیز شخصیت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔اس کتاب کا محور 'یاد' ہے کیونکہ اس میں مرکزی کردار اپنی تمام یادوں کو اکٹھا کرتا ہوا زندگی کےمختلف درجات کو بیان کرتا ہے۔جملوں کی ساخت نہایت سادہ الفاظ پر مبنی جس کے باعث قاری کو کہیں بھی اُکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔

پہلے دور میں بچپن کی معصوم شرارتوں  اور منصوبہ بندیوں کا ذکر اتنی خوبصورتی اور سادگی سے کیا گیا ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے اپنی ہر پہلی چیز یاد آنے لگتی ہے ۔اس دور کی سب سے خوبصورت بات 'دوستی' کا احساس ہے جو تحریر کو شگفتگی عطا  کرتا  ہے۔ دوسرے دور میں عادی کی تربیت کے ساتھ ساتھ اس کے پختہ  ارادوں  اور مضبوط طرزِ عمل کا بیان کرتے ہوئے محبت کے نازک جزبات کا بیان متاثر کن ہے۔ تیسرے دور میں دوستی اور محبت کی تجدید  قربانی کے ذریعے کرتی تحریر  جزبات اور فیصلوں کے درمیان توازن قائم کرنے کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ رشتوں کی پاکیزگی اور مضبوطی کو بیان کرتی ہے۔کتاب کا اختتام بھی ہاشم ندیم کی ایک خوبصورت نظم سے  ہوتا ہے۔ خوبصورت جزبوں اور احساسات لئے یہ تحریر شروع سے لے کر آخر تک قاری کو اپنے سے بندے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔اس کتاب کی ایک خوبی اس کی خوبصورت منظر نگاری ہے ۔ اسے پڑھتے ہوئےا یسا  محسوس ہوتا ہے جیسے کہ کوئی فلم آنکھوں کےسامنے رواں دواں ہو۔
یوں تو اس کتاب سے بہت سے اقتباسات یہاں شئیر کئے جا سکتے ہیں لیکن اس وقت ابتدائی نظم کے کچھ اشعار اور اختتامی نظم کے ساتھ صرف آخری دور کا ایک اقتباس شئیر کر رہی ہوں جس میں پوری کتاب کا خلاصہ موجود ہے۔  

ابتدائی نظم کے اشعار:
ہاں مجھے یاد ہے
بچپن کا وہ دسمبر
ٹھٹھرتی ڈھلتی شاموں میں
آنگن کی دیوارس سے سرکتی دھوپ
جلتے ہوئےکوئلے     کی مہک
اور میرے پھٹے ہوئے ہوئے گالوں پر 
لکیریں بناتے 
وہ جمے ہوئے آنسو۔۔۔۔۔۔

"آدی۔۔۔ دنیا میں کچھ رشتے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنہیں بات یا ملاقات کی مجبوری نہیں ہوتی۔ وہ انسان کی ہر بات اور اُس کی ہر ملاقات میں ہمیشہ شامل رہتے ہیں۔۔۔۔مانتے ہو نا کہ لفظ اور تصویر ہی سب کچھ نہیں ہوتے۔ جہاں یہ سب کچھ ختم ہوتا ہے وہاں سے تصّور کا رشتہ شروع ہوتا ہے۔"

اختتامی نظم:
رُخصت ہوا تو ہاتھ ملا کر بھی نہیں گیا
وہ کیوںگیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
   جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا 
شائد وہ مل ہی جائے            
مگر جستجو ہےشرط                 
وہ اپنے نقشِ پا کو مٹا کر نہیں گیا
ہر بار مجھ کو چھوڑ گیا اضطراب میں
لوٹے گا کب ۔۔؟      
کبھی وہ بتا کر نہیں گیا   
رہنے دیا نہ اُس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہ گیا

ثمینہ طارق

جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں