صفحات

پیر، 2 فروری، 2015

کیا کھویا؟ کیا پایا؟

 ۲۰۱۴ گزرا اور ۲۰۱۵ کا بھی ایک ماہ تمام ہوا۔ میری پچھلی پوسٹ نئے سال کی پہلی تاریخ کی تھی جس کے بعد کوشش کے باوجود کچھ بھی پوسٹ کرنے سے قاصر رہی۔ پچھلے سال کے اواخر میں، دسمبر کے مہینے میں فیس بُک پر ایک منٹ کی ایک ویڈیو تیار کی جا رہی تھی ہر شخص کے فیس بُک کے سال بھر کی روداد پر مبنی۔ اپنی ویڈیو بھی دیکھ لیکن اُسے پوسٹ نہ کیا کیونکہ ہماری زندگی فیس بُک پر گزرے لمحات پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ حقیقت میں گزرے روز و شب، ماہ و سال پر مبنی ہوتی ہے پھر فیس بُک کی ویڈیو ہمارے گزرے سال کا احاطہ کرپائے یہ کیسے ممکن ہے۔

ہر سال کے آخر میں نئے سال کی ابتداء سے پہلے ہم سب عموماً نئے سال میں کئے جانے والے کاموں کی لسٹ تیّار کرتے ہیں۔ اپنی آنے والی زندگی کے لئے مقاصد کا تعیّن کرتے ہیں۔ اکثر لوگ اپنے بیتے کل کو بھی یاد کرتے ہیں اور اُس میں گزرے تمام لمحوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے آنے والے کل میں غلطیوں کو نہ دہرانے کا عہد کرنے کے ساتھ مکمل نہ کئے جانے والے کاموں میں رکاوٹ کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اگلے سال ان کاموں کو پایہء تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ اسی طرح میں نے بھی اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعداپنی حیات کو ورق در ورق پلٹنا شروع کیا اور کئی راز منکشف ہوتے چلے گئے۔میں نے محسوس کیا کہ بہت کچھ ہے جو مجھے بن مانگے ملا تو بہت کچھ ایسا بھی ہے جس کی شدید خواہش ہونے کے باوجود بھی حاصل نہ ہوسکا۔


یہ حقیقت ہے کہ انسان کو کبھی بھی اُس کی برداشت سے بڑھ کر دُکھ نہیں ملتا ہے اور ہر درد کے بعد خوشی بھی میسر آتی ہے۔ اپنی زندگی کا احاطہ کیا تو جانا کہ جہاں اتنے برسوں میں اپنی عزیز ترین ہستیوں کو کھویا  جن میں والدین سے دوری کا در د ناقابلِ فراموش ہے وہیں اولاد کی صورت میں بہت سی خوشیاں بھی نصیب ہوئی۔ والدین کا نعم البدل تو کوئی نہیں ہو سکتا لیکن اپنی اولاد کی خوشیوں میں محو ہو کر ہی انسان اُس درد سے عارضی طور ہی سہی نجات پا سکتا ہے۔ بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتیں والدین کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہوتی ہیں۔ اُن کی پہلی مسکراہٹ، پہلا لفظ، پہلا قدم، اسکول کا پہلا دن، پڑھائی کا مکمل ہونا، پروفیشنل لائف میں کامیابی اور پھر شادی ۔ یہ سب والدین کے لئے ایسی خوشیاں ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔

جب اپنی والدہ کو بیماری میں دیکھتی اور روتی تھی کہ جانتی تھی کہ وہ کینسر کی مریضہ ہے اور زیادہ وقت ساتھ نہ رہ سکے گی اور جب برداشت سے باہر ہوا تو ایک دن روتے ہوئے کہہ بیٹھی کہ میں کیسے رہوں گی تمھارے بغیر تو انہوں نے مسکراتے ہوئے میری بیٹیوں کی جانب اشارہ کرکے کہا تھا کہ" یہ دونوں ہے نہ ، ان  کی خوشیوں میں درد بھول جائے گا میں بھی تجھے گود  میں لے کر اپنی ماں سے جُدائی کا درد بھول گئی تھی۔" اُس وقت پہاڑ سے دن رات لگتے تھے جب ماں کو کھویا مگر اُن کے لفظوں کی حقیقت بھی جان لی ۔ یاد تو اُن کو اب بھی کرتے ہیں مگر بچوں کی خوشیوں میں درد سارے کھوگئے ہیں۔ الحمداللہ  میرے رب کا بہت کرم ہے۔

زندگی کے ورق پلٹنے بیٹھے تو بہت کچھ سامنے آتا ہے۔ زندگی میں والدین کے علاوہ اپنی خالاؤں کو کھونے کا غم بھی ساتھ رہا جن کا ساتھ ماں جیسا ہی تھا۔ وہیں اللہ نے بہت سی خوشیاں بھی نصیب کی ۔ بچّوں کی کامیاب زندگیاں اللہ کا ہی کرم ہے۔ زندگی کی سب سے بڑی خوشی بیٹی کی شادی کی صورت میں میسر آئی اور اللہ نے داماد کی صورت میں میری زندگی میں بیٹے کی کمی کو بھی پورا کیا ۔

سال ۲۰۱۴ میری زندگی میں بہت سی خوشیاں اور تبدیلیا ں لے کر آیا۔ چھوٹی بیٹی کا گریجوئشن مکمل کرکے پروفیشنل لائف میں پُر اعتماد قدم رکھنا بھی اللہ کا کرم ہے۔ الحمدللہ! اس سال میں نے اپنی زندگی کا پہلا ہوائی سفر کیا  اور دُبئی جا کر زندگی کا ایک مختلف رنگ بھی دیکھا۔ اسی سال میں نے اپنے بہت سے بلاگز لکھے ، اسی سال میں نے اپنا کتابیں پڑھنے کا شوق بھی بہت سی کتابیں خرید کر پڑھ کر پورا کیا اور اب اگلے سال کے لئے بھی بہت سی کتابوں کی لسٹ تیّار کر رکھی ہے۔ مجھے اپنے پسندیدہ مصنفین سے ملنا بہت شوق رہا جن میں ابنِ صفی سے ملنے کا جنون تھا جو نہ پورا ہو سکا اور نہ ہو سکتا ہے۔ بچپن سے اشتیاق احمد سے ملنے کا شوق رہا اور لاہور میں اُن کے گھر کے بہت قریب جا کر بھی اپنی یہ خواہش پوری نہ کر پائی لیکن اس سال میری زندگی کی ایک بہت بڑی خواہش کی تکمیل ہوئی  اور وہ تھی مستنصر حسین تارڑ صاحب سے ملاقات۔  جس کاتفصیلی  ذکر میں  اپنے بلاگ  طویل سفر کے بعد ایک خوشبو بھری ملاقات، مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ساتھ میں کر چکی ہوں۔ اب صرف ایک بار امجد اسلام امجد صاحب سے ملنے کی خواہش ہے اور انشاءاللہ کبھی نہ کبھی ضرور پوری ہوگی۔

پچھلے سال کی خوشیوں میں ایک اہم ترین خوشی میری وہ خواہش پوری ہونا ہے جو برسوں سے تھی۔ کمیونٹی میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے کی خواہش تھی جو کہ اس سال پوری ہوئی TKNVolunteer  ( وقت اور علم کا نزرانہ ) کی صورت میں کام کرکے جس کے لئے میں اب اپنے رب کی جتنی بھی شکرگزار  ہو اتنا کم ہے۔ شکر الحمداللہ!
ہر خوشی کے ساتھ غم بھی زندگی کے ساتھی ہوتے ہیں اور ۲۰۱۴ میں بھی میں نے اپنی دونہایت عزیز ترین ہستیوں کو یکے بعد دیگرے کھودیا۔ میرے سب سے بڑے ماموں جان جن کا ذکر میں نے اپنے بلاگ میری ڈائری کا تازہ ورق میں کیا تھا اور پھر اس کے فوراً بعد ممانی جان کو بھی کھو دیا جو والدہ کے بعد ہمیشہ والدہ کو صورت ساتھ رہی اور اُن کی کمی کو پورا کرتی رہی۔ اللہ اُن کے درجات بلند فرمائے آمین۔

زندگی میں خوشیاں اور درد ساتھ ہی ہوتے ہیں اور اسی طرح کبھی ہم وہ سب کچھ کر لیتے ہیں جو کرنا چاہتے ہیں اور کبھی کبھی وہ سب نہیں کرپاتے ہیں لیکن کبھی ہمت نہ ہارنی چاہئے اور اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔ مستقل مزاجی ہی کامیابی کی کُنجی ہے اس لئے کسی بھی کام کو مستقل مزاجی سے کرے گے تو ضرور کامیاب ہوگے۔ انشاءاللہ تعالیٰ

 ثمینہ طارق

جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں