صفحات

جمعرات، 12 جون، 2014

ذکر حصّہ دوئم


القرآن:

اللہ کی قربت:
ترجمہ: "اور جب میرے بندے تجھ سے میری نسبت سوال کریں ( تو ان سے کہہ دو کہ) یقیناً میں ( اُن کے) نزدیک ہی ہوں۔ مجھ سے جب کوئی دعا مانگتا ہے قبول کرتا ہوں، پس ان کو چاہیئے کہ وہ میرا کہا مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ سیدھی راہ پا جائیں۔" (۱۸۶/۲)

تکلیف میں اللہ کی یاد:
ترجمہ: " اور جس وقت کسی انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس نے اپنے پہلو پر لیٹے ہوئے یا کھڑے ہوئے ہمیں پُکارا۔ پھر جب ہم نے اس کی تکلییف کو اس سے دور کیا تو وہ (اس طرح ) گزر گیا کہ اس تکلیف کے لئے جو اُسے پہنچی تھی  اُس نے ہمیں پُکارا ہی نہ تھا۔اسی طرح زیادتی کرنے والوں کے لیے جو عمل وہ کیا کرتے تھے، زینت دے دیے گئے۔" (۱۲/۱۰)

صرف خواہشات    کا پورا نہ ہونا ہی ہماری بے چینی کا باعث نہیں بنتا ہے بلکہ  پے در پے آنے والی پریشانیاں  اور تکالیف بھی ہمیں جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر کے چڑچڑا بنا دیتی ہے۔زندگی کے مسائل مسلسل اور نہ ختم ہونے والے ہوتے ہیں لیکن اس سے کس طرح نمٹا جائے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔جب ہم کسی بھی قسم کی مشکل یا پریشانی کا شکار ہوتے ہیں تو ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہمارا کوئی اپنا ہمارے پاس ہو جس سے ہم اپنے دل کا حال بیان کر سکے اور جس کے سامنے ہم آنسو بہا کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔ کوئی ایسی ہستی میسر آجائے تو اُس کے تسلّی میں کہے چند الفاظ ہی ہماری تقویت کا باعث بنتے ہیں اور ہم  پُر سکون ہو جاتے ہیں۔لیکن   ہماری پریشانیاں اور تکالیف ایسی بھی ہوتی ہےجن کا حل ہمارے دوستوں اور قرابت داروں کے پاس بھی نہیں ہوتا ہے اور ایک وقت تک تو ہم اُن کی حوصلہ افزائی سے پُر سکون رہتے ہیں مگر پھر سے بے چینی اور خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں ایسے وقت میں ہمارا واحد  سہارا ربِ کریم کی ذات ہوتی ہیں اور ہم اپنا دُکھ اور درد اُس کے سامنے کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔

بیماری، حادثہ، نقصان یا لڑائی جھگڑا  یہ وہ تمام کیفیات ہے جو ہمیں خود غرض یا مہربان بناتی ہیں یا تو ان کے ذریعے ہمارے دلوں کی مٹی نرم ہو جاتی ہیں یا پھر ہم اور بھی غصّیلے اور بے چین ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ ان تکالیف اور پریشانیوں سے گھبرا جاتے ہیں وہ غصّے اور پریشانی میں اپنی تمام تر مشکلات کا ذمّہ دار اللہ کی ذات کو سمجھ بیٹھتے ہیں اور  اُس سے ناراض ہو کر شکوہ شکایت کرنے لگتے ہیں کہ آخر ساری مشکلات اور تکالیف اُنہی کے لئے کیوں ہیں ؟ اللہ اُن کی دعائیں کیوں نہیں سُنتا ہے؟ وہ لوگ ایک ایسے بچے کی طرح کبھی روکر کبھی چلّا کر اللہ سے جواب طلب کرتے ہیں جو ماں کی بے توجہی کا شکار ہو کر روتا یا چلّاتا ہے کیونکہ وہ یہ نہیں جانتا کہ ماں جو اُس سے اتنا پیار کرتی ہے وہ اُس کی طرف سے کبھی غافل نہیں ہوتی ہے اسی طرح ربِ کریم کی ذات نہایت مہربان ہے وہ ہم سے کیسے غافل ہو سکتا ہے اور جو لوگ اپنے دلوں کی مٹی کو نرم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ دُعا کا راستہ اپنا تے ہیں اور صبر اور عاجزی کے ساتھ اپنے رب سے اپنی مشکلات کا حل مانگتے ہیں اور اُس پر یقین اور بھروسہ اُنہیں  اپنے رب کی طرف اس طرح مائل کر دیتا ہے کہ وہ اپنا سارا درد صرف اُس کے سامنے بیان کرتے ہیں اور اُس سے گفتگو کرتے ہیں ۔وہ ربِّ کریم سے اور قریب تر ہو جاتے ہیں اور اُنہیں  یقین ہوتا ہے کہ دیر سویر ہی سہی اُن کی دعا قبولیت کا اذن پائے گی اور وہ اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑ کر پُر سکون ہوجاتے ہیں۔


طریقہ کوئی بھی ہو غصّے میں شکایت کرنا یا عاجزی سے دعا کرنا دونوں ہی صورتوں میں ہمارا رابطہ ہمارے رب سے جُڑ جاتا ہے اور ہم اپنی پریشانی اور دُکھ کو اُس کے سامنے کھول کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ جو لوگ اللہ سے رابطہ قائم کر لیتے ہیں اُنہیں پھر لوگوں کی ہمدردی کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ چاہے وہ شکایت کی صورت ہی ہو وہ اپنے رب سے گفتگو کر کے اُس سے قرابت پاتے ہیں کیونکہ شکایت بھی اُسی سے کی جاتی ہیں جس کی محبت پر یقین ہو کہ وہ ہمارا درد محسوس کر کے ہماری مدد کرے گا۔ دونوں ہی صورتوں میں انسان اللہ سے رابطے میں رہتا ہے اور اپنی تکالیف کو اُس کے سپرد کرکے اُس کے سامنے آنسو بہا کر اپنے دل کو پُر سکون اور آزاد کر لیتا ہیں۔ وہ مسلسل اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہے اُس کا نام لے کر اُسے پُکارتا رہتا ہے۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ وہ اپنے بندے کی شہ رگ سے بھی ذیادہ قریب ہے۔ جب بھی بندہ اس سے دعا مانگتا ہے تو وہ اس کی دعا  قبول کر لیتا ہے  جب بھی اُسے یاد کرتا ہےتو وہ بھی اُسے یاد کرتا ہے۔لیکن ہم اتنے نا شکرے ہیں کہ جب ہماری دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور ہماری تکالیف دور کرکے ہمیں آسانیاں مہیا کی جاتی ہیں تو ہم پھر سے اپنی مادّیت پرستی کا شکار ہو کر اپنے رب سے دور ہو جاتےہیں اور اُس کو یاد کرنا بھول کر اپنی روزمرّہ کی زندگی کی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

اپنے دلوں کو اللہ کے ذکر سے آباد کرکے پُرسکون اور خوشحال زندگی اپنائے ۔ وقت اور حالات کیسے ہی کیوں نہ ہو اپنے رب پر اپنا بھروسہ قائم رکھے اور اُسی سے مدد مانگے۔رب کا مسلسل ذکر ہی دلوں کےسکوں کا باعث بنتا ہے۔
(جاری ہے)

 ثمینہ طارق

ذکر حصّہ اوّل

ذکر حصّہ سوئم



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

2 تبصرے:

  1. جزاک اللہ
    اللہ تبارک تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین
    اللہ کی محبت ہی دین و دنیا میں سرٖخرو کر تی ہے۔

    تیری عنایات ہیں اتنی کہ سجدہء شکر ختم نہ ہو
    تیرے راستے میں کانٹے ہوں میرا سفر ختم نہ ہو
    پھیلا دوں روشنی کی طرح علم خضر ختم نہ ہو
    توبہ کرتا رہوں اتنی میرا عذر ختم نہ ہو
    سجدے میں سامنے تیرا گھر ہو یہ منظر ختم نہ ہو
    تیری رحمتوں کی ہو بارش میرا فقر ختم نہ ہو
    مجھ ادنیٰ کو تیرے انعام کا فخر ختم نہ ہو
    جہاں جہاں تیرا کلام ہو میرا گزر ختم نہ ہو
    تیری منزل تک ہر راستے کی ٹھوکر ختم نہ ہو
    آزمائشوں کے پہاڑ ہوں میرا صبر ختم نہ ہو

    https://www.facebook.com/profile.php?id=100008383291659

    کچھ عرصہ قبل یہ حمد باری تعالی لکھی تھی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ماشاءاللہ بہت خوب! اُس کے ذکر کے لئے جسے الفاظ میسر ہو وہ خوش نصیب ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو اور نوازیں ۔ آمین! شکریہ

      حذف کریں