صفحات

ہفتہ، 28 دسمبر، 2013

خواب


خواب بے ضرر ہوتے ہیں
کبھی کسی خواہش تو کبھی کسی آرزو کے
زیرِ اثر ہوتے ہیں
کبھی اُمید تو کبھی خوشی کے
پیمبر ہوتے ہیں
جانے کیوں لوگ ان کو
سنجوتے ہوئے   ڈرتے ہیں
خواب معتبر ہوتے ہیں
یہ اُنہی دلوں کو روشن کرتے ہیں
جو ایماں اور یقین سےمنوّر ہوتے ہیں

        ثمینہ طارق


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

جمعرات، 26 دسمبر، 2013

انسان

              


      انسان
کبھی بکتے تھے یا
تحفتاً دئے جاتے تھے
لیکن اب صرف
مار دئے جاتے ہیں!!

       ثمینہ طارق


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

منگل، 24 دسمبر، 2013

زندگی

میری ڈائری سے اک ورق۔۔۔ ایک یاد 
'زندگی'
زندگی باغ کی طرح ہے جہاں پھولوں کے ساتھ ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں اور گرمی، سردی، خزاں، بہار سارے موسم اس باغ کو سہنے پرتے ہیں۔ باغ کے جیسا حوصلہ رکھئے اور سب کچھ خاموشی سے صرف سہنے کے بجائے ان سے لطف اندوز ہونے کا فن بھی سیکھئے تاکہ کوئی بھی موسم آپ سے ناراض ہو کر نہ گزرے۔خود بھی خوش رہئے اور سب کو خوش رکھئے۔


ثمینہ طارق


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

وقت - اقتباس


یہ سچ ہے کہ وقت ہر زخم کا مرہم بن جاتا ہے۔ کوئی بھی زخم کتنا ہی گہرا کیوں نہ   ہو وقت کا بہاؤ اسے بہا لے جاتا ہے۔  لیکن کچھ زخم ایسے  بھی  ہوتے ہیں جو وقت کے دھارے میں بہہ کر بہل تو  جاتے ہیں اور  وقت کا مرہم کچھ دیر کو تو  انہیں خشک کر دیتا ہے ۔مگر آہستہ آہستہ اُس پروقت کی کھڑند جم جاتی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ سخت ہو جاتی ہے. پھر جب اسی بے رحم وقت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہم ایسے زخموں کو کھرچے لگتے ہیں تو اُن  سے دوبارہ لہو رسنے لگتا ہے اور وہ زخم ہمارے دل کا ناسور بن جاتے ہیں۔

 ثمینہ طارق

جمعہ، 8 نومبر، 2013

سفر شرط ہے!! مکمل

سفر شرط ہے!! حصہ اوّل 
سفر شرط ہے!! سفر جسمانی ہو یا زہنی، سفر خیال کا ہو یا پھر روح کا- خیال کی پرواز پر سوچ کا سفر روح کی منزل پر پہنچنے میں مددگار  ثابت ہوتا ہے اور روح کا سفر مشکل ترین سفر ہونے کے باوجود تسکین کا باعث بنتا ہے اس سے ہمارا پورا وجود معطر ہو جاتا ہے  اور ےیہ سفر خوشبو کا سفر کہلاتا ہے- http://saminatariq.blogspot.com/2013/07/blog-post.html
 
سفرشرط ہے!! حصّہ دوئم      
سچ کے تلاش کے سفر کی نہ ہی ابتداء انسان کے اختیار میں ہیں اور نہ ہی انتہا –  رب جسے چاہے اس سفر پر لگا دے اور جسے چاہے تھکا دے – اُس کے اِذن کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں- اُسے پانا یا نہ پانا  دور کی بات ہیں لیکن اس سفر کی اپنی ہی ایک لزت ہے اور جو اس لزت سے آشنا  ہو جائے وہ پھر سفر کی کٹھنائیوں سے گھبرا کر سفر منقطع نہیں کرتا بلکہ اس کی خوشبو سے اپنی روح کو معطر کرتا ہے اور سفر جاری رکھتا ہے- http://saminatariq.blogspot.com/2013/07/blog-post_14.htm 

 سفر شرط ہے!! حصّہ سوئم 

سچ کا بیان لفظوں میں ممکن ہی نہیں- اس کا صرف تجربہ کیا جا سکتا ہے جو اس کی طلب رکھتا ہے وہ  کوشاں رہتا ہے اور کبھی نہ کبھی جواہرات کے اس ڈھیر سے وہ موتی پا ہی لیتا ہے جو اُس کی حیات کو تابندہ کرتا ہے-http://saminatariq.blogspot.com/2013/08/blog-post_3.html

سفر شرط ہے!! حصّہ چہارم


جیسا کہ کسی بھی منزل کا تعین کرتے وقت ہم سفر پر جانے کے لئے ضروری سامان کا بندوبست کرتے ہیں اور خاص خیال رکھتے ہیں کہ کوئی چیز غلطی سے بھی نہ بھول جائے ورنہ سفر میں مشکلات سے  ہمکنار ہونا پڑے گا  اور ہم سفر کی لذتوں سے محظوظ ہونے سے رہ جائے گے اور منزل پر پہنچ کر مطمئن نہ ہوگے۔ اسی طرح روح کے اس سفر پر نکلنے سے پہلے بھی ہمیں زادِ راہ تیّار کرنا پرتا ہے۔  اپنے دلوں کی مٹی کو نم کرنا پرتا ہے، صبر ، محبت ، رحمدلی اور حلیمی کا چولا اوڑھنا  پرتا ہے۔ اپنے آپ کو اُس ذاتِ پاک کی تخلیقات کے ساتھ ساتھ اُس کی مخلوق کے عشق میں بھی ڈبونا پرتا ہے۔ جب کہیں جا کر منزل پر روح کو تسکین میسر آتی ہے۔لیکن اس تسکین سے مستفید ہونے کے لئے بھی۔۔۔۔۔۔ سفر شرط ہے!!




ثمینہ طارق








    

بدھ، 23 اکتوبر، 2013

سفر شرط ہے!! حصّہ چہارم

القرآن:
"بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اور ہر حال میں خدا کو یاد کرتےاورآسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے) ہیں کہ اے پروردِگار تو نے اس مخلوق کوبےفائدہ نہیں پیدا کیا۔ تو پاک ہے تو قیامت کےدن ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچانا۔ 
(سورۃ آلِ عمران  (۳)،۱۹۱ ۱۹۰)
"کیا تم نے غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ تعالیٰ نے تھمارے لیے تابع کر رکھا ہے اور اُس نے تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں کر رکھی ہیں-"  (سورۃ لقمٰن(31 )آیت 20)

یہ کائنات خدا کی تخلیق کردہ ہے اور خدا نے اسے بڑی خوبصورتی اور ترتیب سے تخلیق کیا ہے۔ اتنا حسن عطا کیا ہےکہ آنکھیں حیراں ہو جاتی ہے۔ بلندو بالا پہاڑ، بہتے دریا، سر سبز و شاداب وادیاں، صحرا، شمس و قمر،کہکشاں،پھول ، پودے،  درخت، جانور اور انسان۔ سب کچھ خدا کا تخلیق کردہ ہے ،جہاں خدا نے کائنات کو بے پناہ حُسن سے نوازا وہی انسان کو حُسن پرست بنایا اور وہ خدا کی تخلیقات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ ان تخلیقات میں سب سے اونچا مرتبہ انسان کو دیا گیا اور اسے اشرف المخلوقات بنایا گیا کیونکہ انسان  کو اللہ نےاپنے رنگ میں رنگا ہے۔اسں میں اپنی روح پھونکی اور اسےعقل و شعور سے نوازا اور احساسات کی دولت عطا کی۔ باقی تمام کائنات کو اللہ تبارک و تعالٰی نے انسان کا تابع کر رکھا ہے وہ اللہ کی مرضی سے جب چاہے اس تسخیر کر سکتا ہے۔دنیا کی تمام اشیاء کو انسان کے لئے نعمت بنا کر اُتارا گیا اور انسان کو اس سے مستفید ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔ساتھ ہی کائنات پر غور و فکر کرنے کی تلقین کی گئی اور یہ بات واضح کی گئی کہ انسان کو اس کائنات میں خدا کا نمائندہ بنا کر بھیجا گیا ہے اور اس کا مقصد اُس ذاتِ پاک کو اپنے اندر تلاش کرنا اور اُس کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔

سیّدنا پیر شمس تبریز فرماتے  ہیں
   "انسان کو خدا کی مخلوق کے درمیان ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ خدا فرماتا ہے " میں نے  اس میں اپنی روح پھونکی ہے۔" کسی استثناء کے بغیر ہم میں سے ہر ایک کو زمیں پر خدا کا مندوب بنایا گیا ہے۔ آپ اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ کب اور کس حد تک مندوب سا برتاؤ کرتے ہیں؟ یاد رکھیں ، یہ روحِ الٰہی ہم سب میں موجود ہے اورہم سب پر اس کو اپنے اندر سے دریافت کرنا اور اس کے مطابق زندگی گزارنا فرض ہے۔"

خدانے ہر انسان میں اپنی روح پھونکتے ہوئے اُسے تخلیق کے کسی نہ کسی جوہر سے ضرور نوازا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ اس جوہر کو اپنے اندر سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ اس سے نا آشنا رہتے ہیں۔جو لوگ اپنے اس جوہر سے آشنا ہوجاتے ہیں وہ اللہ کی تخلیقات کو اپنے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کبھی اپنے کیمرے کی قید میں لا کر تو کبھی اپنے برش اور رنگوں سے سجا کر تو کوئی اسے اپنے لفظوں کے موتیوں کی مالا میں پروکر تحریر کرنا چاہتا ہے اور کوئی ان کی تعریف میں گیت بُنتا اور گاتا ہے تو کوئی سُر میں ڈھالتا ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کتنی ہی کوشش کرلے لیکن وہ خدا کے تخلیق کردہ اس حُسن کو اُس طرح بیان کرنے میں ناکام ہی رہتا ہے جیسا کہ اُس کی آنکھ اُس منظر کو دیکھ پاتی ہیں یا دل اُسے محسوس کر پاتا ہے۔

مستنصرحسین تارڑ ایک مشہورمصنف جناب اور سیّاح اپنی کتاب یاک سرائے میں لکھتے ہیں:
"تو نیلے پہاڑوں میں...برف کے جو انبار تھے....دریا سرسبز ڈھلوانوں کے اندر اتنے چکاچوند سفید بہاؤ کے ساتھ بہتا تھا کہ برف کا دریا لگتا تھا اور جہاں بلندی کم ہوتی تھی وہاں اس کے کناروں تک آتی وسیع چراگاہیں جن میں کہیں دھوپ آتی تھی اور کہیں بادلوں کے سائے ...کہیں جانور تھے جو گھاس پر جھکے ہوئے تھے اور دوری کی وجہ سے ساکت ماڈل لگتے تھے...نہیں .... میں دراصل اس منظر کو بیان کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہوں...حسن کی ایک جھلک اس پوری کتاب پر بھاری ہوتی ہے جو اس حسن کو بیان کرنے کے لیے لکھی جاتی ہے۔"

 قدرت سے متاثر ہونا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ انسان چاہے اپنی معاشی زندگی میں کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہو وہ کتنی ہی میکانکی زندگی گزار رہا ہو، کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں  قدرت کے کسی نہ کسی عمل سے متاثر ضرور ہوتا ہے۔ کبھی بادل کی گرج سےتو کبھی بارش کی بوندو ں کی ٹِپ ٹِپ سے ، کبھی گر می کی شدت سے تو کبھی جاڑے اور کہر سے ۔کبھی چاند کے بڑھنے اور گھٹنے سے تو کبھی تاروں کی جھلمل سے۔ کبھی کسی کسی پرندے کی آواز سے تو کبھی کسی جانور کی غراہٹ سے۔ غرض انسان کبھی نہ کبھی تو قدرت سے متاثر ہوتا ہی ہے۔

انسان جس قدر قدرت سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے اسقدر وہ اس کے عشق میں گرفتار ہوتا جاتاہے۔ انسان کو االلّہ نے فطرطاً حسن پرست اور روماویت پسند بنایا ہے جس کے باعث وہ خدا کی تخلیقات کو نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ اُس سے محبت اور لگاوٹ کے جزبات سے بھی دوچار ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس روماویت پسندی کو ترویج دیتے ہیں اورقدرت کے بارے  میں صرف جاننے اور انہیں  دیکھنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے ہیں بلکہ اُن کی تحقیق اور مشاہدہ کرتے ہیں اور جو لوگ یہ کر پاتے ہیں وہ قدرت کے پے پناہ حسن سے نہ صرف محظوظ ہوتے ہیں بلکہ اس کے خالق تک پہنچے کی راہ بھی ہموار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی محبت جنون بن کر انہیں اس کا عاشق بنا دیتی ہے۔

دانیال شاہ ایک نوجوان ٹریول جرنلسٹ اور فوٹوگرافر اپنی ایک تصویر کے کیپشن میں لکھتے ہیں
"میں قدرت کا  معترف صرف اس کے بارے میں بات کرکے نہیں ہوا بلکہ اس کا مشاہدہ کرکے ہوا ہوں۔ یہ مجھ پراُس خالق کے وجود کو منکشف کرتے ہیں جس نے اس خوبصورتی اور رنگوں کو بنایا اور جو دن اور رات کے آنے جانے کو ، سورج ،روشنی، پہاڑ اور تمام نظام پر تسلط رکھتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ قدرت کا مشاہدہ کیا جائے اوراُس کے خالق اللہ کی شان و شوکت سے انکار کیا جائے۔ میں جتنا زیادہ مشاہدہ کرتا ہوں اتنا ہی میں اپنے خالق سے قریب تر ہوتا جاتا ہوں۔ " 

یہ انسانی فطرت ہے کہ جب بھی وہ کوئی خوبصورت تخلیق دیکھتا ہے تو اُس کے خالق سے ملنے اور اُسے جاننے کی کوشش کرتا ہے۔اگر ہم کوئی تصویر دیکھے اور وہ ہمیں پسند آجائے تو ہم یہ ضرور چاہے گے کہ اُس کے خالق کے متعلق جانے یا کوئی تحریر یا کتاب پڑھےاور وہ ہمارے دل کو چھو جائے  تو ہم ہر حال میں اُس کے مصنف کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہے گے۔ جب انسان کو کوئی تخلیق پسند آجائے اور وہ اُس کے خالق کے متعلق جان لے تو وہ اُس کےخالق سے بھی اسقدر محبت کرنے لگتا ہے جتنی اُسے اُس کی تخلیق سے ہوتی ہے پھر چاہے وہ شخص کتنی ہی دور کیوں نہ بستا ہو، اُس سے باہمی ربط کا ساماں میسر ہو یا نہ ہو، اُس سے کبھی بات کرنا ممکن ہو یا نہ ہو پھر بھی دل میں اُس کے لئے محبت اور احترام کا جزبہ کارفرما رہتا ہے۔تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس خوبصورت کائنات کے ہر رنگ سے متاثر ہونے کے بعد بھی ہم اس کے خالق کی طرف متوجّہ نہ ہو؟ جسے خدا کی تخلیقات سے محبت ہو جائے وہ ہر صورت اُس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے اور ہر اُس راستے کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے جو اُسے اپنے رب کی جانب رواں کردے۔

حق کے راستے پر چلنے میں سب سے بڑی سختی یہ ہے کہ انسان تنہا رہ جاتا ہے- لیکن یہی راستہ اُس قرب کی جانب لے جاتا ہے جس کو پانے کے بعد تنہائی کا تصوّر باقی نہیں رہتا-اس راستے پر چلتے ہوئے انسان کاخدا کی تخلیقات سے خدا کی جانب مُڑ جانا اُس کے عشق کی پہچان ہے۔ لوگ اُس کے عشق کو دیوانگی اور پاگل پن کا نام دیتے ہیں لیکن وہ ان منازل کو رفتہ رفتہ طے کرتے ہوئے اپنی پہچان پا ہی لیتا ہے۔جب انسان رب سے قربت محسوس کر لے تو پھر وہ اس بات پر یقین کر لیتا ہے کہ کوئی تنہا نہیں ہوتا۔ خدا ہر وقت ہر جگہ اس کے ساتھ موجود ہے ۔ پھر وہ اپنا ہر دُکھ اپنے رب کے سامنے ظاہر کرتے ہوئے نہیں گھبراتا ہے اور اللہ سے دوستی کرنے والے شخص کو کبھی بھی خوشی کی تلاش میں سرگرداں نہیں ہونا پرتا ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں خوشی کو ڈھونڈ لیتا ہے۔اُسے اس سفر کی دشواریوں سے خوف محسوس نہیں ہوتا ہے اور وہ یہ سفر بخوبی طے کرتا چلا جاتا ہے اور آخر کار ایک دن ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے واپسی کاراستہ ممکن نہیں ہوتا۔

محترمہ بانو قدسیہ صاحبہ اپنی کتاب راجہ گدھ میں تحریر فرماتی ہیں:
"دیوانگی دو طرح کی ہوتی ہے ۔ایک دیوانہ پن وہ ہوتا ہے جس کی مختلف وجوہات یہاں بیان کی گئیں ۔ جن کی وجہ سے حواس مختل ہو جاتے ہیں اور انسان کائنات کی ارزل ترین مخلوق بن جاتا ہے ۔لیکن ایک دیوانگی وہ بھی ہے جو انسان کو ارفع و اعلٰی بلندیوں کی طرف کھینچتی ہے ، جیسے آندھی میں تنکا اوپر اٹھتا ہے ۔پھر وہ عام لوگوں سے کٹتا ہے ۔دیکھنے والے اسے دیوانہ سمجھتے ہیں ، لیکن وہ اوپر اور اوپر چلتا جاتا ہے ۔حتی کہ وہ عرفان کی آخری منزلیں طے کرتا ہے۔ عام لوگ اسے پاگل بھی سمجھتے ہیں لیکن انسان جب ترقی کرتا ہے پاگل ہی ہوتا ہے۔"

جیسا کہ کسی بھی منزل کا تعین کرتے وقت ہم سفر پر جانے کے لئے ضروری سامان کا بندوبست کرتے ہیں اور خاص خیال رکھتے ہیں کہ کوئی چیز غلطی سے بھی نہ بھول جائے ورنہ سفر میں مشکلات سے  ہمکنار ہونا پڑے گا  اور ہم سفر کی لذتوں سے محظوظ ہونے سے رہ جائے گے اور منزل پر پہنچ کر مطمئن نہ ہوگے۔ اسی طرح روح کے اس سفر پر نکلنے سے پہلے بھی ہمیں زادِ راہ تیّار کرنا پرتا ہے۔  اپنے دلوں کی مٹی کو نم کرنا پرتا ہے، صبر ، محبت ، رحمدلی اور حلیمی کا چولا اوڑھنا  پرتا ہے۔ اپنے آپ کو اُس ذاتِ پاک کی تخلیقات کے ساتھ ساتھ اُس کی مخلوق کے عشق میں بھی ڈبونا پرتا ہے۔ جب کہیں جا کر منزل پر روح کو تسکین میسر آتی ہے۔لیکن اس تسکین سے مستفید ہونے کے لئے بھی سفر شرط ہے!!

ثمینہ طارق

'سفر شرط ہے' حصّہ سوئم



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

اتوار، 20 اکتوبر، 2013

شبِ ماہِ کامل





 20 October 2013th Full Moon Captured by +Salim M.P. Nensi
شبِ ماہِ کامل


خدا نے اس کائنات کو بے پناہ حُسن سے نوازا ہے تو ساتھ ساتھ انسان کو حُسن پرست بھی بنایا ہے- انسان خدا کی تخلیقات سے متاثر ہوئے بِنا نہیں رہ سکتا۔ قدرت کے مناظر انسان کے دل کو تسخیر کرتے ہے تو وہ ان کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے اور پھر اس سے دور رہنا اس کے لئے ممکن نہیں رہتا۔میری زندگی میں ان میں سے دو چیزیں بے انتہا اہمیت کا حامل رہی ہے ۔ ایک سمندر اور دوسرا ماہِ کامل یعنی پورا چاند۔ شبِ ماہِ کامل میں سمندر کے ساحل پر چہل قدمی کرنا یا گھنٹوں اپنے گھر کی بالکونی میں بیٹھ کر چاند کو تکنا اور اس کی کرنوں سے محظوظ ہونا میرا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے اور  یہی لمحات  میری حیات کے بہترین اور یادگار لمحات رہے ہیں۔کل  ایسی ہی ایک شب تھی اور میں اپنی ایک پُرانی دائری کی ورق گردانی کر رہی تھی کہ میری نظر ایک ایسی تحریر پر پڑی جو  ایسی ہی ایک شب میں لکھی تھی  وہ  ذیل میں درج کر رہی ہوں اور اسے اپنی خالہ دولت بانو کو منسوب کرتی ہوں کیونکہ یہ اُنہی کی یاد میں تحریر کی گئی تھی۔

                                                                                                                                                                                  
پورے چاند کی رات


پورے چاند کی رات  ہو

آسمان پر  چاند
 اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا  ہو
اور  اپنی کرنوں کا نور بکھیر رہا ہو
ایسے میں اکثر گھنٹوں
کھُلے آسمان تلے بیٹھ کر میں
چاند کو تکتی رہتی تھی
چاند کی کرنوں سے
کچھ حسیں یادوں کے عکس
میری آنکھوں میں اُتر کر
میرے وجود کو سرشار کرتے تھے
آج بھی ایسی ہی ایک
پورے چاند کی رات تھی
اور
آسمان چاند کی کرنوں سے
اُجیالا تھا
لیکن آج جب میں نے
چاند کو دیکھا تو
ا س کی کرنوں سے کوئی بھی
حسین عکس میری آنکھوں میں
اُتر نہ پایا
اور صرف
ایک ہی منظر
میری نگاہوں میں  اُبھرتا رہا
اک بے جان اور بے حس وجود
جس کے چہرے پر میں نے ہمیشہ
اُس ہستی کا احساس پایا
جس کو میں نے برسوں پہلے کھو دیا تھا
جس کی آواز کا ترنم
میری سماعت میں
میری ماں کی آواز بن کر گونجتا تھا
اور آج چاند کا یہ حُسن
یہ حسیں منظر
میرے وجود کو گھائل کر گیا
کیونکہ!
وہ ایک ایسی ہی
پورے چاند کی رات تھی
جب میں نے اپنی ماں کو
اک بار پھر سے کھو دیا
اور اب کی بار
ہمیشہ کے لئے کھو دیا
16 October 2005


 ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔



ہفتہ، 19 اکتوبر، 2013

دعا: اے میرے خدا


اے میرے خدا!

مانگوں کیا میں تجھ سے

کہ میرے ہاتھ اُٹھانے سے قبل

تُو نے اپنے کرم کی نوازشوں سے

میری ہر حاجت کو پُر کیا ہے


اے میرے خدا!!

مانگوں کیا میں تجھ سے

 کہ میری ہر طلب سے پہلے

تُو نے اپنی رحمتوں کی کثرت سے

میرے دامن کو بھر دیا ہے


اے میرے خدا !!

مانگوں کیا میں تجھ سے

فقط اپنے کرم کی اتنی نظر کر دے

میرے دل کے صحرا کو  اب تُو

اپنی طلب کے ابر سے سمندر کردے
 
 ثمینہ طارق


 
 

منگل، 3 ستمبر، 2013

خوف

کھو دینے یا کھو جانے کا خوف انسان کی فطرت میں شامل ہوتاہے چاہے وہ کسی چیز کے کھو جانے کا خوف ہو یا کسی اپنے کے کھو جانے کا خوف ہو- ہم اپنی عزیز ترین چیزوں کی حفاظت دل و جان سے کرتے ہیں کیونکہ ہمیں ان کے کھو جانے یا بچھڑ جانے کا خوف ہوتا ہے اور یہ خوف ہمارے ازہان پر کچھ اس طرح غالب رہتا ہے کہ ہم یہ محسوس ہی نہیں کر پاتے ہیں کہ اُس چیز یا شخص کا جُدا ہونا ہمارے مفاد میں  بھی ہو سکتا ہے یا ہمارے لئے خوش آئند ثابت ہوسکتا ہے- ممکن ہے ہماری زندگی میں اُس سے بہتر کوئی شخص وارد ہو یا ہم اُس سے بہتر کوئی شئے خرید لیں-
ہم اپنی چیزوں سے اس قدر محبت رکھتے ہیں کہ اُن کے کھو جانے کا خوف ہمارے اعصاب پر طاری رہتا ہے چاہے پھر وہ کوئی معمولی سی چیز ہی کیوں نہ ہو مثلًاً  ایک مصنف کے لئیے اُس کا قلم اور اک قاری کے لیے اُس کی کتاب۔ جب چیزیں کھو جاتی ہیں تو اُن کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں اور ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہم پہلے کی بنسبت بہتر یا قیمتی شئے خریدے  یعنی کہ ہم بہتری کی جانب مائل رہتے ہیں – پھر آہستہ آہستہ ہم اپنی پُرانی چیزوں کو اکثر فراموش کر بیٹھتے ہیں کیونکہ انسان نسیان کا مریض ہے اور ہر چیز کو بھولنے کا شرف رکھتا ہے- نسیان کا مرض بھی انسان کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں کیونکہ اگر ہم اپنی کھوئی ہوئی چیزوں کو بھول نہ پاتے تو یہ عمر بھر کا روگ بن جاتا-
لیکن ہم سے کوئی ہمارا اپنا بچھڑ جائے تو یہ دُکھ نا قابلِ برداشت ہوتا ہے- ہم اپنوں کو بھولنے کی کوشش کرنے میں جلد کامیاب نہیں ہوتے لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ ہم اپنوں کو بھی دُنیا کی تیز رفتاری میں بُھلا بیٹھتے ہیں لیکن جب کبھی وہ یاد آتے ہیں تو پھر سے دُکھی ہو جاتے ہیں- ان میں سے کچھ رشتے تو ہمارے بہت قریب ہوتے ہوئے بھی ہمیں دکھائی نہیں دیتے ہیں اور کچھ ہمیں چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے اس دُنیا سے چلے جاتے ہیں- قُدرتی طور پر بچھڑنے والے کو کو بھولنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا ہے لیکن ہم اکثر اپنے رشتوں کو بھی چیزوں کی طرح کہیں رکھ کر بھول جاتے ہیں اور ایک دن آتا جب یہ رشتے ہم سے کھو جاتے ہیں - انسان کو اپنی چیزوں کی بنسبت رشتوں کے بچھڑنے کا احساس بڑی دیر میں ہوتا ہے ور اُس وقت تک وہ ہم سے اس قدر دُور ہو جاتے ہیں کہ اُنہیں دوبارہ اپنی زندگی میں لانا ممکن نہیں رہتا- ہم چاہتے ہوئے بھی نہ تو انہیں دوبارہ ڈھونڈ پاتے ہیں اور نہ ہی بھُلا پاتے ہیں اور یہ رشتے درد بن کر ساری زندگی ہمارے دل میں رہتے ہیں-چیزوں  اور رشتتوں دونوں ہی کے کھودینا دردناک ثابت ہوتا ہے لیکن انسان بآسانی اس عمل سے گزر جاتا ہے- کبھی پیچھے مُڑ کر دیکھے اور اپنی زندگی کا جائزہ لے تو تھوڑی دیر کو دُکھی ضرور ہوتا ہے لیکن پھر سے اپنی زندگی کے کاموں میں مشغول ہو کر سب کچھ بھلا دیتا ہے۔
انسان صرف اپنی چیزوں اور رشتوں کے کھونے کے ڈر میں ہی مبتلا نہیں رہتا بلکہ وہ خود کو کھو دینے سے سب سے زیادہ خوفزدہ رہتا ہے۔خود کو کھودینے کا  خوف انسان کے لئے سب سے تکلیف دہ ثابت ہوتا ہےاور یہ خوف ان تمام خدشات پر ہاوی ہوتا ہے جس سے ہمیں زندگی میں واسطہ پرتا ہے مثلاً  نہ پسند کئے جانے کا خوف، مسترد کئے جانے کا خوف، تعلقات کے ٹوٹنے کا خوف، پسندیدہ اشیاءکے کھونے کا خوف- یہاں تک کے اُن حالات  کے کھودینے کا خوف جس میں ہم خوش اور مطمئن ہے- ہم یہ جانتے ہیں کہ انسان فانی ہے، ایک نہ ایک دن اسےاس دنیا سے چلے جانا ہے ۔ کوئی بھی ہمیشہ نہیں رہنے والا نہیں پھر بھی موت کا خوف ہرشخص پر مسلط رہتا ہے-ہم ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ نہ جانے کون سا لمحہ ہمارے لئے قزاقِ اجل کا پیغام لے آئے- خوف انسان کی فطرت کا اک حصّہ ہے-اس کے باعث ہم بہت سے ایسے کام کرنے سے قاصر رہتے ہیں جس سے ہمارے دل و دماغ کو سکون اور اطمینان میسر آتا ہے-موت سے پہلے بھی انسان اکثر و بیشتر اپنے آپ کو کھودینے کے عمل سے گزر جاتا ہے اور اس کا اچھایا     بُرا ہونا اس بات پرمنحصر ہے کہ ہم نے خود اپنے آپ کو کب، کہاں اور کن حالات میں کھویا ہے- کبھی انسان اپنے غموں اور دکھوں سے نجات پانے کے لئے اپنے آپ کو لوگوں کے ہجوم میں کھونے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی دنیا سے بیزار ہو کر سناٹوں میں ،کبھی کسی کے لفظوں میں تو کبھی کسی کے خیال میں، کبھی کسی سوچ میں تو کبھی کسی خواب میں- غرض انسان اپنی تمام  عزیز ترین  اشیاء اور رشتوں کی طرح موت سے پہلے خود کوبھی کھودیتا ہے-اگر خود کو کھونے کا یہ عملاپنی ذات کی تلاش کے سلسلے میں ہو تو پھر انسان کے لئے سفراور بھی مشکل ہوجاتا ہے اور خوف بھی زیادہ رہتا ہے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اپنی تلاش کا یہ سفر اُسے کہاں تک لے جائے گا اور پھر وہ خود کو ڈھونڈ بھی پائے گا یا مزید اس کی گہرائی میں اُترتا جائے گا-
 اپنے یقین کو ہمیشہ اپنے خوف سے بلند رکھیں اور خوف کو کبھی بھی اپنے یقین پر مسلط نہ ہونے دیں- جو لوگ اپنے خوف کو اپنےیقین  پر مسلط نہیں ہونے دیتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں اور ایسے کام کر جاتے ہیں جو عام طور پر ناممکن نظر آتے ہیں – اپنی تلاش کے سفر پر نکلنے والے وہ لوگ جن کا یقین پختا ہو او ر اللہ پر ایمان مضبوط ہو وہ اس تلاش کے سفر کو جاری رکھتے ہے اور اس کے ذریعے روح کے سفر کا انتخاب کرتے ہیں- روح کا سفر خوشبو کا سفر ہے اور یہ اپنا راستہ خود بناتا ہے اور اس راستے پر سفر کرنے والا دنیا کے خوف سے آزاد ہو جاتا ہےاور خود کو کھونے کے لئے ہر لمحہ تیار رہتا ہے- وہ اپنے آپ کو اُس ذاتِ پاک میں ڈبو دینا چاہتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ خود کو کھونے کا یہ عمل اس کی فنا ہے- لیکن انسان اپنی اس فنا میں بھی خوش ہے کیونکہ وہ اس کھودینے کے عمل کے دوران وہ سب کچھ پا لیتا ہے جس کی اُسے عمر بھر تلاش رہی ہے اور انسان کا اسطرح خود کو کھونے کا عمل اس کی زندگی کا سب سے مثبت عمل ثابت ہوتا ہے-وہ خود کو کھو کر بھی یہ بھول جاتا ہے کہ اُس نے خود کو کھویا ہے -یاد رہتا ہے تو فقط وہ جسے خود اپنے آپ کو کھوکر اُس نے پایا ہے-
کھو دینے کا ڈر تو انسان کی فطرت میں شامل ہے لیکن عشقِ خدا ایک ایسا دریا ہے جس میں ڈوبنے کے ڈر سے بار بار بار اُبھڑنے والا فقط تیرتا ہی رہ جاتا ہے جبکہ  ڈوب جانے والا پار اُتر جاتا ہے- ڈوبنے والا خود کو کھونے سے نہیں ڈرتا اور خود کو فنا کر کے بقا کا سفر بخوبی طے کر پاتا ہے-
 ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔