Translate

منگل، 30 جون، 2015

خدارا والدین کو وقت دیجئے، جو آپ پر اُن کا قرض ہے



جب ہمارے والدین ضعیف ہوجاتے ہیں تو بلکل ویسے ہی ہوجاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں ہوا کرتے تھے۔ جب بھوک لگے کھانا مانگنے لگے، جب جی چاہا سوجائیں، اور جب دل کیا باہر جانے کی ضد کی۔ جب بچّے ایسی ضدیں کرتے ہیں تو والدین اپنی تمام تر مصروفیات کو ترک کرکے اپنے بچّوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ رات میں نہ جانے کتنی بار ماں اور باپ دونوں اُٹھ کر اپنے بچّے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ جب بچّہ بیمار ہو تو والدین اُس کی تندرستی اور صحت کے لئے نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات، وہ یہ نہیں سوچتے کے اتنی رات تک کیوں جاگوں صبح تو آفس بھی جانا ہے۔ جب بچّے سیر کو جانے کی ضد کرتے ہیں تو والدین نہیں سوچتے کہ ایک دن تو چھٹی کا ملا ہے کیوں نہ آرام کروں یا اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزاروں بلکہ وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچّوں کے ساتھ چھٹی کا دن گزاریں، اور اِس سے بڑھ کر اُن کے لئے کوئی خوشی نہیں ہوتی۔
لیکن جب یہی والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں جنہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق اپنی اولاد کو دنیا کی تمام تر نعمتوں سے مالا مال کیا، اچھی تعلیم  دلائی جس کی وجہ سے آج بچّہ ایک اعلیٰ مقام پر فائز ہے اور اتنا مصروف ہے کہ اُسے اب یہ دیکھنے کا وقت بھی نہیں کہ والدین کس حال  میں ہیں؟ اُسے اپنے دوستوں میں وقت گزارنا زیادہ اچھا لگتا ہے، اپنی مرضی سے اپنے وقت پر کھانا اور سونا اچھا لگتا ہے۔ یہ خیال نہیں آتا کہ کم از کم دن میں ایک وقت رات کا کھانا ہی ساتھ بیٹھ کر کھا لیا جائے۔ والدین کے سونے سے پہلے گھر آیا جائے تاکہ کچھ دیر اُن کے ساتھ وقت گزارا جائے اور کبھی کسی چھٹی کے دن اُنھیں بھی ساتھ لے کر جایا جائے۔
اکثر والدین اپنے بچّوں کی شکایت نہیں کرتے اور اپنے آپ کو بچّوں اور اُن کے بچّوں کے وقت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی کبھی شکایت کر بیٹھے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ والدین اُن کی ترقّی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور اُنھیں آزادی میسر نہیں ہیں۔ ایسے وقت میں وہی والدین جنہوں نے اپنی ساری حیات اپنے بچّوں کے لئے تیاگ دی وہ اب اُن پر بوجھ بن جاتے ہیں اور وہ اُنہیں دارالسکون میں غیروں کے حوالے کر آتے ہیں۔ کچھ کو پاگل یا نفسیاتی مریض قرار دے دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنا حق نہ ملنے پر بچّوں کی طرح لڑنے اور جھگڑنے لگتے ہیں یا پھر رونے لگتے ہیں۔ وہ نفسیاتی مریض نہیں ہوتے ہیں لیکن جب اُنھیں اِس طرح غیروں میں چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ ضرور نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔
دارالسکون سے مراد ایک ایسا گھر ہے جس میں ہم سکون کی زندگی بسر کر سکتے ہیں اور یقیناً وہ گھر سب اپنوں سے مل کر ہی بنتا ہے لیکن اب یہ ایسا گھر بن چکا ہے جہاں بزرگوں کو رکھا جاتا ہے۔ پہلے تو مشرق میں دارالسکون کے نام سے کوئی واقف نہ تھا لیکن اب ہر ملک اور شہر میں ایسے گھر آباد ہوچکے ہیں۔ بہت سی این جی اوز اور نوجوانوں کے ٹولے یہاں آتے ہیں اور تمام تہوار منائے جاتے ہیں چاہے وہ ایسٹر ہو، ہولی ہو یا عید، ویلنٹائن ڈے یا پھر مدرز ڈے ہو۔ مختلف لوگ آکر مختلف قسم کی سرگرمیوں کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کو اکیلے پن سے نجات دلائی جا سکے۔ لیکن اگر یہاں کوئی نہیں ہوتا تو اُن کی اپنی اولادیں جن کی خوشیوں کے لیے اُنہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہوتا۔
بوڑھے افراد کو بھی زندگی کو بھرپور طریقے سے جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہم لوگوں کو لیکن فرق صرف یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی  زندگی میں یہ خوشیاں خود سے لانے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں۔ وہ عمر کے ساتھ اپنی خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں اور کچھ بھی کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اُنھیں ہر قدم پر ہماری اُسی طرح ضرورت ہوتی ہے جیسے بچپن میں ہمیں اُن کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ ہم سے کچھ نہیں مانگتے ہیں سوائے تھوڑا سا وقت اور پیار کے دو بول درکار ہوتے ہیں خوش رہنے کے لئے۔
کیا آپ کے گھر میں آپ کے والدین آپ کے ساتھ رہتے ہیں؟ کیا آپ اُنھیں اپنا وقت دیتے ہیں؟ اگر نہیں تو جائیے اور اپنے والدین کو وہ وقت دیجئے جو آپ پر اُن کا قرض ہے۔

ثمینہ طارق

نوٹ:میرا یہ بلاگ ۲۰ جون ۲۰۱۵ کو روز نامہ ایکسپریس میں مندرجہ ذیل لنک پر شائع ہوا ہے۔ اس بلاگ کو آپ پہلے میرے اس بلاگ پر دارالسکون کے نام  سے پڑھ چکے ہیں ۔ روزنامہ ایکسپریس میں شائع کرنے کے لئے لفظوں کی مقررہ تعداد میں بلاگ لکھنا لازمی ہوتا ہے اس لئے اسے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ لکھا گیا۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں