Translate

منگل، 28 اپریل، 2015

غزل: تجھ سنگ بیتا ہر لمحہ حاصلِ سفر لگتا ہے

آج پرانی ای میلز چیک کرتے ہوئے ایک فائل ہاتھ لگی جس کو میں کمپوٹر کی خرابی کی وجہ سے ای میل میں سیو کر کے بھول چکی تھی۔ اس میں بہت سی نظمیں اور غزلیں جو اُن دنوں لکھنے کا شوق سوار تھا وہ رومن میں لکھی ہوئی تھی۔ اُن میں سے ایک غزل اُردو میں تحریر کرکے شئیر کر رہی ہوں جو میں جانتی ہوں نہ وزن میں ہے نہ ہی بحر میں درست ہوگی۔ مگر اگلے وقتوں کی ایک کوشش آپ سب کی نظر۔

تجھ سنگ بیتا ہر لمحہ حاصلِ سفر لگتا ہے
 باقی کا سارا سفر تنہا ، بے خبر لگتا ہے

اِک پل کو تیری دید کی آرزو تھی ہمیں
 وہی پل کیوں بے اعتبار اس قدر لگتا ہے

تیری یادوں کا سایہ ساتھ رہے گا ہمیشہ
 یہ سایہ،اپنی تنہائیوں کا ہمسفر لگتا ہے

تیری بولتی نگاہوں کو جس دم دیکھاتھا
 وہی منظر ہر منظر سے اب معتبر لگتا ہے

تپتے صحرا کی رہگزر ٹھنڈی چھاؤں لگےہے
ساتھ تیرا مجھے اب، سایہ دار شجر لگتا ہے

شمعِ حیات کی لوح چاہے تو بُجھ جائے اب
 مجھ کو تو اپنا یہ سفر اب سفل لگتا ہے


ثمینہ طارق



2 تبصرے: