کبھی یوں بھی ہوتا ہے
سمندر پر سفر کرنے والے
کچھ لوگ!
کسی بے نام جزیرے پر
اترتے ہیں
اور
ساحلوں کے ساتھ چلتے ہوئے
ریت پر
اپنے قدموں کے گہرے نشان
چھوڑ جاتے ہیں
کبھی یوں بھی ہوتا ہے
ساحلوں پر چلنے والے یہ لوگ
ریت پر
کچھ کچے گھروندے بناتے ہیں
اور ان میں
محبتوں کے کچھ
خوا ب پروتے ہیں
اور کبھی کبھی
ریت کے ماتھے پر
اپنا نام لکھ جاتے ہیں
کبھی یوں بھی ہوتا ہے
ساحلوں پر نشان چھوڑتے
گھروندوں میں خواب پروتے
ریت پر اپنا نام لکھتے
یہ لوگ!
تھک کر اپنی کشتیوں میں سوار
سمندر کو لوٹ جاتے ہیں
اور پھر کئی دنوں تک
کوئی بھی سمندر کے
رُخ
اس جزیرے پر نہیں اُترتا
کبھی یوں بھی ہوتا ہے
سمندر کی تندو تیز لہریں
قدموں کے ان
گہرے نشانوں کو
بہا لے جاتی ہے
اور تیز ہوائیں
ان کچے گھروندوں کو
بکھیڑ دیتی ہے
ریت پر لکھے یہ نام
بے نام ہو جاتے ہیں
کبھی یوں بھی ہوتا ہے
اس بے نام ساحل پر
ریت کے ذرّے
اُرتے پھرتے ہیں
گہرے نشان چھوڑتے
ان قدموں کو ڈھونڈتے ہیں
ٹوٹے گھروندوں کی
بکھری ریت میں
ان خوابوں کو تلاشتے ہیں
ریت پر لکھے ان ناموں کو
صدائیں دیتے ہیں
کبھی یوں بھی ہوتا ہے
کہ ان کی یہ صدائیں
سمندر کی لہروں کے شور میں
دب جاتی ہیں
اور کبھی ویران ساحلوں سے ٹکرا کر
واپس لوٹ آتی ہیں
اس بے نام جزیرے پر
بے نام صداؤں کے
سنّاٹے گونجتے ہیں
اور کبھی کبھی یہ سنّاٹے
جزیرے کے سینے میں ہی دب جاتے ہیں!!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں