صفحات

منگل، 3 نومبر، 2015

رشتے

رشتے کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ اور کیسے ہیں؟ ہمارے سب سے قریب رشتے خون کے رشتے ہوتے ہیں جو ہمیں قدرت کی طرف سے عطا کئے جاتے ہیں لیکن ہم اپنی زندگی میں اور بھی بے شمار رشتے بناتے ہیں۔ کچھ ہماری ضرورتوں کے تحت وجود میں آتے ہیں اور کچھ جزبات کے تحت بنتے ہیں۔ بعض اوقات ہم انجان لوگوں سے بھی رشتہ جوڑ بیٹھتے ہیں ، کبھی کسی کی  آواز سے تو کبھی کسی کے لفظوں سے۔لیکن ان تمام رشتوں کی اساس کیا ہے؟ ان کا جُڑے رہنا کس کے باعث ہے؟ اگر غور کیا جائےتو ہر رشتہ ' محبت' کی ڈور سے جُڑا ہوتا ہے۔ اگر تو کسی بھی رشتے یا تعلق کے درمیان محبت نہ ہو تو پھر وہ غرض اور ضرورت کا رشتہ رہ جاتا ہے جو نہ ہی پائدار ہوتا ہے اور نہ ہی تسکین بخشتا ہے۔اگر رشتوں کی جڑوں  میں محبت کا پانی نہ ڈالا جائے تو یہ پودا کمزور اور لاغر ہو جاتا ہے اور پروان نہیں چڑھ پاتا۔

 وقت کے ساتھ ہم اپنی زندگیوں میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ اکثر اوقات ان رشتوں سے میل ملاپ نہیں ہو پاتا ہے اور ہم لمبے عرصوں تک ایک دوسرے کے حالات سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔ہم محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ہم سب خود غرض ہو چکےہے اور ایک دوسرے کے لئے نہیں سوچتے لیکن اس محبت کا احساس ہمیں اُس وقت ہوتا ہے جب ہم میں سے کوئی کسی بڑی مشکل میں پر جائے ، بیمار ہو جائے یا اس دارِ فانی سے رخصت ہو جائے ۔ ایسے وقت میں  سب ایک جگہ موجود ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی تسلی و تشفّی کا باعث بنتے ہیں ۔

انسان اپنی فطرت سے مجبور ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی محبت پر یقین نہیں کرتا ہے اور اُنہیں آزمائش میں ڈالے رکھتا ہے کہ جان پائے کہ کون کس سے کتنی محبت کرتا ہے۔ آزمائش انسانی رشتوں کے درمیان محبت کو مضبوط کرنے کے بجائے اُس میں دراڑ ڈال دیتی ہیں کیونکہ ہم  آزمائش کے دوران اپنے پیاروں کو ناراض کر بیٹھتے ہیں جس سے رشتے کمزور ہوجاتے ہیں۔انسان سے انسان کا رشتہ محبت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اور یہی پیار اور توجہ ان رشتوں کا مان ہوتا ہے جو آزمانے سے ٹوٹ جاتا ہے پھر سوائے دُکھ کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ہمیں اپنے رشتوں کو وقت دینا چاہئے نہ صرف بُرے وقت میں  بلکہ عام حالات میں بھی ایک دوسرے  کی ضرورتوں سے واقف رہنا چاہئے تاکہ دلوں میں قدورتوں کو جگہ نہ ملے اور نہ ہی ہمیں اور نہ ہی ہمارے اپنوں کو آزمائش کی چکّی میں پیسنا پڑے۔

انسان کا ایک رشتہ جو کہ اس دنیا میں آنے سے بھی پہلے جُڑتا ہے وہ اُس کی بنانے والی ذات سے قائم ہوتا ہے ۔ اپنے رب سے جُڑا یہ رشتہ سب سے مضبوط اور پائدار رشتہ ہوتا ہے۔ انسان کا تعلق ربِّ کریم سے قدرتی اور آفاقی ہوتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے درمیان محبت کا وجود نہ ہو ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم دنیا کی حرص اور لالچ کے سمندر میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ پھر ہمیں اپنے رب کی قربت کا احساس نہیں ہوتا۔ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ  جس نے ہمیں زندگی کی نعمت بخشی ہے وہ ہم سے ہماری بے انتہا پیار کرنے والی ماؤں سے بھی ۷۰ گنا زیادہ پیار کرتا ہے۔ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری ہر سانس اُس کی امانت ہے اور ہم اس کے لئے اُس کے محتاج ہیں۔ اُس کے اذن کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے ہیں پھر بھی دنیا داری میں اس قدر جُت جاتے ہیں کہ اُس سے رشتے کی اساس کو بھول جاتے ہیں۔ وہ اپنی تمام تر محبّتوں کو اپنی نعمتوں کی صورت ہمیں بخشتا ہیں اس کے بدلے  ہمیں صرف اُس کا حق ادا  کرنا ہے  جو کہ عبادات کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے جو ہماری جانب سے اُس سے محبت کا اقرار اور جواب ہے بلکہ اپنے دلوں کی تسکین کا باعث بھی بنتا ہے۔لیکن ہم اپنے دنیاوی رشتوں کی طرح اپنے رب سے بھی رشتہ صرف اپنی ضرورتوں کے تحت جوڑتے ہیں یا تو تکالیف میں اُس سے مدد مانگ کر یا پھر اپنی پریشانیوں سے نجات کے لئے۔

جیسا کہ انسان کا ہر رشتہ 'محّبت' کے ڈور سے جُڑا ہوتا ہے اسی طرح انسان  کا اپنے رب سے رشتہ بھی فقط محبت کی ڈور سے جُڑا ہوتا ہے لیکن اُس سے یہ رشتہ وقت اور  ضرورتوں کا محتاج نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ تو مسلسل ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ جیسا کہ محبتوں کو ہمیشہ اظہار کی ضرورت رہتی ہے اسی طرح اپنے رب سے محبت کا اظہار بھی مسلسل ہونا چاہئے ۔ جس طرح ہم اپنوں سے اپنی محبت کا اظہار تحفے تحائف دے کر کرتے ہیں اسی طرح اللہ سے محبت کا اظہار بھی عبادات میں باقاعدگی اور اُس کےاحکامات کی تکمیل کا تحفہ دے کر کرسکتے ہیں۔

آپ اپنوں سے اپنے رشتوں کو کس طرح مضبوط کرتے ہیں؟

ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

اتوار، 11 اکتوبر، 2015

جو تھام لیا تو سب پا لیا، جو چھوڑ دیا تو سب کھودیا



ثمینہ طارق  جمعرات 2 جولائ 2015



وقت کے گزرنے کی کیفیت کو ہم اپنے حالات اور واقعات اور اپنی زندگی کے پیرائے میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ فوٹو:فائل

وقت کبھی ٹہرتا نہیں، کہیں رُکتا نہیں، کسی کا انتظار وہ کرتا نہیں۔ لمحے منٹوں میں، منٹ گھنٹوں میں، گھنٹے دنوں اور دن مہینوں اور مہینے سالوں میں اس طرح  تبدیل ہوتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

وقت کے گزرنے کی کیفیت کو ہم اپنے حالات اور واقعات اور اپنی زندگی کے پیرائے میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ جب ہمیں کسی کا انتظار ہو تو وقت کاٹے نہیں کٹتا لیکن مقررہ وقت پر کام مکمل کرنا ہو تو تیزی سے نکلا چلا جاتا ہے۔ ہم اپنی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کی ذمّہ داری بھی وقت پر ڈال دیتے ہیں اور اس کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہوتے ہیں اُنہیں یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ ہماری کامیابی میں ہماری محنت، توجّہ، مستقل مزاجی اور لگن بھی شامل ہے جبکہ ناکامی میں ہماری کوتاہی، کم ہمتی اور خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہیں۔

ہر کام اپنے وقت پر اچھا لگتا ہے:
کچھ کام وقت رہتے ہی کر لئے جائے تو بہتر ہے ورنہ اُن کی اہمیت باقی نہیں رہتی جیسے کسی اپنے کی خوشی میں وقت پر شریک ہونا، یا کسی کی تکلیف میں اُس کا ساتھ دینا وغیرہ۔ ایسے خاص اوقات میں ہم اگر اپنی مصروفیت کے باعث شریک نہ ہوسکے تو یہ ہماری زندگی کی بڑی غلطی ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی اپنا روٹھ جائے یا ناراض ہوجائے تو اپنا محاسبہ کرنے میں اتنا وقت نہ صرف کردیں کہ پھر معذرت کا موقع ہی ہاتھ سے نکل جائے اور ہماری زندگی اُن پرخلوص دوستوں اور رشتوں سے خالی ہوجائے۔

وقت ہر درد کا مرہم ہے:
کوئی بھی زخم کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو وقت کا بہاؤ اسے بہالے جاتا ہے۔ لیکن کچھ زخم ایسے بھی ہوتے ہیں جو وقت کے دھارے میں بہہ کر بہل تو جاتے ہیں اور وقت کا مرہم کچھ دیر کو تو انہیں خشک کر دیتا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ اُس پر وقت کی کھڑند جم جاتی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ سخت ہوجاتی ہے۔ پھر جب اسی بے رحم وقت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہم ایسے زخموں کو کھرچنے لگتے ہیں تو  اُن سے دوبارہ لہو رسنے لگتا ہے اور وہ زخم ہمارے دل کا ناسور بن جاتے ہیں

گیا وقت کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا:
گیا وقت کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا، گزرا کل صرف یاد بن کر رہ جاتا ہے اور اگر یادیں حسیں ہو تو آنے والا ہر لمحہ روشن اورخوشگوار ہوتا ہے۔ اگر یادوں میں صرف درد ہو تو آنے والا ہر لمحہ آنسو بن جاتا ہے۔ پھر چاہے لمحہء موجود میں ہم خوشی سے ہمکنار ہی کیوں نہ ہوں۔ ماضی ہمارے حواسوں پر چھایا رہتا ہے اور جینا مشکل کر دیتا ہے۔ ہمارے پاس جو آج ہے وہ کل نہیں رہے گا یہاں تک کہ ہمارے رشتے بھی۔ زندگی کے کسی لمحے کی کوئی خبر نہیں ہم خود بھی آج ہے اور شائد کل نہ ہو۔ پیچھے جو رہتا ہے وہ یادوں کی صورت رہتا ہے۔ ہم کتنی ہی کوشش کرلیں گزرا وقت واپس نہیں آتا ہے۔

جو کچھ ہے لمحہ موجود میں پوشیدہ ہے:
وقت واقعات کا ایک تسلسل ہے جو ماضی سے حال اور پھر مستقبل کی جانب رواں رہتا ہے۔ گیا وقت کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا ہے اور آنے والا وقت کیسا ہوگا اس کی ہمیں کچھ خبر نہیں۔ اس سے صرف ربِ کریم کی ذات واقف ہے۔ ہم اپنے لئے کچھ بھی سوچ لیں، کچھ بھی منصوبہ بنالیں لیکن ہونا وہی ہے جو رب کی مرضی اور منشاء ہوگی۔ دن، مہینے اور سال یونہی گزرتے جائیں گے فقط لمحہ موجود ہی ہمارے اختیار میں ہے۔ اپنے آج کو محسوس کریں اور اس کی اہمیت سے آگاہ ہو کر ان قیمتی لمحات کو اتنا خوبصورت بنائیں کہ آنے والے کل میں وہ آپ کا حسین سہارا بنے یا آپ کے بعد آپ کے اپنوں کو سہارا دے سکے۔ یادیں ہی ہمارا قیمتی سرمایہ ہے جو کوئی ہم سے نہیں چھین سکتا ہے لیکن ان یادوں کو خوبصورت بنانے کے لئے آج کو اپنی گرفت میں لینا ضروری ہے، لمحہ موجود کو بھرپور انداز میں جینا ضروری ہے۔
جس طرح وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اسی طرح موت بھی کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ نہ جانے آنے والا کونسا لمحہ ہماری زندگی کا آخری لمحہ ہو تو کیوں نہ اس لمحے کو ہی اپنی گرفت میں رکھتے ہوئے آنے والی زندگی کے سفر کے لئے کچھ زادِ سفر حاصل کر لیا جائے اور اپنا مقصدِ حیات پا لیا جائے۔

جو کچھ ہے وہ اسی لمحہ موجود میں پوشیدہ ہے۔ جو تھام لیا تو سب کچھ پا لیا اور جو چھوڑ دیا تو سب کچھ کھودیا۔

ثمینہ طارق

میرا یہ بلاگ روزنامہ ایکسپریس میں  جمعرات ۲ جولائی ۲۰۱۵  کو مندرجہ ذیل لنک پر شائع ہوا۔ 

اتوار، 13 ستمبر، 2015

خوشبو والا گھر. (افسانہ)




آنکھ کھُلتے ہی اُس نے اپنے ارد گرد ایک مانوس سی خوشبو محسوس کی اور اُس کے چہر ے پر مُسکان پھیل گئی۔ مگر اُسی لمحے اُسے محسوس ہو ا کہ آج وہ قبل از وقت جاگ گئی ہے۔ عموماً صبح کھڑکیوں کے پردے ہٹنے کے ساتھ ہی سورج کی کرنیں اُس کے لئے آلارم کا  کام انجام دیتی تھی۔ لیکن ابھی تو کافی اندھیرا تھا اور کھڑکیوں سے پردے بھی نہیں ہٹائے گئے تھے۔ اُس کے جاگنے کی وجہ وہ مانوس سی خوشبو تھی جو بستر کے ساتھ رکھی میز پر رکھے گلدستے سے آرہی تھی۔ اُسے گلاب بے انتہا پسند تھے اتنے کہ ایسے  ایک گلاب کے لئے وہ ساری زندگی اس گھر میں رہنے کو تیار تھی اور یہ تو پھر پورا گلدستہ تھا۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر گلدستہ اُٹھا لیا اور  اپنے چہرے تک لا کر اُس کی خوشبو سےمحظوظ ہونے لگی۔ اتنے میں  اُس کی نظر میز پر رکھے ایک خوبصورت کارڈ پر پڑی  جس پر جلّی حرفوں میں  'ہیپی   مدرز ڈے'  لکھا ہوا تھا۔ کارڈ تھامتے ہی اُس کی مُسکان  چند لمحوں کے لئے معدوم ہوگئی مگر پھر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ آج وہ اُس گھر میں تھی جس میں رہنےکی وہ بچپن سے منتظر تھی۔
 چھوٹے چھوٹےٹِن کے چھتوں والے  گھروں پر مشتمل ایک محلّہ جس کی چھتوں کی دراروں سے سورج کی کرنیں چھن چھن کرتی پورے گھر کو چمکاتی رہتی  اور برسات میں کچّی زمین کو جل تھل کرتی تھی ،میں   نچلے درجے کی آبادی اپنی زندگی  گزارنے پر مجبور  تھی۔ شام ہوتے ہی  ہر گھر سے ننگ دھرنگ بچّے نکل کر گلی میں کھیلتے نظر آتے تھے اور اُن کے ساتھ ماریا بھی نکل آتی تھی ۔ماریا  اس  محلّے کی سب سے صاف ستھری اور سلجھی ہوئی بچّی تھی۔ اُس کے والد ایک اسکول میں چپراسی  تھے  اور اُن کی کوششوں سے ماریا کو بھی ان ہی کے اسکول میں بغیر فیس کے داخلہ مل  گیا تھا اس لئے وہ  ایک اچھے  اسکول میں  تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ اس کے برعکس محلّے کے زیادہ تر لوگ سڑکوں کی صفائی یا  پھر  مزدوری کرتے تھے اور اس قابل نہ تھے کہ اپنے بچّوں کو تعلیم دلوا سکے۔تعلیم نے  ماریا کو  محلّے کے دوسرے بچّوں سے ممتازکردیا تھا۔چونکہ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اس لئے اُسے محلّے کےبچّوں کے ساتھ ہی کھیلنا پرتا تھا۔ گلی میں کھیلتے ہوئے بھی وہ بچّوں کے درمیان نمایاں  نظر آتی ۔اس میں اُس کی والدہ کی سُلجھی طبیعت کا بھی ہاتھ تھا ۔ وہ محلّے کی دوسری خواتین کی طرح لوگوں کے گھروں میں کام کرنے نہ جاتی تھی بلکہ کپڑے سینے کا ہنر جانتی تھی اس لئے ماریا کے والد کے اسکول کے اساتزہ   اُنھیں کپڑےسینے  بھجوا دیتے  تھے ۔ اکژ بچے ہوئے کپڑوں  کو جوڑ کروہ  ماریا کے لئے خوبصورت فراک سی دیتی تھی۔ جس سے ماریا    محلّے کے تمام بچّوں میں منفرد نظر آتی تھی۔
چھوٹے چھوٹے گھروں پر مشتمل اس گلی کے  اختتام  پر ایک دو منزلہ پکّی چھت والی   عمارت بھی موجود تھی۔ جہاں سے کبھی کوئی بچّہ باہر نکلتے نہیں دیکھا گیا تھا لیکن ہر اتوار کو گلی میں کھیلنے والے تمام بچّے اس گھر کے دروازے کے آگے جمع ہو جاتے تھے کیونکہ اس گھر سے تھیلیوں میں بھر کر کھانے کی چیزیں بانٹی جاتی تھی اور محلّے کے تمام گھروں میں پہنچائی جاتی تھی اور یہ کام گلی میں کھیلنے والے بچّے ہی انجام دیتے تھے۔ ماریا بھی ان بچّوں میں شامل ہوتی تھی  اور اچھے اچھے کھانے لیتے ہوئے اُس کا جی چاہتا کہ وہ اس گھر میں رہنے چلی جائے  کیونکہ اُس  گھر میں  گلاب کے بہت سے پودے لگے ہوئے تھے جن کی خوشبو سے سارا محلّہ مہکتا تھا اور گلاب ماریا  کو بے انتہا پسند تھے۔ ماریا نے  اپنی اس خواہش کا ذکر کئی بار اپنی ماں سے کیا تھا اور خوب ڈانٹ کھائی تھی۔ 
اس محلّے میں کھیلتے ہوئے ماریا کا بچپن تمام ہوا اور اُس نےتعلیم مکمل کر کے اپنے ہی اسکول میں ملازمت حاصل کر لی۔ اب ان کا گھر بھی محلّے کے باقی گھروں سے بہت بہتر ہوگیا تھا مگر گلی کے آخر میں بنےہوئے اُس گھرمیں جانے کی خواہش اُس کے دل میں اب بھی تھی جسے اُس نے بچپن سے ہی خوشبو والا گھر کہنا شروع کر دیا تھا ۔ حالانکہ اب کئی سالوں سے اُس گھر سے کھانا نہیں بانٹا جاتا تھا بلکہ محلّے کے گھروں میں جو کچھ بھی پکتا وہ اُس گھر میں رہنے والوں کے لئے لے جاتے تھے۔ وہ گھر تو ویسا ہی تھا مگر اُس کے مکین بدل گئے تھے اور اب جو وہاں رہتے تھے وہ محلّے کے لوگوں سے بھی زیادہ ضرورت مند تھے۔ پہلے پہل تو ماریا کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ایسا کیوں ہوا لیکن بڑھتی عمر کے ساتھ اُس نے جان لیا کہ مکان وہیں رہ جاتے ہیں لیکن مکین جہان سے گزر جاتے ہیں۔جیسے اُس کے والد اُسے اکیلا چھوڑ کر چل بسے تھے۔
والد کی وفات کےبعد ماریا کی والدہ نے بہت کوشش کی کہ ماریا شادی کرلے لیکن ماریا اپنی ماں کو اکیلا چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس بات کو لے کر آئے دن دونوں میں بحث ہوتی رہتی۔جوزف کا رشتہ ماریا کے لئے آیا تو اُس کی ماں کی اُمید جاگ اُٹھی کیونکہ وہ ماریا کے بہترین دوستوں میں سے تھا اور ماریا اُسے پسند بھی کرتی تھی۔ماں نے بڑی اُمید سے ماریا سے کہا!
"ماریا   جوزف بہت اچھا لڑکا ہے ۔پڑھا لکھا بھی ہے اور اچھی ملازمت بھی ہے۔ ہم جیسے  غریب لوگوں کو  ایسے رشتے مقدر سے ملتے ہیں انھیں کھونا نہیں چاہئے۔"
"نہیں ماں!آپ نے یہ سوچا بھی کیسے کہ میں آپ کو چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔ آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ جوزف نوکری کے لئے   ملک سے باہر  جا رہا ہے۔ مجھے بھی اُس کے ساتھ جانا پرے گا پھر آپ اکیلے کیسے رہے گی۔ " ماریا  اپنی ضد پر قائم تھی۔
" تو ایسا کرو مجھے اُس خوشبو  والے گھر میں چھوڑ آؤ میں وہاں آرام سے رہوں گی۔" یہ سنتے ہی ماریا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے وہ کبھی خواب میں بھی نہیں  سوچ سکتی  تھی کہ وہ اپنی بیمار ماں کو اُس گھر میں چھوڑ کر شادی کرکے دوسرے مُلک  جا بسے۔
"نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی میں آپ کے ہی پاس رہوں گی اور آپ فکر نہ کریں اگر یہیں کوئی مناسب رشتہ مل گیا تو شادی بھی کر لوں گی۔" ماریا نے اپنے اور اپنی ماں کے آنسو پونچھے اور مسکراتےہوئے اپنی ماں کو دلاسا دیا۔ 
ماں کو بیماری ہی ایسی لگی جو اُس کی جان لے کر گئی اور ماریا اس دنیا میں بلکل  تنہارہ گئی۔ جب تک اسکول میں پڑھاتی رہی اُس کا وقت گزرتا رہا لیکن ریٹائر منٹ کےبعد اُسے اس گھر میں اکیلے وقت گزارنا بہت مشکل لگنے لگا۔ ماریا نے  وقت گزاری کے لئے خوشبو  والے گھر میں جانا شروع کردیا  جہاں اُس جیسے تنہائی کے مارے بہت سے لوگ موجود تھے۔وہ اُن کے ساتھ رہتی ، اُن کے کام کرتی ، اُن کے ساتھ تفریح کرتی ،اُن کی باتیں سنتی اور پھر رات گئے گھر لوٹ آتی۔ ماریا کو وہاں رہنے والوں کی حالت  دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا تھا۔ وہ تنہائی کے کرب سے واقف تھی لیکن اُس کے صبر کے لئے یہی کافی تھا کہ اُس کا کوئی اپنا اس دنیا میں موجود  نہیں ہے مگر وہاں بسنے والے لوگوں کے تواُن کے اپنے اس تنہائی کے اندھیرے غار میں دھکیل گئے تھے۔وہ اُن کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتی تھی مگر اُس کی پینشن  صرف اُس کی ضرورتوں کو پورا کر پاتی  تھی  وہ اتنی نہ تھی کہ وہ  اس سے کسی کی مدد کر سکتی۔
 ماریا کا دل اب گھر میں بلکل نہیں لگتا تھا۔ دن میں تو اُس کا وقت  خوشبو والے  گھر میں اچھا خاصا گزر جاتا تھا  مگر رات ہوتے ہی  گھر کی ہر چیز اُسے ماں کی یاد دلاتی تھی۔ رات کو سوتے میں اُسے ماں کی آواز سُنائی دیتی جیسے وہ پکار رہی ہو ۔ آخر کار اُس نے ایک اہم فیصلہ کیا اور اپنا گھر کرائے پر دے کر خود بھی  خوشبو والے گھر میں رہنے چلی گئی۔
گلاب کے پودوں کے درمیان بسے اس گھر میں ہر طرف خوشبو ہی خوشبو تھی جو صرف پھولوں کی خوشبو نہ تھی بلکہ اُس محبت اور احساس کی خوشبو بھی  تھی جو وہاں رہنے والوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے تھا۔ پھولوں کا گلدستہ ہاتھ میں لئے ماریا نے  کارڈ کو ایک بار پھر سے دیکھا اور اُن حسین لمحوں کا انتظار کرنے لگی جب نہ صرف محلّے کے بلکہ شہر کے بہت سے بچّے آج اس گھر میں بہت سے تحائف کے ساتھ آئے گے اور اُسے ماں نہ ہوتے ہوئے بھی ماں ہونے کاحسیں  احساس بخشے گے۔ وہ ایک دارلسکون میں موجود تھی، دارالسکون یعنی ایسا گھر جہاں سکون میسر ہو،  جو اُس کی گلی کے  اختتام پر بنے اُس گھر میں بنایا گیا تھا جسے وہ خوشبو والا گھر کہتی تھی اور   جس کے مکیں بے اولاد تھے اور موت  کے بعد اس گھر کو دارلسکون کے لئے وقف کر گئے تھے۔

نوٹ: یہ افسانہ فیس بُک کے اُردو افسانہ گروپ کے ایک ایوینٹ 'اکیسویں صدی کے افسانے' میں شامل ہوا جس کا لنک ذیل میں درج ہے۔


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

منگل، 30 جون، 2015

خدارا والدین کو وقت دیجئے، جو آپ پر اُن کا قرض ہے



جب ہمارے والدین ضعیف ہوجاتے ہیں تو بلکل ویسے ہی ہوجاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں ہوا کرتے تھے۔ جب بھوک لگے کھانا مانگنے لگے، جب جی چاہا سوجائیں، اور جب دل کیا باہر جانے کی ضد کی۔ جب بچّے ایسی ضدیں کرتے ہیں تو والدین اپنی تمام تر مصروفیات کو ترک کرکے اپنے بچّوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ رات میں نہ جانے کتنی بار ماں اور باپ دونوں اُٹھ کر اپنے بچّے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ جب بچّہ بیمار ہو تو والدین اُس کی تندرستی اور صحت کے لئے نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات، وہ یہ نہیں سوچتے کے اتنی رات تک کیوں جاگوں صبح تو آفس بھی جانا ہے۔ جب بچّے سیر کو جانے کی ضد کرتے ہیں تو والدین نہیں سوچتے کہ ایک دن تو چھٹی کا ملا ہے کیوں نہ آرام کروں یا اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزاروں بلکہ وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچّوں کے ساتھ چھٹی کا دن گزاریں، اور اِس سے بڑھ کر اُن کے لئے کوئی خوشی نہیں ہوتی۔
لیکن جب یہی والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں جنہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق اپنی اولاد کو دنیا کی تمام تر نعمتوں سے مالا مال کیا، اچھی تعلیم  دلائی جس کی وجہ سے آج بچّہ ایک اعلیٰ مقام پر فائز ہے اور اتنا مصروف ہے کہ اُسے اب یہ دیکھنے کا وقت بھی نہیں کہ والدین کس حال  میں ہیں؟ اُسے اپنے دوستوں میں وقت گزارنا زیادہ اچھا لگتا ہے، اپنی مرضی سے اپنے وقت پر کھانا اور سونا اچھا لگتا ہے۔ یہ خیال نہیں آتا کہ کم از کم دن میں ایک وقت رات کا کھانا ہی ساتھ بیٹھ کر کھا لیا جائے۔ والدین کے سونے سے پہلے گھر آیا جائے تاکہ کچھ دیر اُن کے ساتھ وقت گزارا جائے اور کبھی کسی چھٹی کے دن اُنھیں بھی ساتھ لے کر جایا جائے۔
اکثر والدین اپنے بچّوں کی شکایت نہیں کرتے اور اپنے آپ کو بچّوں اور اُن کے بچّوں کے وقت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی کبھی شکایت کر بیٹھے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ والدین اُن کی ترقّی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور اُنھیں آزادی میسر نہیں ہیں۔ ایسے وقت میں وہی والدین جنہوں نے اپنی ساری حیات اپنے بچّوں کے لئے تیاگ دی وہ اب اُن پر بوجھ بن جاتے ہیں اور وہ اُنہیں دارالسکون میں غیروں کے حوالے کر آتے ہیں۔ کچھ کو پاگل یا نفسیاتی مریض قرار دے دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنا حق نہ ملنے پر بچّوں کی طرح لڑنے اور جھگڑنے لگتے ہیں یا پھر رونے لگتے ہیں۔ وہ نفسیاتی مریض نہیں ہوتے ہیں لیکن جب اُنھیں اِس طرح غیروں میں چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ ضرور نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔
دارالسکون سے مراد ایک ایسا گھر ہے جس میں ہم سکون کی زندگی بسر کر سکتے ہیں اور یقیناً وہ گھر سب اپنوں سے مل کر ہی بنتا ہے لیکن اب یہ ایسا گھر بن چکا ہے جہاں بزرگوں کو رکھا جاتا ہے۔ پہلے تو مشرق میں دارالسکون کے نام سے کوئی واقف نہ تھا لیکن اب ہر ملک اور شہر میں ایسے گھر آباد ہوچکے ہیں۔ بہت سی این جی اوز اور نوجوانوں کے ٹولے یہاں آتے ہیں اور تمام تہوار منائے جاتے ہیں چاہے وہ ایسٹر ہو، ہولی ہو یا عید، ویلنٹائن ڈے یا پھر مدرز ڈے ہو۔ مختلف لوگ آکر مختلف قسم کی سرگرمیوں کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کو اکیلے پن سے نجات دلائی جا سکے۔ لیکن اگر یہاں کوئی نہیں ہوتا تو اُن کی اپنی اولادیں جن کی خوشیوں کے لیے اُنہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہوتا۔
بوڑھے افراد کو بھی زندگی کو بھرپور طریقے سے جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہم لوگوں کو لیکن فرق صرف یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی  زندگی میں یہ خوشیاں خود سے لانے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں۔ وہ عمر کے ساتھ اپنی خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں اور کچھ بھی کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اُنھیں ہر قدم پر ہماری اُسی طرح ضرورت ہوتی ہے جیسے بچپن میں ہمیں اُن کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ ہم سے کچھ نہیں مانگتے ہیں سوائے تھوڑا سا وقت اور پیار کے دو بول درکار ہوتے ہیں خوش رہنے کے لئے۔
کیا آپ کے گھر میں آپ کے والدین آپ کے ساتھ رہتے ہیں؟ کیا آپ اُنھیں اپنا وقت دیتے ہیں؟ اگر نہیں تو جائیے اور اپنے والدین کو وہ وقت دیجئے جو آپ پر اُن کا قرض ہے۔

ثمینہ طارق

نوٹ:میرا یہ بلاگ ۲۰ جون ۲۰۱۵ کو روز نامہ ایکسپریس میں مندرجہ ذیل لنک پر شائع ہوا ہے۔ اس بلاگ کو آپ پہلے میرے اس بلاگ پر دارالسکون کے نام  سے پڑھ چکے ہیں ۔ روزنامہ ایکسپریس میں شائع کرنے کے لئے لفظوں کی مقررہ تعداد میں بلاگ لکھنا لازمی ہوتا ہے اس لئے اسے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ لکھا گیا۔

جمعرات، 18 جون، 2015

تھیلیسیمیا


۸  مئی کو دنیا بھر میں تھیلیسیمیا  سے آگاہی کا دن منایا گیا ۔ اس دن کو منانے کا مقصد تھیلیسیمیا سے متعلق لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں مجھے بچّوں کے کینسر ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا  وہاں بھی تھیلیسیمیا کا ایک الگ وارڈ موجود تھا کیونکہ یہ بیماری بچّوں میں پائی جاتی ہے۔ اس سے آگاہی کے لئے  آگہی (افسانہ)لکھا جو میں یہاں پوسٹ کر چکی ہوں لیکن تھیلیسمیا سے متعلق مکمل معلومات اس مضمون میں لکھنے کی کوشش کروں گی۔ میں سائنس کی کسی فیلڈ سے تعلق نہیں رکھتی اس لئے معلومات جن ویب سائٹ سے لی گئی ہے اُس کے ریفرینس آخر میں درج کردئے جائے گے۔
 تھیلیسمیا کیا ہے؟ کیوں اور کب ہوتا ہے؟ کیسے اور کسے ہوتا ہے؟ اس کی احتیاط اور علاج کیسے ہو؟ اس کے خاندان بھر پر کیا اثرات ہوتے ہیں ؟ ہم اس کی آگاہی کے لئے کیا اقدام اُٹھا سکتے ہیں؟  اور سب سے اہم بات کہ ہم اس سے متاثرہ خاندان کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں۔یہ چند اہم  باتیں ہیں  جسے ذیل میں  جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔


 تھیلیسیمیا کیا ہے؟



تھیلیسیمیا خون کی ایک موروثی جنیاتی بیماری ہے جو والدین کے ذریعے اولاد میں منتقل ہوتی ہیں اور اس کی وجہ سے خون کے سرخ خلیوں کی وافر مقدار میں  ٹوٹ پھوٹ کے باعث خون کی شدید کمی ہو جاتی ہے اور ایسے مریض کو تا حیات خون کی تبدیلی کی ضرورت رہتی ہے اور ہر ۷ سے ۱۰ روز بعد خون لگوانا پرتا ہے۔ ایسے مریض کے جسم میں خون کے سُرخ خلیے بہت کم مقدار میں بنتے ہیں اور  اُس کا ہیموگلوبن بھی ایک نارمل انسان کی بنسبت بہت کم ہوتا ہے ۔ ہیموگلوبن خون کے سُرخ خلیوں  میں پایا جانے والا وہ پروٹین ہے جس کے ذریعے ہمارے جسم کو آکسیجن کی فراہمی ہوتی ہے۔
جنیاتی طور پر تھیلیسیمیا کی دو بنیادی اقسام ہیں :
·       الفا تھیلیسیمیا
·       بیٹا تھیلیسیمیا
الفا تھیلیسیمیا مریضوں  میں ہیموگلوبین کی الفا زنجیر کم بنتی ہےجبکہ بیٹا تھیلیسیمیا مریضوں  میں ہیموگلوبین کی بیٹا زنجیر کم بنتی ہے۔۔ اس طرح خون کی کمی واقع ہوتی ہے۔
جب کہ مرض کی شدت کےحساب سے تھیلیسمیا کی تین بنیادی اقسام ہیں:
·       مائنر تھیلیسیما
·       انٹرمیڈیا تھیلیسیمیا
·       میجر تھیلیسیما
تھیلیسمیا کی شدید ترین قسم " میجر " کہلاتی ہیں، درمیانی کیفیت 'انٹر میڈیا" جبکہ  کم  شدت والی قسم "مائنر " کہلاتی ہیں۔ ایک قسم کا تھیلیسمیا کبھی بھی کسی دوسری قسم میں تبدیل نہیں ہوتا ہے۔

کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟

یہ چونکہ موروثی بیماری ہے اس لئے یہ والدین سےاولاد میں منتقل ہوتی ہیں ۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک بھی تھیلیسیمیا کا مریض ہو تو اُن کے ۵۰٪ بچّے تھیلیسیمیا کا شکار ہونگے جبکہ اگر والدین میں سے کوئی بھی اس بیماری کا شکار نہ ہو تو تمام بچّے اس بیماری سے محفوط ہونگے۔ لیکن اس کا سب سے زیادہ خطرہ اُن بچّوں کو ہیں جن کے دونوں والدین میں یہ مرض پایا جاتا ہے۔ اگر دونوں والدین اس مرض کا شکار ہے تو ان کے ٪۲۵ فیصد بچّے نارمل جبکہ ۵۰٪بچّے تھیلیسیمیا مائنر اور ۲۵٪ بچّے تھیلیسیما میجر کا شکار ہونگے۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک بھی تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہو تو تمام بچّے اس بیماری کا شکار ہونگے اور اگر دونوں ہی والدین اس بیماری کا شکار ہے تو تمام بچّے تھیلیسیما میجر کا شکار ہونگے۔




تھیلیسیمیا مائنر اور میجر کےاثرات:
تھیلیسیمیا مائنر کے مریض کو عام طور پر کوئی شکایت نہیں ہوتی وہ ایک نارمل زندگی بسر کرتے ہیں اور اکثر اُنھیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہو ایک ایسی بیماری کو ساتھ لئے چل رہے ہیں جو اپنی اولاد کو منتقل کر سکتے ہیں۔ اس مرض میں مبتلا حاملہ خواتین خون کی شدید کمی کا شکار ہوتی ہے۔
تھیلیسیمامیجرصرف اُس صورت میں ہوتا ہے جب دونوں والدین اس بیماری کا کسی نہ کسی طرح شکار ہو۔ ایسے بچّے خون کی شدید کمی کا شکار ہوتے ہیں اور اُنھیں ہار دو ہفتے بعد خون کی بوتل چڑھانی پرتی ہےجس کے باعث وہ کمزوری کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری بیماریوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں اور اپنی زندگی  کو نارمل انداز میں نہیں گزار پاتے ہیں جس کے باعث خود اعتمادی سے محروم ہوتے ہیں اور ہر وقت کشمکش کا شکار رہتے ہیں۔ نہ کھیل کود میں حصّہ لے سکتے ہیں نہ ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ عام طور پر اس بیماری میں انسان ۳۰ سے ۴۰ سال کی عمر تک زندہ رہتا ہے لیکن پاکستان میں یہ افراد بمشکل ۱۰ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں۔ اگر تھیلیسیمامیجر کے بالغ افراد شادی کریں تو اُٗن کی تمام اولاد اس مرض کا شکار ہوگی ۔

تھیلیسیما کے مرض کی عام نشانیاں:
·       منہ کی ہڈی کی معزوری
·       تھکاوٹ
·       سست نمو
·       دیر سے بالغ ہونا
·       سانس کی کمی
·       جلد کا یرقان
·       کمزوری
·       پیٹ میں سوجن
·       بھوک کا کم لگنا
·       اعضاء کا بڑا ہونا مثلاً   تلّی ، جگر اور دل
·       ہاتھ پاؤں سرد ہونا
·       ہڈیوں کا کمزور ہونا
·       انفیکشن ہونا

تھیلیسیمیا کی تشخیص:
عام طور پر تھیلیسیمیا کی تشخیص ایک عام سے خون کے ٹیسٹ سے کی جاسکتی ہیں۔ اگر تو اوپر موجود کسی بھی ایک  نشانی کو اپنے بچّوں میں پائے تو فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کیجئے ۔ ڈاکٹر خون کے ٹیسٹ اور ضرورت پرنے پر دوسرے ٹیسٹ بھی کروا سکتے ہیں جس میں تلّی کے بڑھنے کا ٹیسٹ بھی شامل ہے یہ بیماری کی نوعیت اور شدت پر منحصر ہے۔ 

احتیاطی تدابیر:
تھیلیسیمیا میجر چونکہ ایک موروثی بیماری ہے جو کہ والدین سے بچّوں میں منتقل ہوتی ہیں اور اس کا کوئی واضح علاج میسر نہیں ہے بلکہ  یہ ایک جان لیوا بیماری ہےتو بہتر یہ ہے کہ اس کی تشخیص پہلے سے کروالی جائے ۔  اگر تو شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی دونوں اپنے خون کے ٹیسٹ کروالیں تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ تھیلیسمیا کے شکار ہےیا نہیں اگر تو ایک فرد صرف تھیلیسمیا مائنر کا بھی شکار ہے تو اُسے ایسے فرد سے شادی کرنی ہوگی جو کہ اس میں مبتلا نہ ہو تاکہ یہ  مرض اولاد میں منتقل نہ ہو۔ اس کے علاوہ ایسے افراد اپنے خاندان میں شادی سے گریز کریں کیونکہ اسطرح دونوں افراد تھیلیسمیا مائنر بھی ہوئے تو اولاد میجر کا شکار ہوگی۔


علاج:
تھیلیسیما کا علاج اس مرض کی نوعیت اور سختی پر منحصر ہے جو ایک ڈاکٹر مکمل تشخیص کے بعد تجویز کرتا ہے۔
  عام طور پر اس کے علاج میں مندرجہ ذیل جیزیں شامل ہیں:
·       خون کی منتقلی
·       ہڈی کے گودے کی پیوندکاری
·       ادویات
·       تلی اور/یا پتّے  کو ہٹانے کے لیے ممکن سرجری

تھیلیسیما کے اثرات:
·       تھیلیسیما کے مرض میں مبتلا افراد روزانہ کی بنیاد پر موت سے لڑتے رہتے ہیں۔ خون کی منتقلی اُن کو مزید بیماریوں  کا شکار کرتی ہے جس  کے خلاف اُن میں قوتِ مدافعت نہیں ہوتی  ۔
·       اس کے علاوہ کمزوری  کو باعث وہ کسی بھی قسم کی سرگرمی میں حصّہ لینے سے محروم ہوتے ہیں اور اپنی خود اعتمادی اور زندگی سے اعتبار کھو بیٹھتے ہیں۔
·       مریض کے علاوہ خاندان بھر پر بھی اس کے مضر معاشی اور سماجی اثرات ہوتے ہیں۔
·       معاشی طور پر ایسے بچّے کے والدین بہت ہی پریشان کُن حالات کا شکار رہتے ہیں اور ادویات اور خون کی فراہمی کے لئے دوسروں کی مدد کے طالب رہتے ہیں۔
·       اگر تو نوبت سرجری تک آجائے تو پھر والدین کے لئے اور بھی مشکلات کھڑی ہوتی ہیں اور وہ مدد کی تلاش میں رہتے ہیں کیونکہ سرجری بہت مہنگی ہوتی ہیں جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتی۔
·       ہڈیوں کے گودےکی تبدیلی کے لئے کسی نہ کسی بہن یا بھائی کا گودا میسر ہونا ضروری ہے ۔ اس صورت میں وہ بہن یا بھائی بھی سرجری کے عمل سے گزرتا ہے۔ یہ صورتِ حال تمام گھر والوں کے لئے نہ صرف پریشان کن بلکہ مایوس کن بھی ہوتی ہے۔
·       ایسے بچّے کو علاج کے علاوہ بھی مسلسل توجّہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ والدین اپنا زیادہ وقت ایسے بچّوں کے ساتھ گزارتے ہیں جس کے باعث اُس کے دوسرے بہن بھائی عدم توجّہ کا شکار ہو کر نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
·       ایسے خاندان معاشی طور پر غیر مستحکم ہوتے ہیں اور اپنی روزمرّہ کی ضروریات پوری کرنے کے قابل بھی نہیں رہتے ۔


تھیلیسیما کےلئے ہمارا کردار:
ایک تخمینے کے  مطابق پاکستان میں یہ بیماری ۹۰ ہزار افراد میں پائی جاتی ہے۔ ۶ فیصد آبادی میں یہ بیماری بطور تھیلیسیمیا مائنر کے پائی جاتی ہے۔ اس سے بچاؤ کا واحد ذریعہ آگاہی ہے۔ اس کی آگاہی کے سلسلے میں ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ 
·       تھیلیسیمیا سےمتعلق آگاہی مہم میں شامل ہو ۔ اس کے لئے اپنے سوشل میڈیا ٹویٹر ، فیس بک، گوگل پلس اور تمام اپلیکیشنس کا استعمال کریں اور اس کے ٹیسٹ سے متعلق آگاہی فراہم کریں۔
·       سب سے پہلے اپنا ٹیسٹ کروائے اور پھر اپنے گھر والوں ، دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی اس سے متعلق آگاہی فراہم کریں۔
·       تھیلیسمیا کی طرف ہمارا سب سے اہم کام یا کردار خون کا عطیہ ہے۔ چونکہ سائنس اتنی ترقی کے باوجود اب تک خون کا کوئی نعم البدل نہیں مہیا کر پائی ہے اس لئے اس بیماری سے لڑنے والوں کے لئے ہم صرف اپنے خون کا عطیہ دے کر مدد کر سکتے ہیں۔ رمضان مبارک قریب ہے اور ہم اپنے  زکواۃ  کے فرض کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن خون کا عطیہ آپ کے جسم کی زکواۃ ہے جو کبھی بھی دی جاسکتی ہے۔
·       کسی بھی تھیلیسیمیا فاؤنڈیشن کے ممبر بن کر ایک بچّے کو ایڈاپٹ کر سکتے ہیں۔چونکہ ایک انسان ہر تین  ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے تو اگر آپ ۱۲دوست مل کر ایک بچّے کے خون کی ذمہّ داری قبول کر لے تو ایک سال تک اُسے خون دیا جا سکتا ہے۔ 
·       تھیلیسیمیا کے مریضوں کے والدین کی ہر ممکن معاشی اور سماجی مدد میں حصّہ لیا جائے۔ اُن کی معاشی مدد کے ساتھ اُن کے ساتھ تھوڑا وقت گزار ا جائے تاکہ وہ اپنی مشکلات سے لڑنےکے قابل ہو سکے۔
·       تھیلیسیمیا کے مریض بچّوں کی تعلیم کا خرچ  اُٹھایا جا سکتا ہے اور ساتھ اُن کے بھائی بہنوں  کا خرچ کا بھی کسی طرح انتطام کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی اُن کےلئے روزمرّہ کی اشیاء کا انتظام کیا جائے تاکہ  وہ زندگی کی نعمتوں سے محرومی کا شکار نہ ہو۔
·       تھیلیسیمیا کے بچّوں اور اُن کے والدین کے لئے تفریح اور معاشرتی ہم آہنگی کا موقع فراہم کرنا۔




ثمینہ طارق



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

تصاویر: گوگل اور فیس بُک
ریفرینسز :