صفحات

اتوار، 11 اکتوبر، 2015

جو تھام لیا تو سب پا لیا، جو چھوڑ دیا تو سب کھودیا



ثمینہ طارق  جمعرات 2 جولائ 2015



وقت کے گزرنے کی کیفیت کو ہم اپنے حالات اور واقعات اور اپنی زندگی کے پیرائے میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ فوٹو:فائل

وقت کبھی ٹہرتا نہیں، کہیں رُکتا نہیں، کسی کا انتظار وہ کرتا نہیں۔ لمحے منٹوں میں، منٹ گھنٹوں میں، گھنٹے دنوں اور دن مہینوں اور مہینے سالوں میں اس طرح  تبدیل ہوتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

وقت کے گزرنے کی کیفیت کو ہم اپنے حالات اور واقعات اور اپنی زندگی کے پیرائے میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ جب ہمیں کسی کا انتظار ہو تو وقت کاٹے نہیں کٹتا لیکن مقررہ وقت پر کام مکمل کرنا ہو تو تیزی سے نکلا چلا جاتا ہے۔ ہم اپنی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کی ذمّہ داری بھی وقت پر ڈال دیتے ہیں اور اس کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہوتے ہیں اُنہیں یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ ہماری کامیابی میں ہماری محنت، توجّہ، مستقل مزاجی اور لگن بھی شامل ہے جبکہ ناکامی میں ہماری کوتاہی، کم ہمتی اور خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہیں۔

ہر کام اپنے وقت پر اچھا لگتا ہے:
کچھ کام وقت رہتے ہی کر لئے جائے تو بہتر ہے ورنہ اُن کی اہمیت باقی نہیں رہتی جیسے کسی اپنے کی خوشی میں وقت پر شریک ہونا، یا کسی کی تکلیف میں اُس کا ساتھ دینا وغیرہ۔ ایسے خاص اوقات میں ہم اگر اپنی مصروفیت کے باعث شریک نہ ہوسکے تو یہ ہماری زندگی کی بڑی غلطی ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی اپنا روٹھ جائے یا ناراض ہوجائے تو اپنا محاسبہ کرنے میں اتنا وقت نہ صرف کردیں کہ پھر معذرت کا موقع ہی ہاتھ سے نکل جائے اور ہماری زندگی اُن پرخلوص دوستوں اور رشتوں سے خالی ہوجائے۔

وقت ہر درد کا مرہم ہے:
کوئی بھی زخم کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو وقت کا بہاؤ اسے بہالے جاتا ہے۔ لیکن کچھ زخم ایسے بھی ہوتے ہیں جو وقت کے دھارے میں بہہ کر بہل تو جاتے ہیں اور وقت کا مرہم کچھ دیر کو تو انہیں خشک کر دیتا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ اُس پر وقت کی کھڑند جم جاتی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ سخت ہوجاتی ہے۔ پھر جب اسی بے رحم وقت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہم ایسے زخموں کو کھرچنے لگتے ہیں تو  اُن سے دوبارہ لہو رسنے لگتا ہے اور وہ زخم ہمارے دل کا ناسور بن جاتے ہیں

گیا وقت کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا:
گیا وقت کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا، گزرا کل صرف یاد بن کر رہ جاتا ہے اور اگر یادیں حسیں ہو تو آنے والا ہر لمحہ روشن اورخوشگوار ہوتا ہے۔ اگر یادوں میں صرف درد ہو تو آنے والا ہر لمحہ آنسو بن جاتا ہے۔ پھر چاہے لمحہء موجود میں ہم خوشی سے ہمکنار ہی کیوں نہ ہوں۔ ماضی ہمارے حواسوں پر چھایا رہتا ہے اور جینا مشکل کر دیتا ہے۔ ہمارے پاس جو آج ہے وہ کل نہیں رہے گا یہاں تک کہ ہمارے رشتے بھی۔ زندگی کے کسی لمحے کی کوئی خبر نہیں ہم خود بھی آج ہے اور شائد کل نہ ہو۔ پیچھے جو رہتا ہے وہ یادوں کی صورت رہتا ہے۔ ہم کتنی ہی کوشش کرلیں گزرا وقت واپس نہیں آتا ہے۔

جو کچھ ہے لمحہ موجود میں پوشیدہ ہے:
وقت واقعات کا ایک تسلسل ہے جو ماضی سے حال اور پھر مستقبل کی جانب رواں رہتا ہے۔ گیا وقت کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا ہے اور آنے والا وقت کیسا ہوگا اس کی ہمیں کچھ خبر نہیں۔ اس سے صرف ربِ کریم کی ذات واقف ہے۔ ہم اپنے لئے کچھ بھی سوچ لیں، کچھ بھی منصوبہ بنالیں لیکن ہونا وہی ہے جو رب کی مرضی اور منشاء ہوگی۔ دن، مہینے اور سال یونہی گزرتے جائیں گے فقط لمحہ موجود ہی ہمارے اختیار میں ہے۔ اپنے آج کو محسوس کریں اور اس کی اہمیت سے آگاہ ہو کر ان قیمتی لمحات کو اتنا خوبصورت بنائیں کہ آنے والے کل میں وہ آپ کا حسین سہارا بنے یا آپ کے بعد آپ کے اپنوں کو سہارا دے سکے۔ یادیں ہی ہمارا قیمتی سرمایہ ہے جو کوئی ہم سے نہیں چھین سکتا ہے لیکن ان یادوں کو خوبصورت بنانے کے لئے آج کو اپنی گرفت میں لینا ضروری ہے، لمحہ موجود کو بھرپور انداز میں جینا ضروری ہے۔
جس طرح وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اسی طرح موت بھی کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ نہ جانے آنے والا کونسا لمحہ ہماری زندگی کا آخری لمحہ ہو تو کیوں نہ اس لمحے کو ہی اپنی گرفت میں رکھتے ہوئے آنے والی زندگی کے سفر کے لئے کچھ زادِ سفر حاصل کر لیا جائے اور اپنا مقصدِ حیات پا لیا جائے۔

جو کچھ ہے وہ اسی لمحہ موجود میں پوشیدہ ہے۔ جو تھام لیا تو سب کچھ پا لیا اور جو چھوڑ دیا تو سب کچھ کھودیا۔

ثمینہ طارق

میرا یہ بلاگ روزنامہ ایکسپریس میں  جمعرات ۲ جولائی ۲۰۱۵  کو مندرجہ ذیل لنک پر شائع ہوا۔ 

2 تبصرے:

  1. ماشاللہ ..بہت خوبصورت ، دعوت فکر دیتی ہوئی ایک آسان اور عام فہم تحریر . پڑھ کر دلی مسرت ہوئی -

    جواب دیںحذف کریں