صفحات

منگل، 2 جون، 2015

آگہی (افسانہ)

مئی کی چلچلاتی دھوپ میں میلوں بس کا سفر طے کرکے آنا اور پھر مسلسل گھنٹی بجانے پر کسی کا دروازہ نہ کھولنا اسے کوفت میں مبتلا کر رہا تھا۔ وہ پچھلے دس منٹ سے وقفوں وقفوں سے گھنٹی بجا رہی تھی لیکن جواب ندارد ۔ شدید گرمی کی وجہ سے اُس کے اوسان خطا ہو رہے تھے ۔آخر کار اُس نے تنگ آکر اپنا ہاتھ گھنٹی پر ہی جما دیا اور اب گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ چند ہی لمحوں میں اُسے سارہ کی آواز سُنائی دی 
"
اُف کون ہے بھئی ؟ کیوں مسلسل گھنٹی بجائے جا رہے ہیں؟ اتنی کیا جلدی پڑی ہے دروازے تک تو آنے دیں۔" باہر کھڑی سبین پر سارہ کی آواز سنتے ہی پر مزید کوفت طاری ہونے لگی۔ 
سارہ کی موجودگی ہمیشہ کسی نہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی تھی اور آج تو سبین کا کسی بھی مصیبت کو جھیلنے کا زرّہ برابر موڈ نہ تھا۔ سبین نے اسی سال ایم فل مکمل کیا تھا اور اب پی ایچ ڈی کرنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں پڑھا بھی رہی تھی۔ سارا دن یونیورسٹی میں سر کھپانے کے بعد اُس کا دل کرتا کہ جیسے ہی گھر پہنچے فوراً بستر پر جائے اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد اپنے اگلے روز کے لیکچر پر کام کرے۔ لیکن سارہ کی موجودگی ظاہر کر رہی تھی کہ اُس کی ساری  پلاننگ دھری کی دھری رہ جانے والی ہے۔ 
"
آپا میں ہوں سبین دروازہ کھولیں"۔ سبین نے نہایت اُکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
"
ارے لڑکی زرا ٹہر بھی جایا کرو تُم تو گھنٹی پر ہاتھ رکھ کر ہٹانا بھول ہی جاتی ہو۔"سارہ نے دروازہ کھولتے ہی غصّیلی آنکھوں سے سبین کو گھورا۔ 
"
احسن کہاں ہے اُس نے دروازہ کیوں نہیں کھولا؟" سبین نےٹشو پیپر سے اپنے چہرے کو صاف کرتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی کے بارے میں پوچھا۔
"
احسن باہر گیا ہے کچھ سامان لینے۔ آج شام مہمان آرہے ہیں تم جلدی سے کھانا کھا کر تیّار ہو جاؤ۔" سارہ نےسبین کے غصّے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اُسے حکم دیا
"
مہمان؟ پھر سے مہمان؟ آپا آپ جانتی ہے کچھ نہیں ہونے والا پھر یہ سب کیوں کرتی ہیں؟" سبین کی آنکھوں میں نا اُمیدی  جھلک رہی تھی۔ سارہ جانتی تھی کہ اگر سبین  کے ساتھ  زرا بھی سختی برتی تو وہ کسی صورت مہمانوں کے سامنے آنے کو تیّار نہ ہوگی اس لئے اُس نے سبین کو نرم لہجے میں کہا ۔ "تم جانتی ہو کہ امّی تمھاری وجہ سے کتنی پریشان ہے۔ پلیز اس بار ایسا کچھ نہ کرنا کہ وہ لوگ واپس چلے جائے۔ "
سبین کی والدہ رابعہ بیگم  نہایت ہی سلجھی طبعیت کی مالک تھی ۔اُن کی خوش اخلاقی کے باعث نہ صرف خاندان بلکہ محلّے کے سب لوگ بھی اُن کی بہت عزت کرتے تھے۔ شوہر کی وفات کے بعد اُنہوں نے اپنے بچّوں کو کبھی کسی قسم کی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ بچّوں کی کفالت کی ذمّہ داری اُنہوں نے اسکول میں پڑھا کر پوری کی، ساتھ ساتھ وہ ان کی بہترین دوست بھی تھی۔ بچّے کوئی بات اُن سے کرنے سے نہ گھبراتے تھے۔ سارہ نے بی اے مکمل کیا اور اُس کا رشتہ اُن کی بچپن کی سہیلی نے اپنے بیٹے کے لئے مانگا تو وہ انکار نہ کر سکی کیونکہ لڑکا پڑھا لکھا ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین اخلاق کا مالک بھی تھا اور آج وہ اپنے فیصلے پر پوری طرح مطمئن تھی کیونکہ عادل نے داماد ہونے سے زیادہ ایک بیٹا ہونے کا فرض نبھایا اور ہر اچھے بُرے وقت میں اُن کے لئے ڈھال بن کر کھڑا رہا۔ رابعہ بیگم کو اب صرف سبین کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ 
سبین گندمی رنگ کی ایک کومل سی لڑکی تھی۔ وہ بہت خوبصورت تو نہ تھی مگر اُس کے نین نقش ایسے تھے کہ جو ایک بار دیکھ لے اُس کی نظر بے اختیار اُس کی جانب دوبارہ اُٹھتی تھی۔ سبین کے سیاہ بال اور سیاہ آنکھیں اُسے جازبیت بخشتے تھے۔ جب سے سبین نے بی ایس مکمل کیا تھا تب سے ہی اُس کے رشتے آرہے تھے اور اُن میں کئیں ایک بہت بھلے بھی تھے اور سبین کو پسند بھی آئے۔ لیکن سبین نے بھی ایک ایسی ضد پکڑی ہوئی تھی جو کہ اُس کی شادی میں رکاوٹ کا باعث بن رہی تھی اور یہی بات رابعہ بیگم کو پریشان کئے ہوئے تھی۔ وہ جانتی تھی کہ سبین کی ضد بے جا نہیں ہے ۔ وہ ایک باشعور انسان کی طرح فیصلہ کر رہی ہیں مگر ہر کوئی اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھا۔
سبین فارغ ہو کر کچن میں چلی آئی جہا ں سارہ مہینے بھر کے راشن کو آج کی تاریخ میں ختم کرنے کے موڈ میں نظر آرہی تھی۔ سبین یہ سب دیکھ کر مذید اُلجھن کا شکار ہوگئی وہ اپنے آپ کو ان تمام اخراجات کا ذمّہ دار ٹہرا رہی تھی جس کے بعد کچھ حاصل ہونے کی اُسے قطعئ اُمید نہ تھی۔ "آپا یہ کیا ہے؟ ایسے کونسے خاص لوگ آرہے ہیں جو آپ نے اتنا سب بنا لیا ہے اور پھر احسن کو بھیج کر جو منگوایا ہے وہ کس کھاتے میں ہیں؟ سبین کے لہجے میں پنہاں دُکھ کو سارہ بخوبی محسوس کر چکی تھی مگر اُس کا دھیان بٹانے کےلئے بڑے شگفتہ لہجے میں کہا!
"
آخر کو تمھیں دیکھنے لوگ آرہے ہیں اور وہ بھی کوئی عام لوگ نہیں ہے شہر کے معززین میں شمار ہوتا ہے اُن کا ۔ مسز ارشاد اپنے بیٹے فرحان کے لئے تمھارا رشتہ لے کر آرہی ہے اور تم انہیں اور اُن کی فیملی کو بخوبی جانتی ہو کہ کس قدر رکھ رکھاؤ والے لوگ ہیں۔ میری تو فقط یہ کوشش ہیں کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے اُن کی خاطر داری میں" مسلسل بات کرتےہوئے بھی سارہ کے ہاتھ سموسے تلنے میں مصروف تھے۔ سبین سوچنے لگی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے لوگ بھی ہمیشہ کی طرح واپس چلے جائے اور وہ اپنے جی جان سے بڑھ کر پیار کرنے والوں کو ایک بار پھر دُکھ کے اندھیر ے غارمیں دھکیل دے۔
آخر کار وہ وقت بھی آ ہی گیا جب مسز ارشاد اپنی گاڑی میں سے اُتر کر اپنی بیٹی انعم اور بیٹے فرحان کے ساتھ اُن کے گھر میں داخل ہوئی۔ سبین نے کھڑکی کی اوٹ سے سب کو گھر میں آتے دیکھا تو اُسے فرحان ایک قبول صورت نوجوان دکھائی دیا۔ سارہ اسے پہلے ہی بتا چکی تھی کہ فرحان نے اُسے پچھلےہفتے اُس کی دوست مریم کی شادی پر دیکھا تھا اور اُسی وقت  اپنی امّی سے سبین کے لئے پسندیدگی کا اظہار کر چکا تھا۔ فرحان کے والد مریم کے والد کے بہترین دوستوں میں سے ہیں اسی لئے مریم کی والدہ نے امّی سے اُن کے آنے کی اجازت لی تھی۔ فرحان نے فائننانس میں ایم بی اے کیا ہوا ہے اور وہ سائنس سے بلکل بھی دلچسپی نہیں رکھتا ہے اس لئے اُس سے سائنسی باتوں کا تزکرہ کرکے اپنے لئے مصیبت نہ مول لیں۔ مگر سبین اسی سوچ میں غلطاں تھی کہ اب وہ کیا کرے؟ فرحان اگر اس بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتا ہے تو یقیناً وہ بھی اور تمام لوگوں کی طرح اُسے بیمار ٹہرا کر اس رشتہ کو ٹھکرا کر چلا جائے گا۔
وہ آگہی کا عذاب جھیل رہی تھی خاموش رہنے سے بھی دکھ ہاتھ آنا تھا اور کہہ دینے سے بھی ۔ وہ ایک عجیب سی کشمکش کا شکار تھی۔
جب بی ایس کے فائنل ائیر میں تھی تب ایک پریکٹیکل کے دوران اُن کے تھیلیسیمیا کے کچھ ٹیسٹ لئے گئے تھے۔ اس ٹیسٹ میں سبین کی رپورٹ مثبت آئی تھی اور اُس پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ تھیلیسیمیا مائنر ہے۔ اب اسے کسی ایسے ہی شخص سے شادی کرنا تھی جس میں تھیلیسیمیا موجود نہ ہو تاکہ ان کی اولاد اس سے محفوظ رہ سکے۔ سبین اس وجہ سے کئی رشتے یا تو خود ٹھکڑا چکی تھی کیونکہ لڑکے والے لڑکے کا خون کا ٹیسٹ کروانے پر راضی نہ ہوتے تھے اور کبھی یہ جان کر انکاری ہو جاتے تھے کہ وہ تھیلیسیمیا مائنر ہے۔ وہ اسے بہت خطرناک بیماری سمجھتے تھے۔ 
سبین کو ایک بار پھر چائے کی ٹرے لے کر سب کے سامنے آنا پرا جو اُسے کبھی بھی نہ بھایا تھا مگر مجبوراً یہ سب کرنا پرتا تھا۔ مسز ارشاد نے سبین کو اپنے پاس ہی بٹھا لیا اور اُس سے پڑھائی کے متعلق پوچھنے لگی اس وقت سارہ کی جان پر بنی ہوئی تھی اور اس کی یہ حالت تھی کہ کاٹو تو خون نہ نکلے۔ وہ خوفزدہ تھی کہ سبین سب کچھ نہ کہہ دے۔ لیکن سبین آج خلافِ معمول خاموش رہی اور صر ف وہی کچھ بتایا جو اُنہوں نے پوچھا۔ فرحان ایسے تو عادل سے باتوں اور ان کے بچوں کے ساتھ شرارتوں میں مشغول تھے لیکن گاہے بگاہے نظر اُٹھا کر سبین کو دیکھتے رہتے تھے جیسے اُس کا ہر انداز نوٹ کر رہے ہو اور سبین کو یہ دیکھ کر الجھن ہور ہی تھی۔ آخر وہ اجازت لے کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔تھوری دیر بعد سب چلے گئے۔ 
سبین اپنے کمرے میں بند ہو گئی اور کسی نے اُسے پکارا بھی نہیں کہ تھک گئی ہے آرام کرنے دیں۔ سارہ نے بھی جاتے ہوئے اُسے پریشان کرنا مناسب نہ خیال کیا۔ سبین کے زہن میں ایک شور بپا تھا جو اُسے سکون نہ لینے دے رہا تھا۔ اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس شور سے اُس کے دماغ کی نسیں پھٹ جائے گی۔ وہ کوشش کر رہی تھی کہ اس سے نجات حاصل کرے مگراس پر قابو پانا اُس کے لئے دشوار ہو رہا تھا۔ اس کی حالت غیر ہونے لگی اور اُس نے اپنے کانوں کو زور سے داب لیا۔ اب ایک ہی راستہ تھا کہ وہ عادل سے مدد مانگے۔
"
عادل بھائی میں بہت تکلیف میں ہوں ۔بہت شور ہے میرے اندر جس پر قابو پانا میرے اختیار میں نہیں۔" سبین نے عادل کا نمبر ملایا اور روہانسی ہوکر اُس سے اپنی کیفیت بیان کر دی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ صرف وہی ہے جو سمجھ پائے گے۔
"
آگہی کا در کُھل جائے تو اپنے اندر شور تو ہوتا ہی ہے۔ خود کو اس شور میں ڈبو دو لیکن آگہی کا در کھلا رہنے دو۔ اسے بند نہ ہونے دینے ورنہ عذاب کے کئی ایسے در کھلےگے جن پر قابو پانا ناممکن ہو جائے گا۔" عادل کی بات سن کر سبین پُر سکون ہو گئی۔
"
جی یہ در کھلا ہے تو اب ایسے بند نہیں ہوگا۔ جسے داخل ہونا ہے اسی در سے ہونا ہے اور کوئی راستہ نہیں کسی کے لئے میری زندگی میں داخل ہونے کا۔" سبین کے چہرے پر اطمینان اور ہونٹوں پر بھر پور مسکراہٹ تھی۔
تھوری دیر بعد سبین اپنے سیل فون پر فرحان کا نمبر ملا رہی تھی جو عادل نے اُسے دیا تھا۔ 
"
میں نے آپ کو سب کچھ بتا دیا ہے اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔" سبین نے فرحان کوسب کچھ بتانے کے بعد کہا اور ایک جھٹکے سے فون بند ہونے کی آواز سنائی دی جسے سن کر سبین سُن ہوگئی۔ فرحان کےاس رویےکے بعداب اُسے کہیں بھی اُمید کا کوئی چراغ جلتا نظر نہیں آرہا تھا۔
اس واقعے کو گزرے پندرہ روز ہو چکے تھے اور سبین ہمیشہ کی طرح اسے بھولنے کی ناکام کوشش جاری رکھے ہوئے تھی۔ نہ ہی سارہ اور امّی نے اُس سے اس سلسلے میں کوئی بات کی تھی۔ آج یونیورسٹی سے آکر اُس نے احسن سے کہہ دیا تھا کہ جب تک وہ خود نہ اُٹھے اُسے اُٹھایا نہ جائے کیونکہ مسلسل کلاسس لے کر وہ بہت تھکی ہوئی تھی۔ وہ نہ جانے کب تک سوتی رہی کہ اُس کی آنکھ موبائل کی گھنٹی بجنے پر کھُلی اور اُس نے نمبر دیکھے بنا ہی نیند میں ہیلو کہا۔ 
"
محترمہ آپ نے جاگنا ہے یا ہم آپ کو انگوٹھی پہنائے بغیر ہی واپس چلے جائے؟" فرحان کی چہکتی ہوئی آواز سُن کر وہ پوری طرح سے ہوش و حواس میں آگئ ۔
"
انگوٹھی! کیسی انگوٹھی؟" حیرانی میں اس کے منہ سے صرف یہی نکلا اور اتنے میں اسے آپا کی آواز سنائی دی وہ غصّے سےکہہ رہی تھی "کیا اُٹھتے برابر فون لے کر بیٹھی ہو جلدی سے تیار ہو جاؤ مسز ارشاد آئی ہے ہم نے تمھاری بات پکّی کر دی ہے اور وہ بضد ہے کہ آج ہی انگوٹھی پہنائے گی۔ خوب اچھے سے تیار ہونا میں زرا کچن دیکھ لوں۔اب سبین کے ہوش ٹھکانے آچکے تھے، وہ تیار تو ہو رہی تھی لیکن ایک خوف اب بھی اُس کے ساتھ تھا کہ نہ جانے فرحان نے ٹیسٹ کروایا بھی ہے یا نہیں۔ ۔
جیسے ہی وہ بیٹھک میں داخل ہوئی اُس کی نظر فرحان کی جانب اُٹھی اور دونوں کی نظر ٹکڑا ئی تو سبین نے جاننے کی کوشش کی کہ اُس نے ٹیسٹ کروائے ہیں یا نہیں لیکن فرحان نے فوراً نظر پھیڑ لی۔ تھوڑی دیر میں منگنی کی رسم ادا کر دی گئی اور سبین کی انگلی میں انگوٹھی پہنانے کے ساتھ ہی فرحان نے ایک لفافہ بھی تھما دیا  اور مسکراتے ہوئے کہا " نیگیٹو" اب سبین کے چہرے پر بھی وہی دلکش مسکراہٹ تھی۔
ثمینہ طارق

نوٹ:
یہ افسانہ فیس بک کے گروپ " افسانہ فورم " پر پوسٹ کیا گیا تھا اور اب اساتزہ کی ہدایت کی روشنی میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اس بلاگ پر پوسٹ کیا جا رہا ہے۔  فیس بک کے گروپ کا لنک ذیل میں درج ہے۔
آگہی

تھیلیسیمیاکے بارے میں اگر آپ نہیں جانتے ہیں تو گوگل پر سرچ کیجئے یا اس بلاگ کو وزٹ کرتے رہئے۔  کچھ روز میں اس بلاگ پر بھی ایک پوسٹ تھیلیسمیاسے متعلق لگائی جائے گی۔

تھیلیسیمیا پر لکھا گیا بلاگ مندرجہ ذیل لنک پر دیکھئے۔
تھیلیسیمیا



جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں