صفحات

منگل، 19 مئی، 2015

دارالسکون

دارالسکون سے مراد ایک ایسا گھر ہے جس میں ہم سکون کی زندگی بسر کر سکتے ہیں اور یقیناً وہ گھر سب اپنوں سے مل کر ہی بنتا ہے جیسے والدین اور  بچّے اور پھر اُن کے بچّے یا پوتے پوتیاں  ،نواسے  نواسیاں وغیرہ۔ ایسا گھر جس میں تمام لوگ مل جل کر رہے اور ایک دوسرے کے ہر دکھ درد ، تکلیف اور مصیبتوں میں اُسی طرح شریک ہو جیسے وہ اک دوسرے کی خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ ایسا گھر جہاں ہر فرد اپنی اجتماعی زندگی کو نبھاتے ہوئے بھی انفرادی طور پر آزاد اور خود مختار ہو۔ اپنے وقت سونا ، جاگنا، کھانا پینا اور کام کاج کرنے میں  خود مختار ہو۔ ایسا نہیں کہ ایک گھر میں ایک  ساتھ رہتے ہوئے لوگ اپنی زندگیوں میں آزاد اور خود مختار نہیں رہ سکتے ۔ اگر تو گھر کے تمام افراد مل کر ایک دوسرے کی مشاورت سے فیصلے کرے اور تمام کاموں کے اوقات مقرر کریں تو یہ ممکن بھی ہے اور باآسانی ایسی زندگی گزاری جا سکتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے آج کے دور میں ہماری تمام تر توجّہ اپنے آپ پر رہتی ہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے والدین یا دادا  دادی جو اب بوڑھے ہو چکے ہیں وہ بھی ہمارے اوقاتِ کار کے مطابق وقت گزارے اور اپنے آپ کو ہمارے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ ایسے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اُن کی قوتِ برداشت اب پہلے جیسی نہیں رہی ہیں اور وہ ہمارے وقت کے مطابق ہماری طرح زندگی نہیں گزار سکتے ہیں۔

جب ہمارے والدین بوڑھے ہو جاتےہیں تو بلکل ویسے ہی ہو جاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں ہوا کرتے تھے۔ جب بھوک لگے کھانا مانگنے لگے، جب جی چاہا سو جائے، جب دل کیا تفریح کی اور جب دل کیا باہر جانے کی ضد کی۔ جب بچّے ایسی ضدیں کرتے ہیں تو والدین اپنی تمام تر مصروفیات کو درگزر کر کے اپنے بچّوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ بّچّے کی دنیا میں آمد تک اُن کی جو بھی مصروفیات ہوتی ہیں اُسے نظر انداز کر کے اپنا سار ا وقت بچّوں کے لئے وقف کرتے ہیں۔ جب بچّہ آدھی رات کو بھوک سے رونا شروع کرتا ہے تو ماں اپنی نیند کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی اس  کاپیٹ بھرنے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ رات میں نہ جانے کتنی بار ماں اور باپ دونوں اُٹھ کر اپنے بچّے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں ۔اکثر اوقات ماں کو اپنے بچّے کی پرورش کےلئے اپنے  کیرئیر کو بھی خیرباد کہنا پرتا ہے اور وہ پھر بھی خوش ہوتی ہیں کہ اُس کے بچّے کی پرورش بہتر طور ہو رہی ہے۔جب بچّہ بیمار ہو تو والدین اُس کی تندرستی اور صحت کے لئے اپنے دن رات ایک کر دیتے ہیں وہ نہیں سوچتے کے اتنی رات تک کیوں جاگوں صبح آفس بھی جانا ہے۔ جب بچّے سیر کو جانے کی ضد کرتے ہیں تو والدین نہیں سوچتے کہ ایک دن تو چھٹی کا ملا ہے کیوں نہ آرام کروں یا اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزاروں بلکہ وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچّوں کے ساتھ چھٹی کا دن گزارے اور اس سے بڑھ کر اُن کے لئے کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ لیکن  جب یہی والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں جنہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق دنیا کی تمام تر نعمتوں سے مالا مال کیا  ، اچھی تعلیم  دلائی جس کی وجہ سے آج بچّہ ایک اعلیٰ مقام پر فائز ہے اور اتنا مصروف ہے کہ اُسے اب یہ دیکھنے کا وقت ہی نہیں ہے کہ والدین کس حال  میں ہیں۔   اُسے اپنے دوستوں میں وقت گزارنا زیادہ اچھا لگتا ہے، اپنی مرضی سے اپنے وقت پر کھانا  اور سونا اچھا لگتا ہے یہ خیال نہیں آتا کہ کم از کم دن میں ایک وقت رات کا کھانا ہی ساتھ بیٹھ کر کھا لیا جائے والدین کی مرضی سے اُن کے سونے سے پہلے گھر آیا جائے تاکہ کچھ دیر اُن کے ساتھ وقت گزارا جائے اور کبھی کسی چھٹی کے دن اُنھیں بھی ساتھ لے کر جایا جائے۔

اکثر والدین کبھی شکایت نہیں کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بچّوں اور اُن کے بچّوں کےوقت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ لیکن اگر تو کوئی کبھی شکایت کر بیٹھے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ والدین اُن کی ترقّی کی  راہ میں رکاوٹ بنےرہے ہیں اور اُنھیں آزادی میسر نہیں ہیں۔  ایسے وقت میں وہی والدین جو اُن کا بوجھ کاندھوں پر اُٹھا کر گھومتے رہے تھے  بچّوں کو بوجھ لگنے لگتے ہیں اور وہ اُنھیں دارالسکون میں چھوڑ آتے ہیں۔دارالسکون سے مراد ایسا گھر جہاں سکوں میسر آئے  تو وہ والدین جنھوں نے اپنی ساری حیات اپنے بچّوں کے لئے تیاگ دی وہ اب اُن پر بوجھ ہے اس لئے غیروں کے حوالے کر دئے جاتے ہیں۔ کچھ کو پاگل یا نفسیاتی مریض قرار دے دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنا حق نہ ملنے پر بچّوں کی طرح لڑنے اور جھگڑنے لگتے ہیں یا پھر رونے لگتے ہیں۔ وہ نفسیاتی مریض نہیں ہوتے ہیں لیکن جب اُنھیں اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ ضرور نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔

پہلے تو مشرق میں دارالسکون کے نام سے کوئی واقف نہ تھا لیکن اب ہر ملک اور شہر میں ایسے گھر آباد ہو چکے ہیں جن میں  لوگ اپنے والدین اور دادا دادی کو چھوڑ جاتے ہیں ۔ پچھلے دنوں  ایک گروپ کے ساتھ ایسے ہی دارالسکون میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پر بہت سے لوگوں سے مل بیٹھ کر باتیں کرنے کا موقع ملا۔ ہر فرد کی اپنی ایک الگ کہانی تھی جو کچھ اُن کی زبان سے ادا ہوئی تو کچھ آنکھوں اور آنسوؤں سے۔ اتنا سارا درد دل میں لئے بھی یہ لوگ ایک دوسرے کے لئے جان چھڑکتے ہوئے نظر آئے کیونکہ اب ان کے رشتے دار بھی یہ ہی لوگ ہیں اور دوست اور دکھ درد کے ساتھی بھی۔ہم جیسے لوگوں کو دیکھ کر سب کے چہرے کھل جاتے ہیں اور بعض لوگ تو کہہ بیٹھتے ہیں کہ آپ لوگ آجایا کرے ہمارے گھر سے تو کوئی نہیں آتا ہے۔ بہت سی این جی اوز اور نوجوانوں کے ٹولے یہاں آتے ہیں اور تمام تہوار منائے جاتے ہیں چاہے وہ ایسٹر ہو، ہولی ہو یا عید ہو۔ ویلنٹائن ڈے ہو یا مدرز ڈے ہو۔ مختلف لوگ آکر مختلف قسم کی ایکٹیویٹیز کا انتظام کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کو اکیلے پن سےنجات دلائی جا سکے۔

میرا اس ادارے میں پچھلے دو ماہ میں تین مرتبہ جانا ہوا اور تینوں مرتبہ ہم نے مختلف سرگرمیاں منعقد کی ۔ جن میں وہاں موجود لوگوں کی سالگرہ منانا، لافنگ تھیراپی، آرٹ اینڈ کرافٹ ایکٹیویٹی اور مدرز ڈے وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں میں تقریباً تمام لوگوں نےبڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور بہت خوش ہوئے۔سینئر سیٹیزنز یعنی بوڑھے افراد کو بھی زندگی کو بھر پور طریقے سے جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہم لوگوں کو لیکن فرق صرف یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی  زندگی میں یہ خوشیاں خود سے لانے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں ۔ وہ عمر کے ساتھ اپنی خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں اور کچھ بھی کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اُنھیں ہر قدم پر ہماری اُسی طرح ضرورت ہوتی ہے جیسے بچپن میں ہمیں اُن کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ ہم سے کچھ نہیں مانگتے ہیں صرف تھورا سا وقت درکار ہوتا ہے اُنھیں خوش رہنے کے لئے اور محبت کے دو بول۔

کیا آپ کے گھر میں آپ کے والدین آپ کے ساتھ رہتے ہیں ؟ کیا آپ اُنھیں اپنا وقت دیتے ہیں؟  کیا آپ کبھی ایسے ادارے میں گئے ہیں ؟ اگر نہیں تو جائے اور سب سے پہلے اپنے والدین کو وہ وقت دیجئے جو آپ پر اُن کا قرض ہے  اور اگر ممکن ہو تو ایسے اداروں میں وقت گزار کر لوگوں کے چہروں پر کھلی مسکراہٹوں کو سمیٹ لیجئے کیونکہ آپ کے بڑھاپے میں یہی قیمتی لمحات آپ کا سرمایہ حیات بنے گے۔ اس دنیا میں اگر سب سے قیمتی تحفّہ ہم کسی کو دینا چاہتےہیں تو وہ ہمارا   وقت اور علم ہے جس کے ذریعے ہم  لوگوں کی زندگی میں بہتری اور مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں ۔ اپنے وقت کا صحیح استعمال کیجئے اور اپنے علم سے لوگوں میں وقت اور علم کی اہمیت کو اُجاگر کیجئے۔
 ثمینہ طارق


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں