صفحات

جمعرات، 22 ستمبر، 2016

لمس ( افسانہ )

 آج پھر اُس کے رُخسار بھیگے ہوئے تھے اور یہ آج پہلی بار نہیں ہوا تھا بلکہ پچھلے بیس برسوں سے وہ اسی کیفیت سے دوچار تھی۔ رات نیند میں نہ جانے کب وہ روتی رہتی اور صبح آنکھ کھُلتے ہی اُسے اپنا چہرہ بھیگا محسوس ہوتا۔ ایسا اُس وقت ہوتا جب وہ اسے شدّت سے یاد آتا کیونکہ اُس کی یاد پر اسے اختیار نہ تھا۔ کبھی بھی کسی وقت بھی یاد آنے لگتا تھا، اُٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے، کبھی کسی تقریب میں تو کبھی کسی محفل میں اُس کی آنکھیں اُسے دیکھنے کو بے چین رہتی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اُس سے اتنا دور چلا گیا ہےکہ اس طرح اپنے شہر کی محفلوں میں اُسے تلاشنا بے وقوفی ہے لیکن پھر بھی اُسے اپنے آپ پر اختیا ر نہ رہا تھا۔خاص کر کے خاندان میں ہونے والی ہر تقریب میں اُس کی آنکھیں اُسے تلاشتی رہتی تھی۔لیکن اُسے نہ ملنا تھا اور وہ نہ ملا، بیس برس بیت چکے تھے اب تو راحت کی آنکھوں کے سوتے روتے روتے خشک ہونے لگے تھے۔ 
 وہ بڑی بہادُری سے لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو بہت خوش باش ظاہر کرتی لیکن اُس کی اس بہادُری کا زور اُس کی نیند پر نہ چلتا۔ جو کچھ وہ دن میں سب کے سامنے نہ کر سکتی تھی لاشعوری طور پر نیند میں کر جاتی۔ مسلسل اُس کی آنکھیں برستی رہتی اور جب صبح وہ سو کر اُٹھتی تو اُس کے رخسار بھیگے ہوتے تھے اور آنکھیں سوجی ہوتی ۔ پہلے پہل محسن اُسے نیند کی حالت میں روتے دیکھ کر بہت پریشان ہوا لیکن پھر جیسے اُسے بھی عادت سی ہوگئی۔ شائد وہ راحت کو اس حال میں دیکھ کر مطمئن تھا کہ وہ اکیلا ہی اُس کی جدائی کے کرب سے نہیں گزر رہا ہے راحت اس میں اُس کے ساتھ ہے۔ دونوں کا درد سانجھا ہے لیکن فرق ہے تو یہ کہ راحت اپنے آنسوؤں کے ذریعے اس درد کا اظہار کر پاتی ہے اور وہ تو یہ بھی نہیں کر پاتا ۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو ان سب واقعات کا مجرم گردانتا تھا اور کسی حد تک وہ تھا بھی۔ 
 جب بھی وہ اس کرب کی کیفیت سے جاگتی تو اُسے سارا منظر اپنے سامنے گھومتا نظر آتا تھا۔ وہ بہت خوشحال زندگی گزار رہی تھی ۔ اُس کے دونوں بیٹے حیدر اور نوید ماشااللہ کافی بڑے ہوچکے تھےکہ خدانے ایک بار پھر اُسے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ رات کے
 دو بج چکے تھے اور وہ دردِ زہ سے ترپتی ہوئی اپنی ساس کے دروازے پر اُنھیں جگانے کے لئے دستک دے رہی تھی۔ اُس کی ساس نے دروازہ کھول کر پانچ منٹ میں آنے کا کہا اور راحت کو گاڑی میں بیٹھنے کی ہدایت کر کے کپڑے بدلنے چلی گئی۔ راحت نے کوشش کی مگر اُس سے ایک قدم بھی نہ اُٹھایا جا رہا ہوئے تھا ۔ اُس نے دروازے کا سہارا لیتے ہوئے کچھ وقت آرام کرنے کا سوچا اور جیسے یہ لمحہ اُس کےلئے قیامت کا سماء بن گیا۔اندر سے آتی ہوئی آواز نےاُس کے اوسان خطا کر دیے۔اُ سں نے امّی کو احسن سے فون پر کہتے سناکہ "احسن ہم ہسپتال جا رہے ہیں تم بھی آجاؤ اُسے ہسپتال سے ہی لےجانا۔" 
یہ الفاظ بم کی طرح راحت کی سماعت سے ٹکرائے اور وہ ہزیانی ہو کر چیخ اُٹھی " میں اپنا بچّہ کسی کو نہیں دوں گی۔" راحت کی چیخیں سن کر بچّے بھی آگئے اور راحت سے لپٹ گئے۔ محسن بھی گاڑی چھوڑ کر آگئے اور پوری کوشش کر نے لگے کہ راحت کو سنبھالے لیکن وہ چیختےہوئے بے ہوش ہو چکی تھی۔ 
 آنکھ کھُلتے ہی راحت نے اپنے آپ کو ہسپتال کے بستر پر پایا اور بے اختیار اُس کا ہاتھ اپنے شکم پر جا ٹہرا۔ یہ جان کر اُسے اطمینان ہوا کہ اس کا بچّہ ابھی اُس کے اندر موجود ہے۔لیکن پھر مایوسی چھا گئی یہ سوچ کر کہ کب تک وہ اس وجود کو اپنے اندر محفوظ رکھ پائے گی ؟ آخر کار اُسے اس دنیا میں آنا ہی ہے اور پھر کیا ہوگا؟ اُسے فوراً ہی اُس کی گود سے جدا کر دیا جائے گا ۔
 راحت کو لمحوں کا وہ لمس نہ بھوُلتا تھا جب اُس نےاس ننھی سی جان کو اپنی چھاتی سے لگایا تھا۔ اُس نے اس قدر مضبوطی سے اُسے تھام کر اپنےسینے سے بھینچا تھا کہ نرس بھی کہہ اُٹھی تھی کہ "کیا یہ آپ کا پہلا بچّہ ہے؟" اور وہ نرس کی طرف دیکھتی چلی گئی جیسے پوچھ رہی ہو کہ "کیا صرف پہلا بچّہ پیارا ہوتا ہے؟"
 "نہیں یہ میرا تیسرا بیٹا ہے۔" راحت نے اپنی آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو چھپانے کی ناکا م کوشش کی تھی۔
"اوہ آپ کی بیقراری دیکھ کر لگا جیسے یہ پہلا بچّہ ہے۔" نرس کی مسکراہٹ بھی اس لمحے راحت کو دُکھ دے رہی تھی۔ 
 لیبر روم میں ہی نرس بچّے کو اُس کے پاس لٹا کر گئ تھی کہ اُسے فید کروا لیں ۔ کیونکہ ماں کا پہلا دودھ بچّے کے لئےبیماریوں کے خلاف ایک مضبوط ڈھال ثابت ہوتا ہے۔ راحت نے اس ننھی سی جان کو اپنے سینے سے ایسےلگایا کہ کوئی اُس سے چھین نہ لے اور اُس کی آنکھ لگ گئی۔
 آنکھ کھُلتے ہی اُس نے خود کو وارڈ میں پایا مگر بچّہ اسے کہیں نظر نہ آیا جس پر اُس کے آنسو بے اختیار اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے اور اب ہر رات ان کا بہنا معمول بن چکا تھا۔ احسن اور شازیہ اس بچّے کو لے کر اُسی وقت اسلام آباد چلے گئے ۔وہ ترپتی رہی روتی رہی لیکن گھر میں سب صرف دلاسا دیتے رہے کہ تم نےنیک کام کیا ہے ۔ وہ بے اولاد ہے اور پھر سوچو وہ کوئی باہر کا بچّہ لے آتے تو ہم اُسے کیسے قبول کرتے۔ شازیہ کی گود بھرنے کے لئے راحت کی گود اُجاڑ دی گئی۔ وہ ترپتی ،سسکتی رہی لیکن کسی کو رحم نہ آیا۔ اس بات کو اب بیس برس گزر چکے تھے۔ احسن اور شازیہ جیسے پہلے سے انتظام کئے بیٹھے تھے کہ دو مہینوں میں ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے اور یہ خبر ایک عذاب کی صورت راحت پر نازل ہوئی۔ ایک شہر میں نہ سہی ایک ملک میں بھی ہوتے تو ملنے کے امکانات تو تھے ۔ کبھی کسی خاندانی شادی یا محفل میں وہ اپنی اولاد کو شازیہ کے ہاتھ میں سہی دیکھ تو لیتی لیکن اب تو کوئی اُمید باقی نہ رہی تھی۔ اب صرف یادیں تھی اور جب کبھی وہ بے اختیار یاد آتا راحت کےآنسو بہہ نکلتے جو روکے نہ رُکتے۔
 آج پھر ایک ایسی ہی صبح تھی اور راحت اپنا بھیگا چہرہ صاف کرتے ہوئے بستر سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ تھوڑی ہی دیر میں اُسے بچّے کے رونے کی آواز سُنائی دی اور وہ حیدر کے کمرے کے دروازے پر دستک دیتی ہوئی اندر داخل ہوئی اور زین کو اپنی گود میں لے کر بے قراری سے چوم لیا جسے پچھلے ایک ہفتے سے وہ اپنی گود میں لینے سے صرف اس لئے کترا رہی تھی کہ کہیں اُس کا لمس اس کے درد پھر سے نہ جگا دے ۔ زین اُس ننھی سی جان کا نعم البدل تو نہ ہو سکتا تھا جسے راحت نے اپنی کوکھ میں پال کر جنم دینے کی تکلیف سہہ کر پایا تھا اور کچھ لمحوں میں ہی کھو دیا تھا مگر پھر بھی یہ لمس آج اُس کے اندر اُمید کا ایک نیا دیا روشن کر گیا اور وہ اپنے وجود کے اُس حصّے کی خوشیوں کے لئے پھر سے سجدہ ریز ہوگئی جسے بچھڑے ۲۰ برس بیت چکے تھے۔
 ثمینہ طارق