صفحات

جمعرات، 1 جنوری، 2015

ایمان اور یقین کا سفر

الوداع ۲۰۱۴ ، خوش آمدید ۲۰۱۵

نیا سال مبارک

اپنے اندر کی خاموشی میں جھانکنے کی کوشش کریں اور جانئے کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ آج ۲۰۱۴ کا سال اختتام پزیر ہوا اور ۲۰۱۵ کی ابتداء ہو چکی ہے۔ ہمارے اطراف بہت سے ایسے لوگ ہیں جو نئے سال کی خوشی کو منانے سے انکاری ہے۔  مذہبی اور شرعی اجازت سے ہٹ کر اگر تو دیکھے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس سال پوری دنیا میں بہت سے تکلیف دہ واقعات وقوع پزیر ہوئے اور خاص کر کے پاکستان میں بہت سی جانوں کا نقصان ہوا۔ دسمبر کا مہینہ ویسے ہی بہت سی اُداسیاں لئے ہوئے ہوتا ہے اور پھر اس سال پشاور میں رونما ہونے والے حادثے نے نہ صرف تمام  پاکستانیوں کو بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو رنجیدہ کر دیا ۔معصوم جانوں کا نقصان بھلائے نہیں بھولتا ہے اور خوشی کی کوئی بات ہو تو دھیان اُن معصوموں کی جانب مُڑ جاتا ہیں جن کی زندگی میں نیا سال اب کبھی نہیں آئے گا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی میں تمام رونما ہونے والے واقعات خوشی سے تعلق نہیں رکھتے ہیں بہت سے درد اور دُکھ ہماری  انفرادی یا اجتماعی زندگیوں کا  حصّہ بنتے ہیں ۔ہم زندگی میں اپنے بہت ہی اپنوں کو کھو بیٹھتے ہیں جن میں والدین یا اولاد کا دُکھ تمام دکھوں سے بڑھ کر ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت ہر زخم کا مرہم ہے اور ہر آنے والا نیا دن نئی اُمید اور سہارا لے کر طلوع ہوتاہے ۔ رات کبھی مسلسل نہیں رہتی سحر کا اُجالا رات کے اندھیرے کو چیر کر ہر صورت جگمگائے گا۔ پھر کیوں اس اندھیرے میں ڈوب کر خود کو کھو دیں۔ کیوں نہ اس اندھیرے میں اُمید اور یقین کے دئے جلائے جائے جن کی روشنی میں ہمیں اپنی منزلوں کا تعین کرنے  میں مدد ملے۔

کوئی بھی واقع یا حادثہ ہمارے  اندر ایک خاموشی پھیلا دیتا ہے جس کے باعث ہم باہر کے شور سے گھبرا کر اپنی آنکھیں بند کرنا چاہتے ہیں لیکن انکھیں بند کرنے سے حادثے ٹلتے نہیں ہیں ۔ کوئی بھی حادثہ یا واقع ہمارے لئے ایک سبق لئے ہوئے ہوتا ہے۔ ہمیں اس سے اپنی آئندہ زندگی کے راستے کا تعین کرنے میں مدد لینی چاہئے۔ ہمارا یمان اس بات پر ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ صرف اللہ تبارک و تعالٰی کی مرضی یا منشہ سے ہوتا ہے ۔ انسان کی کیا حیثیت وہ  تو ایک سانس بھی اپنی مرضی سے نہیں لے سکتا ہے۔  پس اس بات پر یقین رکھئے کہ جو کچھ ہوتا ہے اُس کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے یہاں تک کہ ہم اگر تو کوئی غلطی بھی کرتے ہیں تووہ بھی ہمارے لئےایک نعمت ہے کیونکہ اس میں ہمارےسیکھنے کے لئے کوئی نہ کوئی سبق ضرور ہوتا ہے۔ ہماری عقل چاہے اس بات کو قبول کرنے پر راضی نہ ہو لیکن دل اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ صرف ایمان کی دولت کے ساتھ جینا ہی زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اپنے یقین کو کبھی بھی متزلزل نہ ہونے دیں اور اپنے رب سے اچھائی کی اُمید رکھتے ہوئے اپنے سفر کو جاری رکھے۔

زندگی میں دُکھ درد کے ساتھ ہمیں رب نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے جنھیں ہم اپنے دُکھ درد کے راگ الاپنے میں اکثر و بیشتر فراموش کر بیٹھتے ہیں ۔ ہمیں چاہے کہ اپنے اردگرد بکھری خوشیوں کو تلاش کریں جو ہمیں اس وقت تو بہت معمولی لگتی ہیں لیکن یقین اور ایمان کی دولت سے منوّر ہو کر ہمارے لئے نئی راہیں کھولتی ہیں۔  انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ عنایت کیا ہے تو انسان کی عظمت کا اندازہ اس روّیہ سے لگایا جا سکتا ہے جو وہ اپنی زندگی میں رونما ہونے والے غیر منصفانہ، نامناسب اور ناحق ظاہر ہونے والے واقعات کےنتیجے میں اختیار کرتا ہے۔ زندگی میں رونما ہونے والے واقعات پر ہمیں اختیار نہیں ہے لیکن اس کے جواب میں ہم جو روّیہ اختیار کرتے ہیں وہ ہمارے اختیار میں ہے تو کیوں نہ ہم  اپنے اس اختیا ر کو عمل میں لاتے ہوئے اللہ کی بخشی بے شمار نعمتوں کا بھر پور شکر ادا کریں جس میں سب سے بڑی نعمت یہ زندگی ہے جو اللہ نے ہمیں عطا کی ہے اس کا شکر ادا کرے کے ہمیں ایک اور سال عنایت کیا اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لئے اور اپنے ایماں اور یقین کو مستحکم کرتے ہوئے دعا کریں کے آنے والا ہر لمحہ ہماری زندگی میں خوشی  اور  تحفظ کا احساس لئے آئے گا اور نہ صرف دعا کی جائے بلکہ اس کو بہتر سے بہترین بنانے کے لئے اپنے حصّے کا کام انجام دیں ۔

نیا سال دنیا بھر کے تمام لوگوں کے لئے خیر و عافیت اور خوشی کا پیغام بنے۔ آمین

ثمینہ طارق

جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔