صفحات

جمعہ، 16 مئی، 2014

لمحہء موجود

وقت بدلتا ہے اور  وقت کے ساتھ حالات بھی بدل جاتے ہیں۔جو کل تھا وہ آج نہیں ہے اور جو آج ہے وہ کل نہیں رہے گا۔ ماضی یاد بن کر رہتا ہے تو  مستقبل خواب  بن کر۔ کبھی دونو ں اک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں اور نہ ہی کسی ایک کو بھی قید کیا جا سکتا ہے۔ ہماری گرفت میں جو ہے وہ صر ف لمحہء موجود ہی ہے۔ وہ لمحہ جسے ہم ابھی جی رہے ہیں ، جسے ہم ابھی گزار رہے ہیں۔جس میں ہم سانس لے رہے ہیں  اور جو ہمارے وجود کو زندگی کی سچائی کا یقین بخش رہا ہے کہ ہم ابھی حیات ہے اور سب کچھ اُس وقت تک ہمارے اختیار میں ہیں جب تک سانس چل رہی ہے اور لمحہء موجود ہمارے اختیار میں ہیں۔

یہی لمحہء موجود ہماری حیات کو روشن رکھتا ہے اور ہمیں جینے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے اور آنے والے کل سے پُر اُمید رکھتا ہے۔ یہی لمحہء موجود ہے جو ہمیں گزرے کل کی آزمائشوں سے سب سیکھنے میں مدد کرتا ہے کیونکہ گزرا کل صرف یاد  بن کر رہ جاتا ہے اور اگر یادیں حسیں ہو تو آنے والا ہر لمحہ روشن اور خوشگوار ہوتا ہے جبکہ یادوں میں صرف درد ہو تو  آنے والا ہر لمحہ درد سے پُر ہوتا ہے۔ پھر چاہے لمحہء موجود میں ہم خوشی سے ہمکنار ہی کیوں نہ ہو ماضی ہمارے حواسوں پر چھایا رہتا ہے اور جینا مشکل کر دیتا ہے تو کیوں نہ اس لمحہ ء موجود کو اپنی گرفت میں کرکے اسے یقینی طور پر پُر مسرت بنائے کہ یہ مستقبل میں ماضی کی حسیں یاد کے طور پر ہمارے ساتھ رہے نہ کہ دکھ اور درد کی علامت بن کر۔

وقت اور حالات کبھی بھی کسی بھی موڑ پر بدل سکتے ہیں ا ور یہ ہماری مادی اشیاء پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ہمارے پاس جو آج ہے وہ کل نہیں رہے گا یہاں تک کہ ہمارے رشتے بھی۔ وقت کے ساتھ ہم اپنے بہت سے پیارے رشتوں کو گنوا دیتے ہیں کبھی اپنی کسی غلطی یا کوتاہی کی بنا پر اور کبھی موت کے ہیبت ناک وار سے مجبور ہوکر۔ زندگی کے کسی لمحے کی کوئی خبر نہیں ہم خود بھی آج ہے اور شائد کل نہ ہو۔پیچھے جو رہتا ہے وہ یادوں کی صورت رہتا ہے اس لئیے اپنے آج کو محسوس کریں اور اس کی اہمیت سے آگاہ ہو کر ان قیمتی لمحات کو اتنا خوبصورت بنائے کہ آنے والے کل میں وہ آپ کا حسیں سہارا بنے یا  آپ کے بعد آپ کے اپنوں کو سہارا دے سکے۔یادیں ہی ہمارا قیمتی سرمایہ ہے جو کوئی ہم سے نہیں چھین سکتا ہے لیکن ان یادوں کو خوبصورت بنانے کے لئے آج کو اپنی گرفت میں لینا پرے گا۔ لمحہء موجود کو بھر پور انداز میں جینا پرے گا۔نہ کل کچھ تھا نہ کل کچھ ہوگا۔ جو کچھ ہے وہ اسی لمحہء موجود میں پوشیدہ ہے۔ جو تھام لیا تو سب کچھ پا لیا اور جو چھوڑ دیا تو سب کچھ کھو دیا۔

ثمینہ طارق


جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔

بدھ، 7 مئی، 2014

چہرے

بچہ  جب سے اس دنیا میں وارد ہوتا ہےاور پہلی بار آنکھ کھولتا ہےاُسی وقت سے اپنے اِرد گرد کئ چہروں کو رواں دیکھتا ہے۔ آہستہ آہستہ ان چہروں میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ پہلے گھر کے افراد ، پھر خاندان بھر کےاور پھر باہر کی دنیا میں روزانہ ہزاروں چہروں سے متعارف ہوتا ہے۔

چہرے ساخت کی مناسبت سے مختلف ہوتے ہیں مثلاً لمبے، گول، چبوترے، پھولے ہوئے ، پچکے ہوئے وغیرہ۔ اسی طرح  تاثرات بھی انسان کے چہرے کو مختلف بناتے ہیں مثلاً خوش، خطرناک، خوفناک ، اُداس، پُر جوش وغیرہ۔ انسان کا چہرہ اس کے اندرونی حالات کی  نشاندہی کرتا ہے یعنی چہرہ انسان کی نہ صرف اس لئے پہچان بنتا ہے کہ وہ اک مخصوص چہرہ ہوتا ہے اور ہر کسی کا چہرہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ، بلکہ انسان کا چہرہ اُس کے جزبات و احساسات کا ترجمان بھی ہوتا ہے۔ انسان چاہے یا نہ چاہے اُس کے جزبات و احساسات کا اظہار اُس کے چہرے سے ہو جاتا ہے اور چہرہ اندازِ گفتگو کی اک قسم  بن جاتا ہے۔ زبان سے لفظ ادا ہو یا نہ ہو انسان کا چہرہ اُس کا دُکھ، خوشی ، محبت، نفرت غرض ہر قسم کے جزبات کو ظاہر کر دیتا ہے فقط اُس کو پڑھنے والی نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔

 انسان کا دماغ ہر وقت کسی نہ کسی سوچ میں مبتلا رہتا ہے اور اُس کی یہی سوچ اُس کے چہرے پر لفط بن کر بکھر جاتی ہے۔ ایک عام انسان اپنے جزبات کو اپنے چہرے پر ظاہر ہونے سے نہیں روک پاتا ہے لیکن جو بہت مضبوط اعصاب کے مالک لوگ ہوتے ہیں وہ اکثر اپنے چہروں پر خول چڑھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے درد کو مسکراہٹ کے پیچھے چھپانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن اس درد کو بھی پڑھنے والی آنکھ پڑھ اور محسوس کر لیتی ہے اور وہ یہی سوچتا رہتا ہے کہ وہ سب سے چھپ کر رہنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

بعض اوقات انسان  جو کچھ محسوس کرتا ہےاُس کا اظہار لفظوں میں کرنا اُس کے لئے ممکن نہیں ہو پاتا ہے اور وہ ہی سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ سامنے والے کو کس طرح بتایا جائے جب کہ انجانے میں اُس کا چہرہ وہ سب کچھ کہہ جاتا ہے جو اُس کی زبان کہنے سے گھبراتی ہے اسی لئے اکژ اوقات جب ہمارے کچھ کہے بناکوئی  ہمارے دل کا حال جان لیتا ہیں تو ہم حیران رہتے ہے کہ اس نے کس طرح جانا۔ایسے لوگ چہرے پڑھنے کا فن رکھتے ہیں اور وہ دلوں میں چھپی محبت، نفرت، حسد ، بدگمانی اور کینہ جیسی تمام کیفیات کو ہمارے چہروں پر پڑھ لیتے ہیں۔

اکثر  لوگ  اپنے اوپر ایک خول چڑھا کر  رکھتے ہیں ۔ دلوں میں کینہ اور حسد رکھتے ہوئے بھی  چہروں پر مسکراہٹ رکھتے ہیں لیکن اُن کے چہرے اُن کے اندر کے مکروہ پن کو ظاہر کر ہی دیتے ہیں ۔اسی طرح کچھ لوگ  ہوتے تو بہت نرم دل ہیں اور آپ کے لیے دل میں نرمی اور محبت کے جزبات رکھتے ہیں لیکن مصلحتً اُنہیں ظاہر نہیں کرتے ہیں اور اُنہیں دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت غصیلے ہیں اور ابھی لڑ پرے گے لیکن حقیقتً وہ خود کو ہی دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ اُن کے چہرے اُن کے دلوں کا حال واضح کر دیتے ہیں۔

لیکن ان تمام لوگوں کے درمیان ایسے لوگ بھی موجود ہے جن کا ظاہر اور باطن یکساں ہوتا  ہے جو دلوں میں محبتیں رکھتے ہیں تو اُن کے چہرے بھی ان محبتوں کے نور سے روشن رہتے ہیں اور  ظاہر اور باطن کی ہیں یکجہتی انہیں سب میں ممتاز کر دیتی ہیں ۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق انسان کی یاداشت میں خوبصورت چہرے باقی نہیں رہتے ہیں وہ خوبصورت  چہروں کی بنسبت ایسےچہروں کو زیادہ اچھی طرح یاد رکھ سکتا ہے جس میں کچھ نمایاں بات یا مخصوص نشانات موجود ہو۔ تو ظاہر و باطن کی یہی یکجہتی انسان کے چہرے کو مخصوص بنا دیتی ہےاور سب میں نمایاں کر دیتی ہیں پھر  ایسے چہروں کو ایک بار دیکھنے کے بعد  اُس کو بھول جانا ممکن نہیں ہوتا۔

زندگی ایک سفر ہے اور اس سفر کے دوران ہم ہزاروں چہروں سے متعارف ہوتے ہیں  اور اُن کا مشاہدہ بھی کرتے ہوئے اُن سے بہت کچھ سیکھتے ہیں اور اگر زندگی میں ہمیں ایک بھی ایسا چہرہ نظر آجائے جس کے لئےہمارا دل گواہی دے کہ اس کا ظاہر و باطن یکساں ہے تو پھر اس چہرے کو بھولنا ممکن نہیں رہتا  اور اگر ایک بار اس چہرے کو دیکھنے کے بعد ہم دوبارہ کسی مقام پر اُسے دیکھ لے تو کوشش کے باوجود اپنی نگاہوں کو اُس کی طرح اُٹھنے سے روک نہیں سکتے ہیں۔ ایسے اُجلے اور بولتے چہرے سے  اپنے آپ کو بچانا ممکن ہی نہیں ہے اور اُنہیں دیکھ کر دل کو جو راحت میسر آتی ہے اُس کا کوئی مول نہیں۔

ایسا ہی ایک چہرہ کچھ عرصہ قبل فیس بک پر ایک فرینڈ کی کسی پوسٹ کے کمینٹ پڑھتے ہوئے دیکھنے کو ملا اور ایک ہی نظر میں دل میں اُترے اُس چہرے کو کبھی نہ بھول پائی ۔ پچھلے دنوں سفر سے واپسی پر ہوائی جہاز میں اُس چہرے پر اُس وقت نظر پڑی جب میں اپنی سیٹ پر بیٹھنے جا رہی تھی اور نظر ملتے ہی اُن کے چہرے پر کھلتی مسکراہٹ نے مجھے بھی پورے دل سے مسکرانے پر مجبور کر دیا اور سارا سفر اس احساس کے ساتھ بہترین گزرا کہ ایک  ایسی ہستی میری سیٹ کے پیچھے براجمان ہے جس کا  چہرہ  اُس کے دل کی زبان بولتا ہے۔ ایئر پورٹ پر اُتر کر بھی میری نطر اُس چہرے سے  نہ ہٹ پائی ۔ ایک بار دیکھنے پر میں اُس چہرے کو نہ بھول پائی تھی تو اب دو گھنٹے ساتھ سفر کرنے پر کبھی نہ بھولوں گی۔میں اُن کے بارے میں اُن کے نام کے سوائے کچھ نہیں جانتی اور شاید جاننا بھی نہیں چاہتی کیونکہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً ایک زندہ دل ، محبت اور شفقت سے پیش آنے والی خاتون ہے ۔ بہت ساری نیک خواہشات اور دعایئں   اس پیاری ہستی  میڈم رحمت ابراہیم  کے نام۔

ثمینہ طارق




جملہ حقوق بحقِ خوشبو کا سفر©محفوظ ہے۔